ہیلتھ ورکرز کے ہاتھوں ویکسین کا قتل
سب سے زیادہ گندگی نچلے طبقے میں پائی جاتی ہے۔ اس ذہنی گندگی سے خلاصی کسی طرح ممکن نہیں۔ ان تہتر سالوں میں عوام کا شعور بلیغ ہو نہیں سکا۔ یہ تو ابھی تک کلکاریاں مار رہا ہے۔ نا اہل اول ہمارے عوام ہیں اور پھر حکمران۔ کورونا نے جس شدت سے دنیا اور نظام دنیا کو تلپٹ کیا ہے اہل ہوش اس سے بخوبی واقف ہیں۔ کورونا نے دوبارہ سے پھنکارنا شروع کر دیا ہے مگر ہمارے عوام ہیں کہ اپنی دھن میں مست ہیں۔ جب سے کورونا کی چوتھی لہر نے سر اٹھانا شروع کیا گورنمنٹ نے تب ہی سے اس کے جڑ سے اکھاڑنے کے لیے پر تولنا شروع کر دیے۔
شہروں، محلوں میں موجود طبی یونٹس کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ گھر گھر جا کے ویکسین لگائیں۔ کشمیر کے الیکشن کے سلسلے میں، جہاں پی ٹی آئی کی جیت یقینی نظر آ رہی تھی، ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشن جانا ہوا۔ وہاں عوام کو ویکسین یاب کرنے کے لیے ہیلتھ ورکرز کا عملہ بھی موجود تھا۔ مگر ہیلتھ ورکرز کو نہایت اضطراب کا شکار پایا، جو آپس میں چہ مگوئیاں کر رہے تھے کہ اسی بندوں کو ویکسین لگانا ضروری ہے۔ یہ آرڈر اوپر سے آئے ہیں۔
اگر اسی بندے پورے نہ ہو سکے تو ہم سب کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔ گاؤں میں اسی بندے، جو کے چلو سے ہیں، پورے کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ اگر الیکشن کے دوران برادری ووٹ ڈالنے میں آڑے آ سکتی ہے تو ویکسین کہ لیے کیوں نہیں آتی۔ اگر پولنگ اسٹیشن میں ووٹ ہی ان لوگوں کو کاسٹ کرنے دیا جاتا تو اسی بندوں کا شمار بالکل بھی مشکل نہ تھا۔ البتہ عوام اور ہیلتھ ورکرز کے درمیان بلی چوہے کا کھیل صبح سے جاری تھا۔ بمشکل پینتیس بندے ویکسین یاب ہوئے۔ حتیٰ کہ ہیلتھ ورکرز کے گھر والوں تک نے ویکسین نہیں لگوائی تھی، خیر یہ بات برسبیل تذکرہ تھی۔
عوام کے اندر ان دیکھا خوف نفوذ کر چکا ہے کہ ویکسین زہر ناک ہے۔ اس سے موت یقینی ہے۔ ان شکوک ہی کہ بنا پہ سب کہ رہے ہیں، جس کو ہو جان و دل عزیز اس گلی میں جائے کیوں۔ ہم نے اپنی سہولت کو دیکھتے ہوئے ویکسین لگوا لی۔ اب اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمیں جان و دل عزیز نہیں ہیں۔ عملے نے جب دیکھا کہ اسی کی بجائے چالیس بندے بھی پورے نہیں ہوئے تو، عملے میں موجود، اک ہونہار، برق دماغ لڑکے نے ایک ہی سرنج میں چار ویکسین بھر لیں، اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی۔
ہمیں اس بازیچے کی سمجھ نہ آ سکی۔ اپنی افتاد طبع سے مجبور ہوتے ہوئے ہم نے اس برق دماغ لڑکے کی طرف سوال لڑھکایا کہ ایک ہی سرنج میں چار ویکسین کیوں؟ تو اس نے کہا، ”میرے ساتھ بیٹھی خواتین کو گھر جانا ہے، چولہا چوکا سنبھالنا ہے، بچوں کے لیے رات کا کھانا تیار کرنا ہے، اس لیے یہ سب ساز و سامان، ادویات، اپنے ساتھ لے جائیں اور ہم یہ سرنج، اس میں موجود چار ویکسینز کا مواد، چار لوگوں کو لگا دیں گے۔“ اس کو برق دماغی کہیے یا کندۂ ناتراشی یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔ اک طرف ویکسین کی قلت ہے، دوسری طرف کورونا کی چوتھی لہر ہمیں آ دبوچنے کو ہے اور تیسری طرف ہم جہالت پر اترے ہوئے ہیں۔
اب ان ضائع شدہ ویکسینز کا کیا، جو گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول کی مٹی میں جذب ہو کے خشک بھی ہو چکی ہیں؟ ہماری گورنمنٹ جبراً عملے سے کام لے رہی ہے اور عملہ غصے میں جھونجھتے ہوئے ویکسینز بہا رہا ہے، یا الہی یہ ماجرا کیا ہے۔ گورنمنٹ کو چاہیے پہلے عملے کی تربیت کرے، ان پہ سختی کرے، ان کے اخلاقیات پہ ضرب لگائے، اور یہ بات ان کے اذہان میں بٹھائے کہ کورونا اک حقیقت ہے۔ یہ قصہ اک گاؤں کا ہے۔ پاکستان میں بے شمار دیہات ہیں۔ ان میں سے پیشتر دیہاتوں میں ایسی وارداتیں یقیناً ہو رہی ہیں۔ ہماری پولیس بھی ان جہلا کے ساتھ اس کار خیر میں برابر کی شریک ہے۔ ہمیں آج یہ بات سمجھ آ گئی کے جبر تلے جہالت ہے۔ پاکستان کو ویکسین سے زیادہ تعلیم کی ضرورت ہے۔ اے کاش! تعلیم و اخلاقیات کی بھی ویکسین ہوئی!
اگر کورونا پاکستان کے نظام معیشت کو میخ سے اکھاڑ پھینکتا ہے، شدید نقصان پہنچاتا ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ عوام اور ہیلتھ ورکرز کا رویہ ہو گا۔ ایسی کندۂ ناتراش، کوتاہ عقلوں کا علاج ہونا چاہیے جو ویکسین کو کس بے دردی سے ضائع کر دیتے ہیں۔
- صدیق اعوان صاحب: شخص ہفت رنگ - 07/02/2022
- گورنمنٹ کالج، لاہور میں اک عشائیے پہ کی گئی تقریر - 08/11/2021
- نیو ہاسٹل الوداع - 13/09/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).