بیانیے کی جنگ تو اب شروع ہوئی ہے


\"\"برادرم یاسر پیرزادہ کی کتاب ’بیانیے کی جنگ ‘ چند ماہ قبل شائع ہوئی۔ یہ کتاب ان کالموں کا مجموعہ ہے جو آپریشن ضرب عضب سے پہلے کے ان تاریک برسوں میں لکھے گئے جب پاکستان میں رہنے والے دن رات دھماکوں کی زد میں تھے۔ ہوا میں بارود کی بو ٹھہر گئی تھی۔ یاسر پیرزادہ ہمارے ان قلم کاروں میں شامل تھے جنہوں نے دہشت گردی کے سامنے سر جھکانے سے انکار کیا۔ دسمبر 2014 ءمیں پشاور آرمی پبلک سکول پر وحشیانہ حملے کے بعد ہوا کا رخ بدل گیا۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ معاملہ شمالی وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا نہیں تھا اور نہ کراچی میں جرم و تشدد کے کھیل تک محدود تھا ۔ بلوچستان میں ہتھیار اٹھانے والے کبھی قومی سلامتی کے لیے حقیقی خطرہ نہیں تھے۔ پاکستان کی ریاست آبادی ، رقبے اور عسکری صلاحیت کے اعتبار سے دنیا کی چند طاقتور ریاستوں میں شمار ہوتی ہے۔ دہشت کا کھیل کھیلنے والے دراصل اس قومی بیانیے کی آڑ میں شب خون مار رہے تھے جو ہماری ریاست نے 70ء کی دہائی میں اختیار کیا تھا۔ اس قومی بیانئے کی کوکھ سے افغان جہاد، فرقہ واریت، بنیاد پرستی اور دہشت گردی نے جنم لیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز ٹیلی فون پر افغان صدر اشرف غنی کو بتایا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کا کوئی محفوظ ٹھکانہ باقی نہیں۔ زمینی حالات سے اس موقف کی تصدیق ہوتی ہے۔ ہماری افواج نے سیاسی قیادت کی بھرپور تائید کے ساتھ دہشت گردوں پر گہری ضربات لگائی ہیں۔ یہ حوصلہ افزا خبر آنے کے بعد درویش نے یاسر پیرزادہ کی کتاب پھر سے اٹھائی ۔ جستہ جستہ پڑھتا گیا ۔ یہ بھیانک دنوں کی کہانی ہے۔ ہم جانتے تھے کہ ہماری ریاست دہشت گردوں سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے لیکن کہیں کچھ عبقری دماغ ایسے تھے جو دہشت گردی کو قومی مفاد کے حصول میں مفید سمجھتے تھے۔ یاسر پیرزادہ کی کتاب سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ’جنگ جیت لی گئی ہے‘۔ عرض یہ ہے کہ جنگ کے پہلے مرحلے میں فیصلہ کن کامیابی حاصل کی گئی ہے۔ یہ جنگ کا خاتمہ نہیں، ایک طویل لڑائی کا نقطہ آغاز ہے۔

آپریشن ضرب عضب میں بیک وقت کئی محاذوں پر پیش قدمی کی گئی۔ جن علاقوں میں دہشت گردوں نے متوازی حکومت قائم کر رکھی تھی \"\"وہاں فوجی کارروائی کی گئی۔ اسلحے کے ذخیرے برآمد کیے گئے۔ گھمسان کے معرکے ہوئے۔ غاروں کے وسیع زیر زمین سلسلے دریافت ہوئے ۔ سینکڑوں فوجی جوان اور افسر شہید ہوئے۔ دہشت گرد مارے گئے ، گرفتار ہوئے اور جہاں ممکن ہوا، جان بچا کر سرحد پار فرار ہو گئے۔ مختلف مقامات پر دہشت گردوں کے مواصلاتی مراکز پکڑے گئے۔ فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف کارروائی ہوئی۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے راستے مسدود کیے گئے۔ نتیجہ یہ کہ دہشت گردی کے واقعات میں واضح کمی آئی ہے۔ اب فضاﺅں میں ڈرون طیاروں کی گونج سنائی نہیں دیتی۔ بے گھر ہونے والے افراد کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔ پلٹ رہے ہیں، غریب الوطن پلٹنا تھا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے اس عفریت نے چند مفروضوں سے جنم لیا۔ اہم ترین مفروضہ یہ تھا کہ پاکستان میں ریاستی اداروں کے کچھ اہلکار قومی مفاد کا تعین کرنے پر اجارہ رکھتے ہیں۔ برسوں کی محنت شاقہ سے منتخب سیاسی قیادت کی ساکھ کو اس قدر گرایا گیا کہ ملک کے منتخب وزیراعظم بے دھڑک سکیورٹی رسک قرار دیے جاتے تھے۔ نچلے درجے کے ریاستی اہلکار گویا ہوچی منہ اور چیانگ کائی شیک بنے پھرتے تھے۔ متوازی اقتدار کا یہ نظام قومی فکر اور سیاسی مکالمے میں نقب لگائے بغیر ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ ہمارے ذرائع ابلاغ اور درس گاہوں میں ایسی سوچ نے جنم لیا جو سرے سے ریاست کی عمل داری اور آئین کی بالادستی ہی سے منکر تھی۔ پاکستان کی قومی ریاست کو ملیامیٹ کرنے کا اس سے بہتر نسخہ کیا ہو سکتا تھا کہ سیاسی مکالمے میں خراسان، القاعدہ برصغیر پاک و ہند اور العالمی جیسی اصطلاحات نے جگہ پائی۔ اورنگ زیب عالمگیر نے صوفی سرمد کے بارے میں کہا تھا کہ اس کی رباعی بظاہر قافیے پر ختم ہوتی ہے دراصل میرا گلا کاٹتی ہے۔ گزشتہ عشروں میں پاکستان میں مذہبی سیاست پر مبنی کلامیے کا بڑا حصہ پاکستان کی ریاست کو پیوستہ مفادات کی جولاں گاہ بنانے کا حصہ تھا۔ اس سوچ نے ہمارے نظام تعلیم اورصحافت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ آج پاکستان میں مقبول سیاسی جماعتوں کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد جمہوریت پر حرف دشنام بھیجتی ہے۔ طرفہ تماشا ہے کہ جمہوریت کی جڑیں کاٹنے کے نام پر ووٹ مانگا جاتا ہے۔ علم میں ہم نے قابل تصدیق شواہد اور تحقیق سے انکار پر کمر باندھ رکھی ہے۔ ساڑھے سات ارب روپے کے وظائف وزیراعلیٰ پنجاب نے مستحق طالب علموں کے لیے تفویض کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اپنے بچوں کی تعلیم پر ہم ساڑھے سات سو ارب روپے بھی خرچ کریں تو کم ہیں۔ یہی حقیقی سرمایہ کاری ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فزکس، کیمسٹری ، انجینئرنگ اور طب کی تعلیم پانے والے یہ طالب علم اگر علم کے بنیادی منہاج ہی سے خائف ہوں گے تو ہم اہل علم کی بجائے اہل حرفہ پیدا کریں گے۔ غور کرنا چاہیے کہ ہمارے قابل ترین ڈاکٹر اور دوسرے پیشہ ورانہ ماہرین سینکڑوں کی تعداد میں ملک سے باہر کیوں چلے گئے ہیں ۔ ایک زاویہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ ملک میں ان تعلیم یافتہ افراد کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا مناسب بندوبست نہیں۔ لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ پیشہ ورانہ تعلیم پانے والے ان افراد نے قومی مفاد کی بجائے ذاتی منفعت کو ترجیح دی ۔

یہ درست ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف پہلا معرکہ ہماری قوم ، ریاست اور افواج نے جیتا ہے۔ لیکن یہ محض بندوق اور گولی کی لڑائی نہیں تھی ۔ بارود کی آگ اور دھماکوں کی گرج چمک میں فکری مباحث نہیں ہوا کرتے۔ مسلح تصادم میں مکالمہ معطل ہو جاتا ہے۔ بیانیے کی جنگ مکالمے میں جیتی جاتی ہے۔ اب ہمیں بات کرنا ہو گی کہ تعلیمی پالیسی کیا ہو۔ قومی زندگی میں عورتوں کو مساوی رتبہ اور حقوق کیسے دیے جائیں گے۔ پاکستان کو اقلیت دوست ملک کیسے بنانا ہے۔ باہم احترام کے ساتھ رواداری کو ایک اجتماعی قدر کے طور پر کیسے رائج کرنا ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والوں کا معیار زندگی کیسے بہتر بنانا ہے۔ کیسے اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ دنیا بھر سے سیاح ہمارے ملک میں گندھارا تہذیب کے نمونے دیکھنے آئیں۔ وزیراعظم بار بار کہتے ہیں کہ اقتصادی راہداری ملک کا نقشہ بدل دے گی۔ یہ راہداری کسی جزیرے پر تعمیر نہیں ہونا۔ اس راہداری کے دونوں طرف امن، آزادی، تحفظ اور قانون کی بالادستی درکار ہے۔ اگر ہمارے نوجوان اغوا کیے جاتے ہیں اور پھر ان کے بارے میں ایسی مہم چلائی جاتی ہے کہ غیرقانونی گمشدگی کا جرم پس منظر میں چلاجاتا ہے اور غیر مصدقہ الزامات کی مہم شروع ہو جاتی ہے تو ابھی ہم بیانیے کی جنگ نہیں جیت سکے۔ بیانیے کی جنگ جیتنے کے لیے قانون ، اختیار ، احتساب اور حقوق کے معمولات کو بحال کرنا ہو گا۔ بیانیے کی اصل جنگ اب شروع ہوئی ہے۔

 (بشکریہ روز نامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments