ٹوپی


رحمان بابا جب اورنگ زیب بادشاہ کے بارے میں رقمطراز ہوئے کہ۔
اورنگ زیب ہم یو باچا وہ
چی ٹوپی یہ وہ پہ سر

یعنی اورنگ زیب بھی ایک باچا گزرے ہیں جو ٹوپی پہنا کرتے تھے۔ رحمان بابا اور تاریخ نویسی پر تو کوئی کتاب نہیں لکھی گئی البتہ خوشحال خان خٹک اور تاریخ نویسی پر دو کتابیں ایک ڈاکٹر پروفیسر اور تاریخ داں جناب وقار علی شاہ نے جو قائد اعظم یونیورسٹی کے تاریخ کے فیکلٹی کے ڈین ریے جو متعدد کتابوں کے مصنف ہے اور حال ہی میں پشتو کے مایہ ناز شاعر اور ادیب اور باچا خان کے سیاسی خانوادے خان عبدالغنی خان کے ادبی اور سیاسی خدمات پر ایک کتاب لکھی ہے۔

اور دوسرے ڈاکٹر پروفیسر محمد زبیر حسرت نے خوشحال خان خٹک اور تاریخ نویسی پر کتاب تحریر کی ہے۔ خیر اس پر تو تفصیل میں کسی اور وقت بات کریں گے۔ جو بات رحمان بابا اور ٹوپی کے حوالے سے ہو رہی تھی اور اورنگ زیب کو مثال کے طور پر لائے ہیں کہ وہ بھی ایک بادشاہ تھے جو ٹوپی پہنا کرتے تھے۔ تو یک دم ذہن شوکت صدیقی صاحب کے اس مشہور جملے کی طرف ہو چلا کہ اورنگ زیب نے اگر ایک طرف کوئی نماز نہیں چھوڑی تو دوسری جانب انھوں نے اپنے بھائیوں میں سے بھی کسی کو نہیں چھوڑا۔

پہلے میں رحمان بابا کی ٹوپی کا مقصد کچھ اور سمجھا تھا لیکن شوکت صدیقی صاحب کے جملے سے رجوع کرنے کے بعد اب اس کا مطلب وہ سمجھ رہا ہوں جو آج کل سمجھا جاتا ہے۔ ٹوپی پہننا اگر درحقیقت ایک اچھا اور عاجزانہ فعل ہے لیکن جس طرح دیگر چیزوں میں ملاوٹ کر کے اس کی اصل کو گدلا کر دیا گیا ہے۔ بالکل اسی طرح ہر شخص نے ہر کام کے لئے ٹوپی پہن کر ٹوپی کی ساکھ کو بھی پراگندہ کر دیا ہے۔ اب ٹوپی پہننا اور ٹوپی پہنانا ایک اور معنوں میں لیا جاتا ہے۔

مثلاً جو کسی کے ساتھ ہاتھ کر جاتا ہے تو ٹوپی پہنانے کے خطابات اور القابات سے نوازا جاتا ہے۔ گو کہ ٹوپی کو اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو یہ جسم کے سب سے بلند اور عالی مرتبت والی جگہ یعنی سر پر براجمان ہوتی ہے۔ لیکن دوسری جانب پشتو کہاوت نے اس کا یہ فخر اس طرح مسخر کر دیا ہے کہ سر سلامت رہنا چاہیے ٹوپیاں بہت۔ بعض لوگ رسمً، بعض لوگ عادتاً بعض لوگ ثقافتی طور پر، بعض لوگ ثواب کی نیت سے جبکہ بعض لوگ مجبوراً ٹوپی پہنتے ہیں خصوصاً جب بندہ اوائل عمری ہی میں فارغ البال ہو چکا ہو۔

ٹوپی اپنی منصب و مسند کے لحاظ سے پرکھی اور دیکھی جاتی ہے۔ جب یہ کسی فوجی افسر کے سر ہر ہوتی ہے تو سلوٹ کی آوازوں سے نبرد آزما ہوتی ہے۔ جب یہ کسی جج کے سر پر رکھ دی جاتی ہے تو اس کے نیچے سوچنے والی عقل انصاف اور عدل کے ترازووں کے پاٹ میں توازن قائم رکھنے کی تگ و دو میں اس کی ساکھ کو بچابے کی جتن میں مصروف عمل ہوتا ہے۔ جب یہ کسی بادشاہ کے سر پر سج جاتی ہے تو تاج کے نام سے بیش بہا ہیرو اور جواہرات سے مزین کی جاتی ہے۔

اور جب کسی صدر کے سر پر رکھ دی جاتی ہے تو ”قراقول“ کے مخصوص نام سے پکاری جاتی ہے۔ ٹوپی جب اللہ کے ہاں حاضری کے لئے سر پر رکھ دی جاتی ہے تو اس کی شان اس وقت عالی شان ہوجاتی ہے جب یہ سجدے میں زمین پر مٹی اور دھول سے اٹ جاتی ہے۔ لیکن ٹوپیوں کی سب سے عاجز قسم مسجد کی ٹوپیاں ہوتی ہیں جو کسی زمانے میں چٹائی سے بنی ہوئی ہوتی تھی جو آج کل پلاسٹک سے تیار کی جاتی ہے۔ کیونکہ ایک تو یہ خیرات کے پیسوں سے لائی یا دلائی جاتی ہیں دوسرے یہ کہ یا تو یہ اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ سر پر ٹکتی نہیں اور ہر سجدے کے بعد بار بار ایک ہاتھ سے سر پر رکھنی پڑتی ہے یا اتنی بڑی ہوتی ہے کہ دونوں کانوں کو بھی اپنے آغوش میں لے لیتی ہے۔

ٹوپی علامتی طور پر اپنے مقام کی شناخت خود کرواتی ہے۔ سفید ٹوپی امن و آتشی کی علامت اور کالی ٹوپی غم کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ لیکن لال ٹوپی خطرے سے خالی نہیں ہوتی خصوصی طور پر جس وقت یہ کسی انقلابی کے سر پر ہو لیکن اگر یہ کسی مزدور کے سر پر ہو تو یہ محنتی مزدور معاشرے کے ساتھ ساتھ اس رب کا بھی دوست ہوتا ہے۔

دروغ بر گردن راوی کہ کسی زمانے میں ایوب خان نے ببانگ دھل کہا تھا کہ ”میرے سر پر اس وقت تین ٹوپیاں ہیں ایک صدارت کی، دوسری چیف آف آرمی سٹاف اور تیسری چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی۔ لیکن شاید اقتدار کے بعد وہ سلیمانی ٹوپی سر پر رکھ کے گئے کہ پھر کسی کو کہیں نظر ہی نہیں آئے۔ صوابی کے تحصیل ٹوپی کے باشندوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ٹولی پہنے یا نہ پہنے ٹوپی والے کہلاتے ہیں جیسے کسی کا نام جب حاجی ہوتا ہے تو وہ حج کرے یا نہ کرے حاجی کہلاتا ہے۔

ٹوپی اور انسان کے رشتے کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب یہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس وقت سے بچے کو نرم کپڑے کی ٹوہی پہنا دی جاتی ہے تاکہ بچے کے سر اور کانوں کا لیول ایک مخصوص زاویہ میں رہیں۔ کرکٹ میں بھی جب ایک کھلاڑی اپنے کھیل کی زندگی کا بین الاقوامی میچ کا آغاز کرتا ہے تو ان کو کیپ پہنایا جاتا ہے جو کرکٹ کی اصطلاح میں ٹیسٹ کیپ، ونڈے یا پھر اب ٹی ٹونٹی کیپ کہلائی جاتی ہے۔

ٹوپی اگر ایک طرف کسی گداگر کے ہاتھ میں مانند کشکول ہے تو دوسری جانب ملکہ برطانیہ کے سر پر تاج بھی ہے۔ ٹوپی اگر ہم کسی بھی زاویہ سے دیکھیں تو ٹوپی ہی رہے گی اور اپنے مقام و منزلت کی وجہ سے پیزار کی طرح اس مقولے کی مانند نہیں پکاری جا سکتی ہے کہ پیزار سونے کا بھی ہو پر پہنا پاؤں کے نیچے ہی جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments