آسام اور میزورم کی لڑائی: انڈیا کی دو ریاستوں کے درمیان جھڑپ جو ’دو ملکوں کے درمیان جنگ‘ بن گئی ہے

سبیر بھومک - سینیئر صحافی، بی بی سی کے لیے


13 لاکھ کی آبادی والی شمال مشرق میں واقع پہاڑی ریاست میزورم کو بقیہ انڈیا سے جوڑنے والی شاہراہ پر آج کل غیر معمولی خاموشی ہے۔ دو ممالک میانمار اور بنگلہ دیش کے درمیان واقع میزورم اپنی پڑوسی ریاست آسام کے ذریعے انڈیا کی سرزمین سے جڑا ہوا ہے۔

آسام کے ساتھ میزورم کی کشیدگی میں 26 جولائی کو اس وقت اضافہ ہو گیا جب دونوں ریاستوں کی پولیس کے درمیان ایک متنازع سرحدی مقام پر جھڑپ ہوئی۔ دونوں ریاست کی پولیس نے ایک دوسرے پر فائرنگ کی۔ اس واقعہ میں سات افراد ہلاک اور 60 زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں آسام کے پانچ پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔

میزورم کے حکام نے الزام لگایا کہ آسام کے ایک سینیئر افسر کی قیادت میں 200 کے قریب پولیس اہلکاروں نے سرحدی قصبے ویرنگٹے میں میزورم پولیس چوکی پر قبضہ کر لیا۔

مقامی لوگوں کے مطابق بے دخل ہونے والےتقریباً 20 پولیس اہلکاروں کی مدد کے لیے آنے والے پولیس والوں نے پہاڑیوں میں پوزیشن لے کر جوابی کارروائی کی۔

مقامی میزو باشندوں نے آسام کے پولیس اہلکاروں کو سرحد تک لے جانے والی بسوں کو نذر آتش کردیا۔ اس کے علاوہ آسام پولیس کا ساتھ دینے والے دیہی لوگوں کے ساتھ بھی انکی جھڑپ ہوئی۔

ورینگٹے کے ایک دیہی باشندے نے کہا: ‘تھوڑی دیر کے لیے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے یہ دو ملکوں کے درمیان جنگ ہو رہی ہے۔’

سرحد

دونوں ریاستوں کے درمیان 165 کلو میٹر طویل سرحدی لائن ہے

دلچسپ بات یہ ہے کہ میزورم میں برسر اقتدار علاقائی جماعت میزو نیشنل فرنٹ (ایم این ایف) مرکز میں حکمران بی جے پی کی زیر قیادت شمال مشرقی جمہوری اتحاد کا حصہ ہے۔ ساتھ ہی پڑوسی ریاست آسام میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے۔ لیکن یہ حقیقت بھی دونوں ریاستوں کے رہنماؤں کو ایک دوسرے پر تشدد اکسانے کا الزام لگانے سے نہیں روک سکی۔

دونوں ریاستوں نے ایک دوسرے کے ریاستی عہدیداروں کے خلاف قتل کے مقدمات درج کیے ہیں۔ دوسری جانب آسام نے بھی مقامی لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ میزورم کا سفر نہ کریں۔

ویرنگٹے کے ایک سینیئر افسر ایچ لالتھنگلیانا نے کہا: ‘مجھے اپنے علاقے اور لوگوں کا دفاع کرنا ہے۔ میں ان کے غصے پر قابو نہیں رکھ سکتا۔ ہمیں اپنے دفاع کا حق ہے۔’

میزورم کا آسام پر ناکہ بندی کا الزام

اس تصادم کے بعد میزورم نے کہا ہے کہ اسے اب ‘معاشی ناکہ بندی’ کا سامنا ہے کیونکہ آسام گاڑیوں کو میزورم آنے سے روک رہا ہے۔

میزورم ضروری سامان کی فراہمی کے لیے آسام پر انحصار کرتا ہے۔ آسام بہت بڑی ریاست ہے جس کی آبادی تقریبا تین کروڑ ہے۔ میزورم، جو ابھی کوویڈ 19 وبا کی خوفناک لہر سے لڑ رہا ہے اس کا کہنا ہے کہ ریاست میں ادویات، آکسیجن سلنڈر اور ٹیسٹنگ کٹس کی کمی ہو گئی ہے۔

میزورم کے وزیر صحت رابرٹ لالتھنگلیانا نے کہا: ‘آسام پولیس میزورم جانے والے ٹرکوں کو روک رہی ہے اور وہاں کے دیہی لوگوں نے ریاست کا واحد ریل رابطہ اکھاڑ دیا ہے۔’

انھوں نے کہا: ‘جنگ لڑنے والے دو ملکوں کی فوجیں بھی طبی سامان اور زخمیوں کو جنگ کے میدان سے گزرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ لیکن آسام کی یہ ناکہ بندی غیر انسانی ہے۔’

تاہم آسام نے ایسی کسی بھی قسم کی ناکہ بندی سے انکار کیا ہے۔ ایک سینیئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ٹرک والے سامان نہیں لے جا رہے ہیں کیونکہ وہ سرحد پر ہونے والے تشدد سے خوفزدہ تھے۔

سکیورٹی

علاقے میں نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا گیا ہے

علاقے کی تاریخ

برطانوی حکومت کے دوران لوشائی ہلز (میزورم اس وقت اسی نام سے مشہور تھا) آسام کا حصہ تھا۔

سنہ 1972 میں میزورم ایک یونین ٹیریٹری یعنی حکومت کے زیر انتظام علاقے کے طور پر وجود میں آیا۔ بعد ازاں سنہ 1986 میں مرکزی حکومت اور ایم این ایف کے درمیان ایک تاریخی معاہدے کے بعد یہ ایک مکمل ریاست کے طور پر ابھرا۔ تاہم اس سے قبل علیحدگی پسند ایم این ایف نے تقریبا 20 سالوں تک انڈین سکیورٹی فورسز کے خلاف ایک طویل گوریلا جنگ لڑی تھی۔

آسام اور میزورم کے درمیان 165 کلومیٹر لمبی سرحد ہے۔

تازہ ترین تنازع کا مرکز ان کے درمیان پہاڑیوں اور جنگلات کا 1،318 مربع کلومیٹر علاقے ہے۔ میزورم اس پر دعویٰ کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کا یہ دعوی 1857 کے برطانوی قانون پر مبنی ہے۔ تاہم آسام کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ اس کی ریاست کے ‘آئینی حدود’ میں آتا ہے۔

متنازعہ علاقے میں رہنے والے میزو دیہی باشندوں نے رواں سال جون سے شکایت شروع کر دی تھی کہ وہاں کی پولیس آسام کے سینکڑوں دیہاتیوں کی مدد سے انھیں باہر نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔

میزو کی ایک دیہی خاتون للتھن پوئی نے بتایا کہ 10 جولائی کو آسام پولیس اور آسامی دیہی باشندوں نے انکی بستی پر دھاوا بول دیا جس کے بعد وہ اپنی سپاری (ڈلی) کی پوری فصل چھوڑ آئی تھیں۔

للتھن پوئی نے کہا: ‘انھوں نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا اور ہمیں باہر نکال دیا۔ انھوں نے ہم سے سپاری کی فصل بھی چھین لی۔ بعد میں انھوں نے ہمارے تالابوں سے پانی نکالنے کے بعد ہماری تمام مچھلیاں لے لیں۔’

اس علاقے سے بہنے والا ایک چھوٹا دریا میزورم اور آسام کے پولیس کیمپوں کو علیحدہ کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دونوں ریاستوں کی پولیس کے درمیان امن قائم رکھنے کے لیے مرکزی نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا گیا ہے۔

سرحد پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے وہاں واقع پام آئل پروسیسنگ یونٹ کا کام رک گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرحدی کشیدگی بڑھنے کے بعد میزو کے کسان پام کے باغات سے دور چلے گئے ہیں۔

دوسری طرف قریبی آئی تالانگ پہاڑوں میں رہنے والے میزو کسان جون سے شکایت کر رہے ہیں کہ آسام پولیس ان کی فصلوں کو تباہ کر رہی ہے۔

آسام کے دیگر ریاستوں کے ساتھ تنازعے

میزورم کی طرح آسام کا ناگالینڈ، میگھالیہ اور اروناچل پردیش کے ساتھ بھی اسی طرح کے سرحدی تنازعات ہیں۔ان تمام ریاستوں کا قیام پرانے آسام میں رہنے والے نسلی قبائلی گروپوں کی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے عمل میں آیا تھا۔ اس سے پہلے سنہ 1985 میں ناگالینڈ کے قصبے میراپانی میں آسام اور ناگالینڈ پولیس کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں 41 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

تازہ ترین تنازع کے بعد میزورم کی تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ دونوں ریاستوں کے درمیان سرحدی تنازعات کو ختم کرنے اور سرحد کی حد بندی کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے۔

اس سلسلے میں میزورم کے وزیر داخلہ لالچملیانہ نے کہا: ‘شمال مشرقی انڈیا میں اس طرح کے اقدامات کی تاریخ حوصلہ افزا نہیں رہی ہے۔اس معاملے میں ایک ہاتھ سے لینے اور دوسرے ہاتھ سے دینے کا عمل ہی مسئلے کو حل کی جانب لے جا سکتا ہے۔’

(سبیر بھومک کولکتہ میں مقیم ایک صحافی ہیں۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp