کمال اور کمالیا


ہمارے ہاں ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جتنا اس نے ”کما“ لیا وہی اس کا کمال ہے، جو بچا لیا وہی اس کا جمال ہے، جو کچھ آج اس کے پاس ہے وہی اس کا جلال ہے۔ کسی کو فکر نہیں ”کیا حرام ہے کیا حلال ہے“ ، سب سمجھتے ہیں کہ دولت کے بغیر زندگی محال ہے حالانکہ غالب کے بقول ”یہ تمام جہان فقط حلقہ دام خیال ہے“ ٭

کمائی اور رسوائی میں بعض اوقات صرف نقطہ نظر کا فرق ہوتا ہے۔ انسان جس چیز کو اپنی کمائی سمجھ رہا ہوتا ہے وہی درحقیقت اس کی رسوائی ہوتی ہے۔ بعض اوقات دنیا دار لوگ جس چیز کو آپ کے لیے باعث رسوائی سمجھ رہے ہوتے ہیں وہی آپ کی آخرت کی کمائی ہوتی ہے۔ ٭

آج کل ہر شخص کمالیہ کے کھدر کی بات کرتا ہے لیکن ہم پہ ایک ایسا وقت بھی گزر چکا ہے جب ہم میں سے ہر شخص مسعود کھدر پوش کی بات کرتا تھا٭۔ مسعود کھدر پوش ایک ایسے افسر تھے جو جہاں جاتے تھے لوگوں کے دل جیت لیتے تھے عوامی خدمت ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ اس زمانے میں زندگی کے ہر شعبے میں مسعود کھدر پوش جیسے لوگ پائے جاتے تھے ٭۔ اب کھدر پوشی اور دوسروں کی پردہ پوشی ہمارے معاشرے سے تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کھدر پوش افسر اور پردہ پوش انسان چراغ لے کے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ٭ ویسے تو شہر میں اب چراغ دین بھی نہیں ملتا۔

ہمارے گاؤں میں رہنے والا چراغ دین پہلے شہر میں آتے ہوئے بڑا خوش ہوتا تھا اور بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ شہر آتا تھا۔ اب ہمارے شہر اتنے بدل گئے ہیں کہ گاؤں کے لوگ شہر آ کر گم بھی ہو جاتے ہیں اور گم سم بھی٭۔ الہ دین کا چراغ تو پہلے بھی قسمت والوں کو ملتا تھا اب مگر الہ دین اور چراغ دین ہر وقت اپنی قسمت کا گلہ کرتے رہتے ہیں۔ ٭

”کما“ لیا اور بچا ”لیا“ آج کا انسان اسی دائرہ میں سفر کرتے کرتے بچپن سے پچپن تک پہنچ جاتا ہے اور اس کا اردو والا سفر ختم ہو کر انگریزی والا suffer شروع ہوجاتا ہے تب جاکر اس کو احساس ہوتا ہے کہ جو دوسروں پر ”لگا“ لیا درحقیقت وہی ”کما“ لیا اور وہی بچا ”لیا“ اور وہی انسان کو بچا گیا۔ ٭

انسان کا اصل کمال یہ نہیں ہے کہ وہ کتنا کما سکتا ہے اور کتنا بچا سکتا ہے بلکہ انسان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو دکھوں سے کیسے بچا سکتا ہے اور دوسروں کے دکھ درد دور کرتے ہوئے خود کتنا مسکرا سکتا ہے ٭۔ یہی اس کی اصل کمائی ہے مگر آج کا انسان جتنا کمانے کے لئے پریشان ہے اس سے زیادہ بچانے کے لئے تگ و دو کرتا رہتا ہے اور اس جہد مسلسل میں اس کے ایک ہی جذبے میں تسلسل رہتا ہے کہ آنے والی نسل کو ورثے میں کیا مال و متاع دیا جائے وہ یہ بھول جاتا ہے کہ ورثے میں ملنے والے طاوس و رباب جتنے زیادہ ہوں نقصان بھی اتنا ہی زیادہ کرتے ہیں ٭۔ کسی زمانے کے ایک حکمران نے مدتوں زر و جواہر اکٹھا کیے جو منگولوں نے فتح کے بعد اسے نوش جان کرنے کو کہا مگر وہ ایک ہیرا تک نہ نگل سکا۔ کیونکہ وہ خود ہیرا نہیں پتھر تھا٭انجام کار ذلت آمیز شکست کے بعد در ناک موت اس کا مقدر ٹھہری۔

ہمارے ہاں کے چند کاہل لوگوں کا پسندیدہ شعر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ جو لوگ یار دوستوں کے ہونے کے باوجود رات بھر کچھ نہیں کرتے وہی باکمال ہیں۔ پروین شاکر نے بڑے دکھی دل کے ساتھ کہا تھا۔ :

ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
میں نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا

ایک عرصے سے ہمارے ہاں لوگ اسی طرح کے کمال کر رہے ہیں ان کا کمال کئی لوگوں کو نڈھال کر دیتا ہے اور ایسے باکمال لوگوں کی برکت سے کئی لوگ وصال کر جاتے ہیں مگر ان کا کمال جاری رہتا ہے ٭ یہاں تک کہ ایک دن تقدیر کا پنجہ ان کو دبوچ لیتا ہے اور ان کو اس ازلی حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے۔ :

ہر کما لے را زوالے

امت مسلمہ کے کردار پر گہرے بادل چھا چکے ہیں ہمارے جملہ کمالات گہنا چکے ہیں۔ ہمارے جذبے مرجھا چکے ہیں ہم اپنے آپ سے اکتا چکے ہیں۔ اپنی اصلیت سے بیگانہ ہو کر غیروں کے دام میں آچکے ہیں۔ ٭انسان کا اصل کمال یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کی اصلاح کر کے ساری زندگی اپنے ہم نفسوں کی فلاح کرتا رہے ٭۔ یہی اصل کمائی ہے اور میرا تو یہ خیال ہے کہ درد ہم نفس کے لئے خالق کائنات یہ دنیا بنائی ہے۔ اللہ پاک کے بہت سارے نام اور وہ سب کے سب بہترین ہیں مگر اس امت کے لئے جو اسماء حسنیٰ ہر کام سے پہلے پڑھنا احسن قرار دیا گیا ہے وہ رحمان اور رحیم ہے مدت سے امت مسلمہ ایسے بطل جلیل کی طرح تلاش میں ہے جس کے دل میں امت کے ہر فرد کا درد ہو جو صاحب جمال بھی ہو اور صاحب کمال بھی ہو۔ یہ جو گردش ماہ و سال ہے اس کی وجہ سے ہر کمال کو زوال ہے مگر جو آدمی درد دل سے مالامال ہے وہ بے مثال ہے اور لازوال ہے۔ ٭

(کالم نگار نشتر میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد صوبائی انتظامیہ کا حصہ ہیں اور آج کل منیجنگ ڈائریکٹر، چولستان ترقیاتی ادارہ کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments