گمشدہ افراد اور وقائع نگار کی فراموش کاری


\"\"سنہ 2017ء شروع ہوا۔ دھوم دھڑکے،گانے بجانے یا صوم و صلواۃ و استفغار کی رقت بھری صداؤں کے ساتھ۔ یا ایک بے نیاز نیند سوتے ہوئے۔ بہرحال شروع ہوا کہ یہ تو ہونا ہی تھا۔ اس نئے سال کے پہلے ہفتے میں جو ہوا وہ شاید غیر متوقع تو نہیں تھا اور نیا بھی نہیں کہ ایسا دنیا بھر میں ہزاروں برس سے ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا، لیکن ایک دھچکہ سا لگا شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ غائب ہونے والوں سے ایک مکانی قرب تھا ۔ اب تک گم ہو جانے یا گم کر دیے جانے والوں کے بارے میں سنا تھا۔ ان کی تلاش میں مارے مارے پھرنے والوں کو دیکھا تھا یا ان کے لیے لکھنے والوں کو پڑھا تھا، یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ ایک ایسا شخص جس سے بس رسمی سی ہی سہی شناسائی تو تھی، زندگی سے بھرپور وجود کے ساتھ یکایک اوجھل ہو گیا۔ ایک آدھ دن تو یقین ہی نہیں آیا کہ سوشل میڈیا پہ رائی کا پہاڑ بن جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرا، معاملہ سنگین ہوتا گیا۔ نت نئے پہلو سامنے آئے۔ دوسرے افراد کے بارے میں بھی علم ہوا ۔ کچھ دن الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پہ خوب ہا ہا کار مچی اور اب آہستہ آ ہستہ یہ خبر پرانی ہونے لگی ہے۔ روز کی ہیڈ لائن ایک ٹکر میں تبدیل ہو چکی ہے اور جلد ہی وہ ٹکر بھی کہیں غائب ہو جائے گا۔ انھی بلاگرز کی طرح۔

بس کچھ چاہنے والوں کی سسکیاں رہ جائیں گی،ایک آدھ بھولی بھٹکی نظم کہیں نیوزفیڈ میں نظر آئے گی یا ان کی تصویر کچھ دوستوں کی ڈی پی پہ جگمگاتی رہے گی۔

اس سارے منظر نامے پہ بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ہر ہر طرح اس کو کھنگالا گیا ہے۔ سینجیدہ مزاج لکھاریوں سے لے کر اوریائی لکھنے والوں تک نے اس پہ کچھ نہ کچھ رائے زنی کی ہے،اور میں نے بقول منیر نیازی ایک بار پھر دیر کر دی ہے، اصل میں اس واقعہ کے ظہور پذیر ہونے سے لے کر اب تک۔ میرے پاس لکھنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ ۔ ایک افسانہ تھا جو بار بار یاد آتا رہا اور یہ افسانہ مجھے ایسی ہر خبر پر یاد آتا ہے۔ اس کا ایک حصہ ابھی سن لیجیے کہ بلاگ میں پورا افسانہ لکھنے کی گنجایش نہیں۔ اس کے لیے آپ کو اسد محمد خان کے مجموعے \”غصے کی نئی فصل\” سے رجوع کرنا ہو گا۔ افسانے کا عنوان ہے۔ وقائع نگار۔ ۔ ۔ ۔

’’اسی وقت میری نظر سامنے مردے رکھنے والے سیمنٹ کے سلیبوں پر پڑی۔ وہاں دو درجن ننگ دھڑنگ ،دھلی دھلائی تیار کی ہوئی لاشیں رکھی تھیں۔ مردوں ،عورتوں،بوڑھوں ،جوانوں کی لاشیں۔ ۔ ۔ ۔ ڈرموں کے برابر ،اوپر تلے ،پلاسٹک کے وہ ٹب رکھے تھے جنہیں میں نے دو دن کی محنت سے دھو سکھا کے جگمگا دیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج ہم ان ڈیڈ باڈیز کو پیک کریں گے۔ ۔۔۔۔ ہم لاشیں جمع کرتے ہیں۔۔۔ اسٹور کرنے کے لیے۔۔۔ اسٹور نہیں کرو تو لاشیں روٹ ہونے لگتی ہیں اور میموری میں اور ساہتیہ میں اور ہسٹری مطلب ایتہاس میں نکل نکل کے آتی ہیں بار بار۔۔۔۔  پر اس کیمیکل سے اور ٹبوں سے، ہمیشہ کے لیے، لاشوں کو کیسے کوئی ڈسپوز آف کر سکتا ہے۔ جب آگ اور مٹی اور پانی ہزار برس بعد بھی ناپسندیدہ کے ڈے ورز کو اپنا روٹ پھیلانے سے نہیں روک سکتے۔۔۔۔ اس نے مجھے بتایا کہ کیمیکل اسپرے کر کے، پلاسٹک کے ایک ٹب میں لاش رکھ دی جاتی ہےاور دوسرے ٹب کو جو اصل میں ڈھکنے کی طرح کا ہے، سیٹ کر کے لاش کو ائیر ٹائٹ وگیرہ کر دیا جاتا ہے۔ پھر اندر لاش پر فراموش کاری کا عمل شروع ہوتا ہے۔ لاش کا سب رکارڈ ،نام، پتا، زمانہ، خیالات، نظریات، شبیہیں اور اس کے لیے کہی گئی نظمیں، نکلے ہوئے جلوس ایک ہیوج غیر متعلق انفارمیشن جنک میں اچھی طرح پھینٹ دیے جاتے ہیں کہ کوئی انہیں سیلویج نہ کر سکے۔ پھر وہ سب کچھ اگنور کیا جاتا ہے۔ اور کبھی کسی بات کی تردید نہیں کی جاتی کیونکہ تردید ایک طرح کی نیگیٹو موجودگی ہے‘‘

تو کیا یہ فراموش کاری کا عمل شروع ہو چکا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments