گولڈن گرلز: انہیں پسند نہیں ہے


رابعہ، بیجنگ میں اس وقت رات کے تین بج رہے ہیں۔ میں کچھ دیر پہلے صحافی نذرانہ یوسف زئی کی فیمینزم پر ٹویٹر سپیس سن رہی تھی۔ اس سپیس میں ایک صاحب نے کہا کہ شریعت نے عورت کو ہر وہ حق دیا ہے جو اسے ملنا چاہیے۔ عورتیں پھر بھی سڑکوں پر کیوں نکل رہی ہیں۔ آخر وہ کون سے حقوق چاہتی ہیں۔

میں نے ان صاحب کی ٹویٹر پروفائل دیکھی۔ ان کی بائیو میں کراچی کے ایک بڑے مدرسے کا نام لکھا ہوا تھا۔ میں نے نذرانہ سے جواب دینے کی اجازت حاصل کرنے کے بعد ان صاحب سے کہا کہ کل وہ اپنے مدرسے کے دارالافتاء جائیں اور وہاں آنے والے مسائل پڑھیں۔ پھر بتائیں کہ شریعت کے حقوق دینے کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عورتیں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے سڑکوں پر کیوں نکلی ہوئی ہیں۔

رابعہ، مرد عورت کے مسائل نہیں سمجھ سکتا۔ اس کی دنیا الگ ہے جہاں سب اچھا ہے۔ مرد اپنی اس دنیا سے نہیں نکلنا چاہتا کیونکہ وہ اس کا کمفرٹیبل زون ہے۔ ان کے اس کمفرٹ کی قیمت عورت چکاتی ہے لیکن انہیں اس سے کیا۔

ہر مرد عورت کے اوپر گھنٹوں بول سکتا ہے۔ عورت کے کیا حقوق ہیں۔ اس کا لباس کیسا ہونا چاہیے۔ اس کی حیا کیسی ہونی چاہیے۔ اسے کس طرح بولنا چاہیے۔ کیسا برتاؤ رکھنا چاہیے۔ ہر ایک کے پاس اس حوالے سے ایک چھوٹی موٹی گائیڈ موجود ہے۔

آپ انہیں کبھی اپنے بارے میں بات کرتے نہیں دیکھیں گی۔ یہ کبھی بات نہیں کریں گے کہ یہ اور ان کے ساتھ عورت پر ظلم کیوں کرتے ہیں۔ کسی کو عورت پر ظلم کرتا دیکھتے ہیں تو اسے روکتے کیوں نہیں۔ اسے سمجھاتے کیوں نہیں۔ اس کا بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے۔ خاموش رہ کر اسے سپورٹ کیوں کرتے ہیں۔

میں نے اس ٹاپک پر ایک صاحب کے ساتھ سپیس کی۔ ویسے ان کی سپیس میں درجنوں لوگ آتے ہیں۔ اس دن آٹھ سے اوپر نہیں تھے۔ دو چار صاحبان مائیک پر آ کر عورت کے بارے میں بات کرنے لگے۔ میں نے انہیں ٹوکا اور کہا آج عورت کی نہیں، مرد کی بات کریں۔ وہ وہاں اٹکنے لگے۔

ایک صاحب تو میرے ٹوکنے پر برہم ہو گئے۔ میں نے انہیں لتاڑا تو کہنے لگے میں پٹھان ہوں۔ یہ میری فطرت میں ہے۔ میں تو عورتوں کے حقوق کا بڑا حامی ہوں۔ میری موجودگی میں کوئی کسی عورت کو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ میں نے پوچھا کہ ابھی جو آپ نے میرے ساتھ کیا وہ کیا تھا؟ ساتھ ہی میں نے باقیوں سے پوچھا کہ آپ سب تو کہہ رہے تھے کہ ہم جہاں کسی مرد کو عورت کے ساتھ غلط کرتا دیکھتے ہیں، ہم اسے ٹوکتے ہیں۔ آپ نے انہیں تو نہیں ٹوکا۔ ہوسٹ نے اپنی غلطی مانی اور مجھ سے معافی مانگی۔ ان کے بعد ان صاحب نے بھی معافی مانگی جو میں نے تسلیم کر لی۔

لیکن رابعہ، یہ بعض مردوں کی حقیقت ہے۔ یہ خود کو اچھا انسان اور عورتوں کا ساتھی سمجھتے ہیں لیکن یہ اصل میں نہ اچھے انسان ہیں اور نہ عورتوں کے ساتھی ہیں۔ خود کو اچھا سمجھنا اور اصل میں اچھے ہونے میں فرق ہوتا ہے۔

آپ نے اپنے بلاگ میں خواتین کے بارے میں ہم سب کے گروپ میں کمنٹ کرنے والے ایک صاحب سے، انہیں اپنی آسانی کے لیے کمال کہہ لیتے ہیں، ایک سوال پوچھا ہے۔ میں یہ سوال ”سب اچھا ہے“ کہنے والے ہر مرد سے پوچھتی ہوں۔ ایک واقعہ سناتی ہوں۔ میرے ایک رشتے دار ہیں۔ ایک دن ان سے بات ہو رہی تھی۔ کہنے لگے کچھ دن پہلے گھر میں بور ہو رہا تھا۔ کچھ سمجھ نہ آیا تو قریبی ہوٹل کے پول میں تیراکی کرنے چلا گیا۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ ایسے ہی بس اچانک پلان بنا کر چلے گئے؟ گھر کچھ بتانا ہوتا ہے، پوچھنا ہوتا ہے، اس کا کیا؟

کہنے لگے، ہمارے گھر ایسی سختی نہیں۔ ہمارے والدین ہم بہن بھائیوں پر مکمل بھروسا کرتے ہیں۔ میں ری حیرانی ڈبل ہو چکی تھی۔ میرے گھر تو کچھ ایسا حال ہے کہ اگر میں نے کہیں جانا ہو تو ہفتہ پہلے سے ذکر چھیڑنا پڑتا ہے۔ میں نے اپ نے ارد گرد بھی کچھ ایسا ہی دیکھا ہے۔ سکول، کالج اور یونیورسٹی میں ساتھ پڑھنے والی لڑکیوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال دیکھا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جس طرح آپ بغیر بتائے، بس موڈ بن جانے پر اچانک تیراکی کرنے جا سکتے ہیں، کیا اس طرح آپ کی بہن بھی تیراکی کرنے جا سکتی ہیں؟ انہوں نے کہا، اسے تیراکی پسند نہیں ہے۔

اسی طرح ایک اور صاحب تھے۔ انہیں اپنے گرل فرینڈ کے بھائیوں اور ابو پر شدید غصہ رہتا تھا۔ ان کے گھر آنے کے بعد ان کی گرل فرینڈ ان کے ساتھ فون پر بات نہیں کر سکتی تھیں۔ کہتے تھے، دیکھو بے چاری پر کتنی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔ میں نے پوچھا، آپ کی ایک بہن ہے۔ کیا اس کے پاس فون ہے؟ کہنے لگے اسے فون رکھنا پسند نہیں ہے۔ اس نے کہیں کال کرنی ہو تو امی کے فون سے کر لیتی ہے۔

آپ نے کمال صاحب سے پوچھا ہے کہ کیا وہ اپنی بہن اور بیوی کو ویسا ہی شکایت نامہ لکھنے کی اجازت دیں گے جیسا انہوں نے بغیر کسی سے اجازت حاصل کیے لکھا ہے۔ کمال صاحب اس کا یہی جواب دیں گے جو ان صاحبان نے دیا، انہیں پسند نہیں ہے۔

ایسا کہتے ہوئے انہیں بھی اپنے دوغلے پن کا احساس ہوتا ہے پر کیا کریں، مرد ہیں۔ امیج بنانا پڑتا ہے۔ بہت مشکل زندگی ہے بھائی مردوں کی۔ کیوں رابعہ، آپ کو کیا لگتا ہے؟

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم
اس سیریز کے دیگر حصےنور سے کوہ نور تک، مگر ہیلو سیف اللہ صاحبآزادی، عزت اور ”حیا کر یار“ ۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

گولڈن گرلز - رابعہ الربا اور تحریم عظیم

گولڈن گرلز کے عنوان کے تحت رابعہ الربا اور تحریم عظیم بتا رہی ہیں کہ ایک عورت اصل میں کیا چاہتی ہے، مرد اسے کیا سمجھتا ہے، معاشرہ اس کی راہ میں کیسے رکاوٹیں کھڑا کرتا ہے اور وہ عورت کیسے ان مصائب کا سامنا کر کے سونا بنتی ہے۔ ایسا سونا جس کی پہچان صرف سنار کو ہوتی ہے۔

golden-girls has 28 posts and counting.See all posts by golden-girls

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments