نہ نواز شریف واپس آئیں گے اور نہ ہی حکومت انہیں برداشت کر سکتی ہے


برطانیہ کے ہوم ڈیپارٹمنٹ نے میڈیکل گراؤنڈ پر پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہبر نواز شریف کے ویزا میں توسیع سے انکار کیا ہے۔ نواز شریف اس فیصلہ کے خلاف امیگریشن ٹریبونل میں اپیل دائر کر چکے ہیں۔ اس دوران تحریک انصاف کی حکومت کے ’لاؤڈ اسپیکر نما‘ ترجمانوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے اور لوٹی ہوئی دولت واپس کرنے یا واپس پاکستان آ کر اپنے کئے کی سزا بھگتنے کے مفت مشوروں کا طوفان برپا کیا گیا ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ نہ تو نواز شریف موجودہ حالات میں ملک واپس آئیں گے اور نہ ہی تحریک انصاف کی حکومت ان کی واپسی کا ’سیاسی بوجھ‘ برداشت کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

یوں تو برطانوی حکومت بھی پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے ایک مقبول لیڈر کو ’ملک بدر‘ کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ ایسا کوئی فیصلہ برطانیہ کی قانونی و سیاسی روایت سے متصادم ہو گا۔ نواز شریف کو اس وقت پاکستان کی عدالتوں میں انصاف میسر نہیں ہے۔ انہیں العزیزیہ کیس میں 7 سال قید کی سزا دی گئی تھی۔ نومبر 2019 میں شدید علالت کے باعث وہ اسی فیصلہ کی وجہ سے کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے۔ تاہم عمران خان کی حکومت کو میڈیکل رپورٹس اور عدالتی فیصلوں کے سامنے جھکنا پڑا اور نواز شریف برطانیہ روانہ ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ شہباز شریف کے ذریعے بالواسطہ طور سے اسٹبلشمنٹ سے ’مفاہمت‘ کے نتیجہ میں ملک سے جانے میں کامیاب ہوئے تھے اور تحریک انصاف کو بھی کرپشن کے خلاف واویلا کے باوجود سر تسلیم خم کرنا پڑا تھا۔ تاہم بعد میں رونما ہونے والے حالات میں ایسی کسی خفیہ خیرسگالی کے آثار سامنے نہیں آئے۔ اس کے بعد خود شہبازشریف نیب کی حراست میں رہے ہیں اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز بھی طویل عرصہ قید رہ کر بمشکل ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔

برطانیہ میں نواز شریف کے ویزا درخواست کی تفصیلات، ان کے اہل خاندان اور وکلا کے علاوہ کسی کے علم میں نہیں ہو سکتیں۔ ہوم آفس کسی درخواست دہندہ کے بارے میں کسی قسم کی معلومات پر نہ تو تبصرہ کرتا ہے اور نہ ہی اس کی معلومات غیر متعلقہ لوگوں یا میڈیا کو فراہم کی جاتی ہیں۔ اسی لئے نواز شریف کی ویزا درخواست کے سلسلہ میں اخباری نمائیندے ہوم آفس سے کوئی معلومات حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ تاہم یہ بات پورے یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پہلے مرحلے میں میڈیکل ویزا کی درخواست مسترد ہونے پر پاکستان میں سرکار ی ترجمانوں نے جو شور مچایا ہے وہ پیالی میں طوفان اٹھانے کے مترادف ہے۔ ہوم آفس کے پاس کسی درخواست کو مسترد کرنے کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں۔ عام طور سے پہلے مرحلے میں کسی معمولی عذر، ٹیکنیکل وجہ، قانونی موشگافی یا کسی دستاویز کی کمی کی وجہ سے ویزا میں توسیع کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے تاہم دوسرے مرحلے میں جو محکمانہ ٹریبونل کی صورت میں کسی اپیل پر غور کرتا ہے ، اس کمی کو یا تو درخواست دہندہ دور کردیتا ہے یا اس کے وکلا ہوم آفس کی کوتاہی یا غلط توجیہ کی نشاندہی کر کے معاملہ طے کروا لیتے ہیں۔

 اس لئے یہ واضح ہے کہ نواز شریف کے ویزا میں توسیع سے انکار کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہے کہ انہیں ملک بدر کیا جا رہا ہے یا ان کے خلاف حکومت پاکستان کے الزامات کو درست مانتے ہوئے برطانوی حکومت نے اب نواز شریف کو مزید ویزا دینے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا یہ بیان گمراہ کن ہے کہ نواز شریف کا یہ جھوٹ ’ثابت‘ ہو گیا ہے کہ وہ بیمار ہیں ۔ اسی لئے ہوم آفس نے انہیں ویزا دینے سے انکار کیا ہے۔ نواز شریف تقریباً دو سال سے میڈیکل ویزا پر برطانیہ میں مقیم ہیں۔ معلومات کے مطابق ان کی جو درخواست مسترد کی گئی ہے، وہ بھی طبی بنیادوں پر ویزا میں توسیع کے لئے ہی تھی۔ ابتدائی طور پر اس درخواست کو قبول نہ کرنے کی یہی وجہ دکھائی دیتی ہے کہ دو سال تک کون سی طبی وجوہات کی وجہ سے کسی شخص کو برطانیہ میں رہنے کی ضرورت ہے۔ ہوسکتا ہے نواز شریف کے وکلا اور ڈاکٹر اس اعتراض کی وضاحت کردیں یا نواز شریف کسی دوسری بنیاد پر ویزا حاصل کرنے کی درخواست دائر کریں۔ اس حوالے سے ان کے پاس متعدد آپشن ہوں گے۔

یہ بھی واضح ہے کہ نواز شریف بوجوہ سیاسی پناہ کی درخواست دائر کرنے سے گریز کریں گے حالانکہ ان کا برطانیہ میں طویل قیام بنیادی طور سے پاکستان کے سیاسی حالات کی وجہ سے ہی ہے۔ انہیں یقین ہے کہ ان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کئے گئے ہیں اور موجودہ حکومت میں ان کے خلاف مقدمات کا منصفانہ فیصلہ ہونے کا امکان نہیں ہے۔ تاہم فی الوقت مسلم لیگ (ن) طبی عذر ہی کی بنا پر نواز شریف کے برطانیہ قیام کو جائز قرار دیتی ہے۔ لیکن ضرورت پڑنے پر سیاسی وجوہ کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جنہیں برطانیہ کا امیگریشن و عدالتی نظام تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا۔

نواز شریف کے دونوں بیٹے برطانوی شہری ہیں اور وہ وہاں پر قانونی طریقے سے کاروبار کر رہے ہیں۔ برطانیہ نے حال ہی میں ایسے سخت قوانین متعارف کروائے ہیں جن کے تحت دوسرے ملکوں سے کرپشن کی دولت کو منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک میں لانے والے لوگوں کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔ متعلقہ حکام نے ایسے کئی معاملات میں قانونی اقدامات کئے بھی ہیں۔ حکومت پاکستان یا تحریک انصاف کے پاس اگر شریف خاندان کے خلاف ایسے شواہد موجود ہوتے جنہیں برطانوی نظام انصاف میں پیش کر کے یہ ثابت کیا جا سکتا کہ نواز شریف پاکستان کے سرکاری فنڈز لوٹ کر برطانیہ لے گئے ہیں اور ان کے بیٹے اس لوٹی ہوئی دولت سے کاروبار کررہے ہیں یا پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں تو یقیناً برطانیہ کا نظام قانون حرکت میں آتا اور اب تک شریف خاندان کے جھوٹ کا کچا چٹھا سامنے آچکا ہوتا۔ پاکستان میں کسی عدالتی فیصلہ کے بغیر الزام تراشی عام سی بات ہے۔ اسی لئے نواز شریف کی ویزا درخواست مسترد ہونے پر سرکاری ترجمان یہ دعویٰ کرنے میں کوئی حرج محسوس کرتے کہ وہ سرکاری دولت لوٹ کر فرار ہوئے ہیں۔ اور کوئی عدالت ان سے جوابدہی کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتی۔

پاکستان میں نواز شریف کے خلاف قانونی کارروائی یک طرفہ تھی۔ متعصبانہ اور مشکوک نظام انصاف میں انہیں حقائق و شواہد کی بنیاد پر انصاف ملنے کی امید بھی نہیں ہے۔ العزیزیہ کیس میں ان کی سزا اور یہ سزا دینے والے مرحوم جج کے بارے میں سامنے آنے والی معلومات کے باوجود اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کیس پر صرف اس بنیاد پر مزید سماعت سے گریز کیا ہے کہ نواز شریف ملک کے عدالتی نظام کے مفرور ہیں۔ تکنیکی یا خالص قانونی اصطلاح میں یہ درست فیصلہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے لئے مناسب تھا کہ سیاسی معاملات میں انتقامی رویوں اور جانبدارانہ و مشکوک فیصلوں کے پس منظر میں وہ نواز شریف کے خلاف مقدمات کی اپیلوں پر سطحی قانونی موشگافیوں پر سماعت معطل کرنے کی بجائے ، ان کے خلاف الزامات کو حتمی انجام تک پہنچاتیں۔ تاکہ یہ واضح ہو سکتا کہ ملک کے سابقہ حکمرانوں کے خلاف عائد کئے گئے الزامات میں کتنی صداقت ہے اور یہ الزامات قانون و انصاف کی کسوٹی پر کیوں کر پورے اترتے ہیں۔

پاکستان میں نیب نے اپوزیشن کے تقریباً تمام ممتاز افراد کے خلاف کرپشن کے مقدمات قائم کر رکھے ہیں۔ موجودہ حکومت کی خوشنودی کے لئے متعدد لیڈروں کو طویل مدت تک نیب کی حراست میں بھی رکھا گیا ہے۔ لیکن کسی ایک معاملہ میں بھی نیب کوئی ایسا فیصلہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی جو اعلیٰ عدالتوں میں بھی قائم رہے۔ نیب کے ریفرنس ناقص اور شواہد مشتبہ اور کمزور ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر معاملات میں کچھ عرصہ بعد اعلیٰ عدالتیں ضمانت قبول کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ حکومت بھی کرپشن کے خلاف نعرہ زنی کے باوجود اصلاح احوال کے لئے نہ تو نیب قانون میں ترمیم کرسکی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا طریقہ متعارف کروایا گیا جس کے تحت سیاسی لیڈروں کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کو جلد از جلد حتمی انجام تک پہنچانے کا اہتمام ہو سکے۔ اس حوالے سے شفاف اور کسی بیرونی اثر و رسوخ سے پاک طریقہ و نظام ہی قابل قبول بھی ہوگا ۔ ایسے نظام میں سزا کے بعد ہی اسے ملکی و بین الاقوامی طور سے اعتبار کی سند حاصل ہو سکے گی اور مبینہ بدعنوانی کے کلچر کا خاتمہ بھی ممکن ہو گا۔

نواز شریف مزاحمتی سیاست کا اعلان کرتے ہیں اور حال ہی میں ٹوئٹ پیغامات میں انہوں نے عوامی جمہوریت کے لئے سینہ سپر رہنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ چند سیٹوں یا اقتدار کے لئے سیاست نہیں کر رہے بلکہ تاریخ میں درست سمت میں کھڑے رہنا ہی ان کا سیاسی مطمح نظر ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں ایک ایسے نظام کے خلاف احتجاج کرنے والا کوئی بھی سیاست دان محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اسی تصویر کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ موجودہ حکومت کسی بھی قیمت پر نواز شریف کو واپس لانے کا اعلان تو کرتی ہے لیکن اس کے لئے شاید نواز شریف کی واپسی کا بوجھ برداشت کرنا آسان نہ ہو۔ اس وقت نواز شریف کے اعلان جمہوریت و عوامی حاکمیت کے خلاف تحریک انصاف کا واحد مؤثر نعرہ یہی ہے کہ نواز شریف قانون سے بھاگے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر وہ واپس آگئے تو حکومت کے پاس اس تحریک کو روکنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا۔

 ملک کے  سیاسی وجمہوری معاملات میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت اور مخالف آوازوں کو خاموش کروانے کے لئے انتہائی ہتھکنڈے اختیار کرنے کی روایت کی وجہ سے نظام میں تبدیلی کی تحریک کے لئے سیاسی قائد کا زندہ سلامت رہنا ضروری ہے۔ پاکستان کا نظام نواز شریف کو یہ ضمانت فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ اسی لئے وہ پاکستان سے باہر مقیم ہیں اور ان کے مشن اور سیاسی جدوجہد سے اتفاق کرنے والے بھی ان کی سلامتی کے لئے ان کا بیرون ملک رہنا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments