چیختے چنگھاڑتے گدھے….


\"\"بے شک یہ ہماری پسماندگی، کم علمی اور دانستہ بلکہ خود ساختہ بے خبری ہے کہ ہم نظریات اور نظام کے بجائے اداروں اور اشخاص کو موردالزام ٹھہراتے ہیں۔ اس الزام تراشی کے سہل معمول کی ہمیں ایسی لت لگی ہے کہ اپنے سوا ہمیں کوئی صحیح، معقول یا مناسب معلوم ہی نہیں ہوتا۔ جھٹ اسے جھٹلانے کے سوحیلے دماغ میں کلبلانے لگتے ہیں۔
دلچسپ مگر بیک وقت خوفناک اور قابل تشویش امر یہ ہے کہ اگر اس ذہنی نابینا بھیڑ سے چھٹ کر کوئی بصارت سے بصیرت کا سفر طے کرنے والا نشان دہی کرے تو ہم اسے خود پہ اٹھنے والی تنقیدی انگلی گمان کر کے کافر، ملحد، دہریے کے طعنوں کے نشتر اوردیسی لبرل ، یہودی ایجنٹ اور دجال کے سپاہ کے طنز کے بھالوں سے چھید ڈالتے ہیں۔
حقیقت میں اپنی بقا کے لیے سرگرداں اور جینے کے مادی و غیر مادی سامان سے محرومی کے احساس کمتری میں مبتلا اس ہجوم نے جسے ہم معاشرہ کہتے ہیں، سوچنے سمجھنے، غور کرنے اور صحیح غلط کی پہچان رکھنے والے علم کی محنت طلب مگر حق بجانب جستجو کے لیے تگ و دو کو بالائے طاق رکھ چھوڑا ہے۔ لوگوں نے عقیدے، روایات اور رسم و رواج کے اختلاف پر’ٹھکرائے جانے کے خوف‘ کے چابک کی مار پہ ہی چلنے کو زندگی سمجھ لیا ہے۔ ان گدھوں کی پشت پہ برسنے والے چابک کی دستار چاہ فرعونیت کے نادیدہ ہاتھوں نے تھام رکھی ہے جو پس منظر میں کل پہ قدرت کے خواہاں ہیں۔ ان کی بقا اقتدار کی قبضہ کنجی کے اپنی انگلیوں میں لہرانے میں ہے۔
بادل نخواستہ کوئی ذی حس اپنے یا اپنوں کے حق کو پامال ہوتا دیکھ کر فریاد و استغاثہ بلند کرتا ہے تو یہ انساں کے لبادے میں ملبوس خود کو خدا کے ٹھیکیدار اور زمین کے حق دار سمجھنے والے اپنے عاجز گدھوں کو ان کے پیچھے لگا دیتے ہیں۔ جو اپنی لاعلمی کی بھونڈی آوازوں سے حشر بپا کر دیتے ہیں۔
ایسی ہی کتنی بے ہنگم اور چنگھاڑتی آوازیں زمانوں سے تاعرش اپنے شوروشین سے روئے زمین کے نہ سنور پانے کا سبب ہیں۔ یہ آوازیں \"\"دین دشمنی، ملک غداری اور سماجی ابتلا کے فقرے کسنے سے شروع ہوتی ہیں اور پھر مغلظات اورملحد و کفر کے نعروں سے ہوتی ہوئی کسی ذہنی پسماندہ دماغ میں ہیجان پیدا کرتی قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دینے کا سامان کر دیتی ہیں۔ پھر فساد و انتشار کے سبب گھبرا کر یہ اپنے آقا کی طرف دیکھتے ہیں تو انہیں پھر سے نئے انداز سے نئے چابک سے ڈرا کر اسی اندھی گلی میں دھکیل دیا جا تا ہے۔
یہ آقا جو سماج سے سیاست تک اور مذہب سے ریاست تک صرف اپنی بقا اور اس کے استحکام کے لیے مصروف عمل ہیں ، یہ کوئی برترگروہ یا اعلیٰ منصب پہ براجمان اشخاص نہیں بلکہ انسان میں سسکتی نمرودی سوچ کا نام ہے جو خدا کا منکر ہو نہ ہو، اپنے مئے حکمرانی کے نشے میں چور اس کی مخلوق کو دست نگر رکھنا چاہتی ہے۔ اس کا نظریہ ترقی صرف خود کو اعلیٰ ترین پائیدان تک پہنچانا نہیں بلکہ نچلے پائیدان پہ کوئی قدم نہ رکھ پائے، کی سعی ہے۔ مبادا کوئی یہ مرحلہ طے کر پایا تو اس کے مقابل…. نہ بلکہ اس سے آگے ہی کیوں نہ بڑھ جائے اور پھر اس کو آلینے کے لیے وہی کھیل نہ شروع کردے جو یہ اب تک کھیلتی رہی۔ یہ مقصد بھی بڑی محنت، لگن اور جستجو کا متقاضی ہے تو یہ الزام لگانا بھی سراسر بے معنی ہے کہ سستی، کاہلی اور سہل پسندی کے سبب یہ زبوں حالی عوام کے منہ کو آئی ہے۔ مگر عیاری، خود غرضی اور ہوس کی مٹی سے گندھے اپنے مرضی کے علم اور خواہش پہ مبنی معلومات نے برسہا برس سے حقوق کی جڑوں کو ایسے جکڑ رکھا ہے کہ ان جڑوں نے زمین میں اپنے لیے راستہ بنانا ہی چھوڑ دیا ہے۔
یہ ہمارے سماج ہی کی نہیں دور حاضر میں کم یا زیادہ ہر معاشرے کی بپتا ہے مگر افسوس اپنی اس تضادات میں منقسم قوم کی سب سے زیادہ ناگفتہ بہ حالت زار پر ہے جو زخموں سے چور ہے مگر اس کے تازیانے، بھالے، تیر و نشتر کم نہیں ہوتے۔ اس کے عقیدے کا بیان تو’امن‘ ہے جس کا اقرار چاہیے مگر صرف دوسروں سے۔ خود اس پر عمل کے کڑے امتحان سے گزرنے کی اس ریوڑ میں تاب نہیں۔ اس کے نظریات میں زمانہ جاہلیت کی جنگ و جدل اورصرف اپنی سوچ کی برتری کی بربریت ہے۔ اس قوم کو فرق نہیں پڑتا کہ کل منصور مارا جائے یا آج سلمان اٹھا لیا جائے۔
یہاں وہ گدھوں کی دوڑ جاری ہے جہاں چابک لگنے پر بس منہ اٹھا کر چنگھاڑتے ہوئے آسمان سر پہ اٹھائے رکھنا فرض و منبع حیات ہے۔ کبھی چابک لگنے سے زخمی ہونے کے ڈر سے ….کبھی چابک لگ کر لہو لہان ہونے کی کراہ سے….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments