گلگت بلتستان یا مسائلستان؟


آپ نے اکثر سنا ہوگا گلگت بلتستان سویٹزرلینڈ سے خوبصورت ہے کبھی دنیا کے کسی اور ترقی یافتہ ملک سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اب یہ نعرے سن کے ہمارے سادی عوام واہ واہ کرتے ہیں۔ گلگت بلتستان دس اضلاع اور تین ڈویژن پہ مشتمل علاقہ ہے یہاں کی آبادی تقریباً بیس لاکھ اور ایریا اٹھائیس ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ گلگت بلتستان کا جغرافیہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ گلگت بلتستان کی سرحدیں چین روس کی ریاست تاجکستان بھارت کے زیر انتظام علاقوں سے لگتی ہیں۔

گلگت بلتستان جانے کے لیے آپ کے کے ایچ یا بابوسر روڈ کا استعمال کر سکتے ہو۔ اس کے علاوہ چترال سے شندور کے راستے سے بھی جا سکتے ہو۔ یہ تھا ایک مختصر سا تعارف باقی گلگت بلتستان خوبصورتی کے لحاظ سے بیشک دنیا کے چند ایک علاقوں میں سے ہے۔ لیکن اس علاقے کے باسی اکیسویں صدی میں بھی بنیادی انسانی ضروریات کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ میں گلگت بلتستان کے چیدہ چیدہ مسائل آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ مثلاً بجلی کا شدید بحران ہے صاف پانی۔ تعلیمی ادارے۔ میڈیکل کالج انجنیئرنگ یونیورسٹی ٹیکنیکل کالج انٹرنیٹ صحت کا نظام یہ سب کے سب یا تو ہے ہی نہیں اگر ہے تو ناکارہ ہے۔ اب کچھ سوال اٹھائیں گے کہ گلگت بلتستان کے لوگ بہت پڑھے لکھے ہوتے ہیں آپ یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں تو ان کے تسلی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ حضور ہمارے ہاں جن علاقوں میں تعلیم بہتر ہے وہ پرائیویٹ سیکٹر کی وجہ سے ورنہ سرکاری سکول کم بھوت بنگلہ زیادہ لگتے ہیں۔ اور ایک اہم بات گلگت بلتستان سے شاید ایک فیصد بچہ یونیورسٹی لائف دیکھ سکتا ہے۔

باقی میٹرک کے بعد یا تعلیم کو خیرباد کر کے فوج میں بھرتی ہو جاتے ہیں یا علامہ اقبال سے بی اے بی ایڈ کر کے استاد بھرتی ہو جاتے ہیں یا کسی اور ادارے میں۔ چونکہ میں نے پہلے بجلی کی بات کی تھی تو اس پہ آپ کو اس بابت تھوڑی تفصیل دیتا چلوں۔ گلگت بلتستان کو بجلی کی جو ضرورت ہے وہ تقریباً دو سو دس میگاواٹ تک کی ہے۔ اس وقت جو پاور ہاوسز سرکاری کھاتوں میں ہیں وہ تو اس سے شاید زیادہ بجلی پیدا کر رہے ہوں لیکن حقیقت میں اس وقت گلگت بلتستان میں بیس بیس گھنٹوں کے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے کئی علاقوں میں دو دو دن بعد نمبر اتا ہے۔

اب جب بجلی نا ہو تو زندگی کے تمام پہیے جام ہو جاتے ہیں بجلی کا ڈائریکٹ لنک تعلیم کے ساتھ صحت کے ساتھ انڈسٹری کے ساتھ ہے انٹرنیٹ کے ساتھ یہ اور صاف پانی کے ساتھ ہے۔ گلگت بلتستان کسی ایک شہر میں اگر صاف پانی بجلی انٹرنیٹ صحت اور تعلیم کا نظام موجود نہیں۔ صورت حال اس قدر ابتر ہے کہ گلگت شہر جو کے دارالخلافہ یہ وہاں پہ لوگوں کو صاف تو چھوڑو گندا پانی پینے کو نہیں مل رہا آئے روز جلسے جلوس ہوتے ہیں تو باقی شہروں کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔

اب یہ مت پوچھنا وہاں اتنے بڑے دریا ہے تو پانی کا مسئلہ کیوں تو یہ نالائقیاں حکمرانوں سے لے کر انتظامیہ سب کی۔ ہمارے ہاں ایک محکمہ ہیں جس کا کام چور پیدا کرنا جیسے عرف عام میں پی ڈبلیو ڈی کہا جاتا ہے یہ محکمہ اس قدر کرپٹ ہے یہاں سیکٹری سے لے کر منشی تک سب کرپشن کرتے ہیں اب اس ادارے کے حوالے سے کسی اور دن۔ لکھوں گا۔ تعلیم اور صحت معاشرے کے دو بنیادی ستون ہیں لیکن جی بی میں ان دونوں کے حالت قابل رحم ہے ہسپتالوں کے حالت یہ ہے کہ جہاں ڈاکٹر ہے وہاں مشنری نہیں اور جہان مشنری ہے وہاں ڈاکٹر نہیں۔

ہمارے ایک عزیز سرجن ہے ان کا دیامیر ہسپتال میں دو سال ڈیوٹی رہی ان کا کہنا ہے وہ جس شعبے کا ماہر وہاں اس کے بنیادی آلات ہی نہیں تھے مجھ سے میڈیکل افسر کا کام لیا گیا۔ باقی تعلیم وہ تو ناپید ہے۔ جو پرائیویٹ فیس افورڈ کر سکتا ہے وہ بچوں کو پڑھاتا ہے ورنہ اکثر و بیشتر دیہی سکول میں پڑھنے والے بچے میٹرک کرنے کے کے بعد بھی درخواست نہیں لکھ پاتے ہیں۔ اب آپ فیصلہ کریں گلگت بلتستان مسائلستان ہے کہ نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments