امانت دیانت صداقت شرافت اور الیکشن


دنیا بھر میں جمہوری حکومتوں کا قیام انتخابات کے ذریعے عمل میں لایا جاتا ہے۔ انتخابات کو شفاف اور منصفانہ بنانے کے لئے سیاسی مفکرین اور عالمی ادارے معیار، اصولوں اور ضابطوں کا تعین کرتے ہیں۔ انتخابات کی شفافیت جاننے کے لئے نیشنل ڈیموکریٹک انسٹی ٹیوٹ ذیل الیکشن اسٹینڈرڈز مقرر کرتا ہے۔ ( 1) پر امن سیاسی اجتماع کی آزادی (2) معلومات حاصل کرنے کی آزادی (3) سیاسی اظہار رائے کی آزادی ( 4) آزادانہ نقل و حرکت کی آزادی (5) سیاسی پسند نا پسند کی آزادی (6) سیاسی اتحاد بنانے کی آزادی۔

الیکشن کے انعقاد کے وقت ذیل اصول و ضوابط کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ (1) امیدوار کو یقین ہو کہ وہ سیاسی معاملات میں ہر قسم کے پریشر اور اثر و رسوخ سے آزاد ہے (2) امیدوار کے علم میں ہو کہ اس کا مقابلہ کس سے ہے (3) انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہو اور اس میں کسی قسم کی نامعقولیت اور رخنہ اندازی کا عنصر نہ ہو (4) ایک آزاد اور خودمختار ادارہ جو الیکشن کو منصفانہ اور غیر جانبدار بنانے کے لئے قوانین کی سختی سے پاسداری کرے (5) ایک صحت مند سیاسی ماحول میں ہر امیدوار کو ووٹر تک رسائی حاصل ہو تاکہ وہ اپنا پیغام آزادانہ طریقے سے پہنچا سکے (6) ذرائع ابلاغ کے نمائندے بغیر کسی رکاوٹ کے معلومات اکٹھی کر سکیں اور انھیں اشاعت کی مکمل آزادی ہو (7) شہری اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں انتخابی عمل میں اپنا کردار ادا کر سکیں (8) قانون میں ایسی کوئی سقم موجود نہ ہو کہ امیدواروں اور ووٹروں کے تحفظات کا موثر اور بروقت ازالہ نہ ہو سکے۔

انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے لئے تمام انتخابی عمل کا بغور مشاہدہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ انتخابی عمل پر تبصرہ کرنے کے لئے ذیل اصول و ضوابط متعین کیے جاتے ہیں۔ (1) مبصرین کو انتخابی عمل کا جائزہ لینے کے لئے مکمل آزادی حاصل ہو (2) ریاست مبصرین کے تحفظ کی مکمل ذمہ دار ہے (3) انتخابی عملہ مبصرین کے ساتھ تعاون کو یقینی بنائے گا (4) مبصرین کو انتخابات سے قبل و پیشتر پولنگ اسٹیشن و دیگر انتخابی دفاتر تک مکمل رسائی حاصل ہو (5) مبصرین کو قانونی طور پر سرکاری و غیر سرکاری دفاتر، سیاسی جماعتوں، ووٹر اور امیدواروں سے الیکشن سے متعلق تمام معلومات لینے کی اجازت ہو گی (6) مبصر گروپس ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں (7) مبصرین غیر جانبدار رہیں گے اور ملکی سلامتی و قومی حمیت کو ملحوظ خاطر رکھیں گے۔

پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں آمریت کے اندھیرے ابھی تک جمہوریت کی روشنی سے زیادہ چمک دار ہیں۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے رویے، ادارے اور سیاسی جماعتیں جمہوری اقدار سے تاحال نابلد ہیں۔ ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ اب بھی سیاست میں اداروں کی مداخلت کو پسند کرتا ہے۔ اس وقت پاکستان کا سیاسی منظر نامہ اخلاقی بحران کی عملی تصویر پیش کر رہا ہے۔ سیاست، حکومت و قانون سازی کے وہ تمام اصول جو اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے مقرر کیے تھے جن کی عملی تصویر ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے پیش کی تھی آج بالکل ناپید ہیں۔

ان پر عمل تو درکنار کوئی مطالعہ ہی نہیں کرنا چاہتا۔ تمام سیاسی جماعتوں سے آئین اور قانون کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔ ریاست کے چاروں ستون نتائج سے بے خبر ایک نامعلوم منزل کی طرف جا رہے ہیں۔ معاشرہ بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ گالی گلوچ، عدم برداشت اور تشدد کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ ہم سیاسی پسند ناپسند میں رشتوں کے تقدس کو بھول بیٹھے ہیں۔ بے مہار او ر سیاسی اخلاقیات سے عاری الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ عوام صحیح اور غلط میں فرق کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں۔

رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے جہاں ماجا اور گاما، ڈاکٹر فردوس اکبر کے روپ میں سینئر تجزیہ نگار کے طور پر پوری طرح جلوہ گر ہیں جو سیاسی نظریات کی خاطر تواضع نفرت اور گالی سے کر رہے ہیں۔ معاشرتی تقسیم اس حد تک گہری ہو چکی ہے کہ ووٹر کو بیسیوں حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ معاملہ مذہب، لسانیت اور صوبائیت سے بہت آگے جا چکا ہے۔ اب سیاسی پسند نا پسند کا فیصلہ اداروں کے ٹکراؤ، اداروں کی سیاسی عمل میں مداخلت، عدالتی فیصلوں اور میڈیا کے پیش کردہ سیاسی منظرنامے کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے۔

قائدین کے وژن، سیاسی جماعتوں کے منشور اور حکومتی کارکردگی کی بجائے برادری، گروپ بندی، ذاتی عناد اور پیسے کی چمک انتخابی مہم کا حصہ ہیں۔ ووٹر کو تھانہ، کچہری اور پٹواری کے معاملات میں حمایت اور مخالفت کے واسطے اور مستقبل کے لئے بھی ایسے ہی عندیے دیے جا رہے ہیں۔ ہم ایک عرصہ تک مذہبی انتہا پسندی کا شکار رہے ہیں اور اب نفرت کا ایسا بیج بویا جا رہا ہے کہ ہمارا معاشرہ آہستہ آہستہ سیاسی انتہا پسندی کی طرف بڑھ رہا ہے جو آنے والی نسلوں کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

موجودہ نوجوان نسل اپنے ذہنوں میں اٹھنے والے ماضی سے متعلق سوالات اور مستقبل سے وابستہ خدشات کا کھلے عام اظہار کر رہی ہے اور سیاسی قیادت کے پاس ان سوالات اور خدشات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں۔ عسکری قیادت اور اعلیٰ عدلیہ بھی الزامات کی زد میں ہیں لیکن عوامی سطح پر اضطراب کی سی کیفیت کا ادراک نہیں کیا جا رہا۔ تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کو اپنا آخری معرکہ تصور کرتی ہیں۔ گھسے پٹے نعروں اور الزامات سے بھر پور انتخابی مہم جاری چلائی جاتی ہے لیکن ملکی سلامتی، معاشرتی ہم آہنگی، باہمی عزت و احترام اور فروغ انسانیت کسی بھی سیاسی جماعت کی ترجیحات میں شامل نہیں جو وقت کی اہم ضرورت ہیں۔

جھوٹ، منافقت، سینہ زوری اور طاقت کے بے دریغ استعمال سمیت ہر وہ حربہ استعمال کیا جا رہا ہے جن کی مدد سے الیکشن تو جیتا جا سکتا ہے لیکن آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ نہیں بنایا جا سکتا۔ اس بے یقینی کی صورتحال اور ہیجانی کیفیت کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ دو سال بعد ہونے والے انتخابات میں پاکستان کا ایک اور چہرہ وجود میں آئے گا جو ضروری نہیں کہ معاشرتی لحاظ سے بہتر ہو کیونکہ اس وقت ہمارا معاشرہ، ہماری سیاست، ہماری روایات اور ہمارے رویے مسلسل پستی کی طرف جا رہے ہیں جو آنے والے وقتوں میں مزید بدتر ہو سکتے ہیں۔ یہ سب ہونے کے باوجود بھی معاملہ عوامی عدالت میں ہے۔ عوام ہی وکیل اور عوام ہی منصف ہیں۔ فیصلہ بھی عوام نے ہی کرنا ہے۔ دعا ہے کہ مملکت خداداد کو ایماندار اور اہل قیادت نصیب ہو جو پاکستان کی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments