ایف نائن پارک کے پبلک ٹوائلٹ



یہ فاطمہ جناح پارک المعروف ایف نائن پارک اسلام آباد ہے۔ یہ دارالحکومت کا مرکزی پارک ہے۔ برسات کی ایک سہانی پرفضا شام ہے۔ وہاں سامنے تاج محل طرز کی بارہ دری پر دلہن نما ٹک ٹاکرنیاں فوٹو شوٹ کروا رہی ہیں اور دولہے نما ٹک ٹاکر ایک ہاتھ سے ان کی کمروں اور دوسرے سے ان کے گھگروں کو سنبھالنے کی سعی لاحاصل کر رہے ہیں۔

یہاں غریب، متوسط اور امیر کبیر سارے گھرانے آرہے ہیں۔ کچھ چہل قدمی کر رہے ہیں، کچھ جاگنگ کر رہے ہیں اور کچھ جاگنگ کرنے والیوں کا ایکس رے کر رہے ہیں۔

کچھ مرد و زن اپنی فیملی اپنے بچوں کے ساتھ پکنک منا رہے ہیں۔
ارے یہ کیا؟

ایک نوجوان جو پنڈی بوائز اور اسلام آبادی برگرز کا ہائیبرڈ ورژن معلوم ہوتا تھا کہیں سے اچانک نمودار ہوا۔ اسی بارہ دری کے سامنے پتلون کی زپ کھول کر تیز دھار آلہ باہر نکالا۔ اور ہر خاص و عام کے سامنے پارک کے لان میں لگے ایک جٹا دھاری تناور درخت کو اپنے قدرتی یوریا سے سیراب کرنا شروع کر دیا۔

کچھ نے دیکھا ان دیکھا کر دیا۔ کچھ اشارے کرنے لگے۔ خواتین دوپٹے منہ پر رکھ کر عجیب و غریب شکلیں بنانے لگیں۔ اتنے میں خدا جانے کسی نے پولیس کو بتایا یا خود پولیس کی نظر پڑی ایک پولیسیا بھاگتا ہوا آیا۔ تب تک لڑکا فارغ ہو چکا تھا۔ اس نے اسے شانے سے پکڑا۔

”شرم نہیں آئی؟ وہ سامنے گیٹ کے پاس واش روم ہیں۔“ ؟

”شرم آئی تھی مگر یہ بھی زور کا آیا تھا۔ (اس نے چھنگلیا کے مشہور و معروف اشارہ سے واضح کیا۔ ) میں بیت الخلا جانے لگا۔ باہر کرسی پر بیٹھے ایک مسٹنڈے نے ایک جی ایل آئی والے سے تیس روپے اور ایک پراڈو والے سے پچاس روپے وصول کیے ۔ جو جہاں پھنس رہا تھا اس سے اتنی وصولی کر رہا تھا۔ نہ دینے پر بحث، بدتمیزی کرتا تھا۔ میری جیب میں ایک پھوٹی کوڑی نہیں تھی۔ کافی دیر شرم اور اس میں (چھوٹی انگلی کا اشارہ) کانٹے کا مقابلہ جاری رہا۔

بالآخر یہ شرم پر غالب آیا اور باہر آیا۔ یہ پارک سرکاری ہے۔ اس پر آنے جانے کا کوئی ٹکٹ نہیں ہے۔ یہ بیت الخلا کس واسطے بنائے ہیں؟ اسی لئے ناں کہ کوئی میری طرح یہاں پارک میں نہ کرے۔ یہ پبلک ٹوائلٹ عوامی سہولت کے لئے بنائے گئے ہیں یا کمائی کے واسطے؟

باتھ روم کے باہر بیٹھے مسٹنڈوں کا کہنا ہے میئر اسلام آباد اور سی ڈی اے نے پارک کی مینٹینینس کے واسطے یہ ٹیکس لگایا ہے۔ اب اگر نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ لوگوں کی رفع حاجات کے بیس روپوں کے بغیر سی ڈی اے کئی ایکڑ پر پھیلے اس پارک میں دودھ شہد کی نہریں نہیں بہا سکتی تو بے شک نہ بہائے۔ لیکن یہ جگا ٹیکس اور غنڈہ ٹیکس نہ لگائے۔ اور کوئی سہولت نہیں ہے تو یہ سہولت کم ازکم مت چھینو۔ میرا کالر چھوڑو۔ میرے ساتھ پریس اور میڈیا ہے۔ وہ سامنے دیکھو۔ ”

لڑکا شانہ چھڑا کر چلتا بنا اور پولیس والے کا منہ کھلا رہ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments