جبین نیاز اور شخصیت کے خدوخال


اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ جبین یا پیشانی میں انسان کی شخصیت کے تمام رموز موجزن ہوتے ہیں۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ ”چہرہ دماغ کا اشاریہ ہے یعنی فیس از دی انڈکس آف مائنڈ“ لیکن اگر چہرے کا بھی کوئی انڈکس (اشاریہ) ہے تو وہ جبین ہی ہے۔ انسان کی ”پر اسرار شخصیت“ کے اندر موجزن مختلف قسم کے جذبات و احساسات ہر آن پیشانی کے ذریعے آشکار ہوتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خوشی کے لمحات میں پیشانی کھل اٹھتی ہے اور آنکھیں پر رونق نظر آتی ہیں، جبکہ حزن و ملال پیشانی پر افسردگی کا ایک دبیز پردہ چڑھاتے ہیں اور ”غم جانگسل“ اکثر اوقات کھلتی چشموں کو چھلکنے پر مجبور کرتا ہے۔

پیشانی ہی ناراضگی کے اظہار کے لئے شکن آلود ہوتی ہے اور کسی کے سخن دلنواز سے متاثر ہو کر چاند کی طرح چمکتی ہے اور ”مہ جبین“ کہلاتی ہے! انسان کسی کا دل موہ لے تو جبین پر بوسہ دے کر ہی اس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ کوئی کسی کو مسخر کرے تو تسخیر شدہ شے کے پیشانی کے بال پکڑ کر اس کا اعلان کیا جاتا ہے اور کوئی کسی کو اپنا آقا تسلیم کرے تو چوکھٹ پر ماتھا رگڑ کر ہی غلامی کا ثبوت دیا جاتا ہے۔

طبی اور حیاتیاتی طور پر پیشانی دماغ کے للاٹ لب ( فرنٹل لاب) کو اپنے پیچھے چھپا کر دماغ کے اندر وقوع پذیر ہونے والی برقی لہروں، جو عصبی خلیوں (نیورانز) سے پیدا ہوتی ہیں، کے نفسیاتی اثرات کو ظاہر کرتی ہے اور انسانی شخصیت کے خد و خال کا تعین کرتی ہے۔ اس طرح جبین ایک ایسا پردہ (اسکرین) ہے جو انسانی شخصیت کے اندر جاری کھیل (ڈرامے ) کو معاشرے کے سماعت یا بصارت خانے (آڈیٹوریم) میں بیٹھے لوگوں پر اپنے اثرات چھوڑتی ہے۔

پیشانی کے پردے سے خارج ہونے والے احساسات خوشی کے حصول کا ذریعہ بھی بنتے ہیں اور حزن و ملال کو بھی جنم دیتے ہیں۔ جذبات کا یہی اظہار کبھی طمانیت خاطر کا سامان کرتا ہے تو کبھی گھبراہٹوں اور اندیشوں کو جنم دیتا ہے۔ اس بے مثال اداکار (حضرت انسان) کا اندرون جب غموں سے جوجھتا ہے تو مصنوعی اداکاری کے باوجود اس کی پیشانی اس کے غم خواروں کو اطلاع دیتی ہے جو اس کا غبار خاطر ہلکا کرنے کے لئے بے چین ہوتے ہیں اور اس کے کیتھرسس کا سامان کرتے ہیں۔

تاہم انسانی شخصیت کو محبوب یا معیوب بنانے والے رویوں میں جو دو رویے سب سے زیادہ قابل ذکر ہیں وہ نرم خوئی اور اکڑ ہے جن کا اظہار انسان کی جبین سے ہوتا ہے۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کیوں کہ جبین میں انسان کی تمام صلاحیتوں کا ارتکاز ہوتا ہے اور یہی انسانی شخصیت کی شناخت کا تعین کرتی ہے۔ جبین پر چمکتی نرم خوئی کی تجلی ہی انسان کو ہر ایک کی آنکھوں کا تارا بنا سکتی ہے اور لوگ اس کو سر آنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں، جبکہ اسی جبین پر ابھرتے اذیت رسانی کے شکن اس کو ایسا جھگڑالو بناتے ہیں جنہیں دیکھتے ہی ہر ایک اپنا راستہ بدلنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

چونکہ پیشانی رتبے کی علامت (اسٹیٹس سیمبول) بن جاتی ہے اس لئے اس علامت کو بنائے رکھنے اور اس کی حفاظت کے لئے انسان مختلف جتن کرتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ عزت نفس کی حفاظت کرنا کوئی بری بات نہیں ہے، لیکن اس کی خاطر حق اور باطل کو خلط ملط کرنا، حق کو باطل کی چادر پہنا کر ملتبس کرنا اور حق کے خلاف سینہ سپر ہو کر اکڑ اور گھمنڈ کا اظہار کرنا جبین کو خاک آلود کرنے کے لئے کافی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رویہ جبین نیاز کو جبین ناز میں تبدیل کرتا ہے، اس لئے قرآن نے اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ”اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈر تو تکبر اور تعصب اسے گناہ پر آمادہ کر دیتا ہے، اس کے لئے جہنم ہی ہے اور یقیناً وہ بدترین جگہ ہے۔“ ( 206 : 2 )

قرآن کی رو سے یہ کردار ان چار کرداروں میں سے معیوب ترین کردار ہے جو یہاں (البقرہ، 200۔ 207 ) تقابل کے لئے بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک دنیا کے جاہ و حشم کا متلاشی ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ دوسرا کردار اعتدال پر مبنی ہے جو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کے لئے بھی فکر مند رہتا ہے۔ ایسا شخص اپنی سعی کے مطابق دونوں میں سے حصہ پائے گا۔ البتہ چوتھا کردار ان ایثار پیشہ لوگوں کا ہے جو اپنا سب کچھ اللہ تعالٰی کی رضا کی خاطر لٹا دیتے ہیں۔

یہ لوگ گرچہ تارک دنیا نہیں ہوتے لیکن دنیا میں اجنبی ضرور ہوتے ہیں۔ محفلوں کی رونق ان ہی سے ہوتی ہے لیکن صاحب بصیرت ہی ان کو تلاش کر پاتے ہیں، کیونکہ للاہیت اور بے نفسی کے یہ پتلے اپنی آمدورفت کا اعلان عام نہیں کرتے پھرتے۔ یہ لوگ ظاہر داری سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ یہ لوگ قطعاً اس کے روادار نہیں ہوتے کہ اپنی شخصیت کو منوائیں۔ یعنی خدا کے یہ دلنواز بندے جبین ناز پر جبین نیاز کو ترجیح دیتے ہیں!

اس کے برعکس ذرا ذرا سی نیکی پر اترانے والے (مختال فخور) ، جو خود بھی ہر معاملے میں بخیل ہوتے ہیں اور بخل کی ترسیل اور ترویج کا ذریعہ بنتے ہیں، حق سامنے آتے ہی اس طرح اس کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں کہ ان کی پیشانیاں گناہ کا عنوان بن جاتی ہیں۔ ان کے وجود سرکشی کے چلتے پھرتے کارخانوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ قرآن نے اس قسم کی سرکش پیشانی والے اشخاص کو اس طرح خطاب کیا ہے : ”تو کیا اس نے نہیں جانا کہ اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے۔ یقیناً اگر یہ باز نہ رہا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے۔ ایسی پیشانی جو جو جھوٹی اور خطاکار ہے۔“ (العلق، 14۔ 16 )

اگرچہ آفاقی طور پر تسلیم شدہ اخلاقی اصول یہی ہے کہ گناہگار کی بجائے گناہ کی مذمت کی جائے، تاہم جب گناہ اور گناہگار اس طرح خلط ملط ہوجائیں کہ ان کو الگ کرنا ناممکن ہو، تو گناہ اور سرکشی کے اس ملغوبے کو قرآن اس طرح مخاطب کرتا ہے : ”ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہو گیا۔“ (اللہب، 1 ) یہ لوگ اپنی دانش پر اس طرح ناز کرتے ہیں کہ ان کو حق کی معرفت حاصل نہیں ہو پاتی۔ جو دانشمندی ان کو خدا کا قرب دلاتی اسی پر اترا کر وہ اسفل السافلین میں گر جاتے ہیں، کیونکہ وہ نفس پرستی اور ہوا و حرص کو اپنا نصب العین بناتے ہیں۔ (الاعراف، 176۔ 175 )

یہ لوگ فواحش، اثم، خدا پر بہتان تراشی اور غیر اللہ کی تعظیم و تکریم میں اس طرح پیش پیش ہوتے ہیں کہ ان کی پیشانیاں معاشرے کو مرعوب کرنے کے لئے ہر طرح کی گھناؤنی وضع قطع اختیار کرتی ہیں۔ یہی پیشانیاں حق کے پرستاروں کا تمسخر اڑاتی ہیں اور حق کو مطعون کرتی ہیں۔ اہل حق کی پارسائی اور پاکیزگی کو بھی یہ پیشانیاں اپنے خاص اتار چڑھاو سے طعن و تشنیع کا شکار کرتی ہیں۔ لیکن جب اہل حق ہر قسم کی صورتحال کا مقابلہ کرتے ہوئے خدا کے مدد گار (انصار اللہ) بن جاتے ہیں تو یہ سرکش لوگ عملی اقدام کر کے ان کا قافیہ حیات تنگ کرتے ہیں۔ قرآن نے کس بلیغ انداز میں سرکشوں کی انہی پیشانیوں اور اقدام کا تذکرہ کیا ہے : ”گناہگار صرف حلیے ہی سے پہچان لیے جائیں گے اور ان کی پیشانیوں کے بال اور قدم پکڑ لیے جائیں گے۔“ (الرحمن، 41 )

تاہم وہ انسان جن کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ خدا کی پکڑ نہایت مضبوط ہے (ان بطش ربک لشدید) اور وہ ہر ذی حس شے کی پیشانی کو پکڑنے پر قادر ہے (ھود، 56 ) ، وہ اپنی جبین کو اظہار نیاز مندی کے لئے ہر دم تیار رکھتے ہیں۔ لا تعداد سجدوں کی مشتاق ان کی پیشانیاں حق کے آگے اس طرح جھکتی ہیں کہ یہ شخصیات حق کے علمبردار کی دست راست بن جاتی ہیں اور آپس میں رافت و رحمت کے زندہ نمونہ! سجدوں کی حقیقی روح یعنی فروتنی، عجز، انکسار، حلم اور رفق ان کے چہروں سے چھلکتا ہے۔ ان کی یہی صفات تورات، انجیل اور قرآن میں وارد ہوئی ہیں۔

ان کا فکر ان کو آفاق و انفس سے دانشمندی کے سبق دیتا ہے۔ آسمانوں کی بلندی ان کو ایک طرف اپنی محدودیت سے روشناس کرتی ہے تو دوسری طرف انہیں خالق کی عظمت کا احساس دلاتی ہے۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ جب یہ غور و فکر کے لئے اپنی نظریں دوڑاتے ہیں تو تھک ہار کر ان کی عقل جواب دے جاتی ہے۔ اس دوران وہ خیال کرتے ہیں :

کل ما ہو فی الکون وھم او خیال
او عکوس فی المرایا او ظلال
یعنی یہ دکھائی دینے والی کائنات شاید وہم ہے یا خیال؛ یا یہ آئینے میں عکس ہیں یا سائے!

انہیں خود اپنا عدم سے وجود میں آنا اور ساتھ ساتھ فنا کا احساس خالق کے قدم و ابدیت کا معترف بناتا ہے۔ حتی کہ چٹانوں کے ٹوٹنے، گرنے اور ان سے چشمے پھوٹنے کے پیچھے انہیں خالق کی ترہیب نظر آتی ہے۔ یہی فکر اب ان کی زبانوں سے ذکر کے پیرائے میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ لوگ داؤد (ع) کی طرح نغمہ سنج ہوتے ہیں اور ان کے اشک سیاہی اور ان کی پلکیں قلم بن کر ان کی لوح قلب پر تہلیل اور تمہید کے ترانے نقش کرتے ہیں۔ پھر ایسا ہوتا ہے کہ ان کی زبان نے کی لے (مثنوی، مولانا روم) میں ان کی صبحوں اور شاموں کو تسبیح رب کی نغمہ سرائی سے سرشار کرتی ہے جس کا ساتھ چرند و پرند بھی دیتے ہیں کیونکہ ہر شے کو خالق نے تسبیح بھی سکھائی ہے اور نماز بھی! (کل قد علم صلاتہ و تسبیحہ، النور، 41 ) یہ لوگ حق کے آگے پگھل جاتے ہیں اور ان کی اس تسلیم و رضا کا اظہار ان کی آنکھوں سے ہوتا ہے : ”اور جب وہ رسول کی طرف نازل کردہ (کلام) کو سنتے ہیں تو آپ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں، اس سبب سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا۔“ (المائدہ، 83 )

خدا کے ذکر سے ان کی زبان تر تو رہتی ہی ہے لیکن ان کا وجود اسی وقت سکون حاصل کرتا ہے جب وہ جبین نیاز کو اپنے آقا کی چوکھٹ پر رگڑتے ہوئے راز و نیاز کرتے ہیں۔ اگرچہ سجدوں کے اثرات ان کی پیشانیوں پر محسوس کیے جا سکتے ہیں لیکن ان کی شخصیت سراپا سجدوں کے دوران جاری ہونے والے اشکوں سے نہا اٹھتی ہے۔ یہی اصل ”سجاد“ (بہت زیادہ سجدہ کرنے والے ) ہوتے ہیں جو ”رہبان فی الیل اور فرسان فی النہار“ یعنی رات کے رہبان اور دن کے شہسواروں کا کردار نبھانے ہیں۔

راتوں کو خالق کے ساتھ عمودی (ورٹیکل) رشتہ جوڑنے والے یہ لوگ اپنے دنوں میں خلق کے ساتھ افقی (ہاریزنٹل) تعلق استوار کرتے ہیں۔ تحدیث نعمت کے طور پر یہ لوگ ہر خیر بندگان خدا کے ساتھ بانٹتے ہیں جس کو یہ ان کا اپنے اوپر حاصل سمجھتے ہیں۔ خدا کے بندوں کے ساتھ ان کا یہ تعلق فروتنی پر مبنی ہوتا ہے جس میں ان کی نگاہ نیچی، ان کی آواز پست اور قدم ہلکے رہتے ہیں۔ یہ جاہلوں تک سے بھی نہیں الجھتے بلکہ انہیں ”سلام“ کہ کر ان سے الگ ہو جاتے ہیں۔ یہی رحمان کے بندے ہیں جن کی جبین نیاز میں ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہوتے ہیں تاکہ انہیں حقیقت منتظر کا اطمینان قلب کی خاطر ادراک کی سطح پر مشاہدہ ہو سکے!

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں (اقبال)

اللہ تعالٰی کا کتنا بڑا الطاف و اکرام ہے اس شخص پر کہ جس کی جبین نیاز تقوی کی تجلی سے اس طرح چمکے کہ وہ محبوب خدا بن جائے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments