بیوی پر تشدد کرنا ایک قبیح فعل ہے


ایک صاحب نے لکھا ہے کہ ”بیوی کوئی لونڈی تھوڑی ہے کہ اس پہ تشدد ہو؟“
ہماری گزارش ہیں کہ

بابا، لونڈی پر بھی کسی بھی قسم کی تشدد کرنے کی ہرگز بھی اجازت نہیں ہے۔ وہ بھی ایک انسان ہے اور اس کے ساتھ بھی عزت، احترام، نرمی، ہمدردی، خیر خواہی، تعاون، آسانی، عفو و درگزر اور احسان کرنے کا حکم ہے۔

اسلامی نقطہ نظر سے نکاح مرد و عورت کے درمیان ایک عہد و پیمان ہے اور ایک پاکیزہ و مقدس رشتہ اور مضبوط بندھن ہے جس کی بنیاد سراسر محبت، مودت، رحمت، خیر خواہی، وفا، اعتماد اور احسان ہی پر ہے۔ میاں بیوی انسان ہی ہے اور ان سے غلطیوں کا صدور عین ممکن ہے لیکن باہمی الفت و محبت اور مودت کا تقاضا یہ ہے کہ عفو و درگزر اور احسان کی روش کو شیوا بنا دیا جائے۔ یہی طرز فکر اور عمل خانگی زندگی کو خوشگوار اور گھر کو جنت بنانے کا یقینی وسیلہ ہے۔

مرد قوام ہے یعنی گھر و خاندانی نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے، اس کی حفاظت و نگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہے اور عورت خاندانی زندگی میں حفاظت و خبر گیری کے تحت مرد کے ماتحت ہے اور ایسا انتظامی طور پر ہی ہے کہ معاملات درست اور احسن طریقے کے ساتھ چل پائے۔

یہاں سوال زیر بحث یہ ہے کہ کیا شوہر اپنی بیوی کو مارنے کا مجاز ہے؟

اس ضمن میں قرآن کی ایک آیت جس میں بیوی کو مارنے کا تذکرہ ہے کو بطور دلیل لایا جاتا ہے۔ بیوی پر تشدد کے قائلین اور اسلامی فکر کے منکرین ہر دو جانب سے سراسر انتہاپسندی سے کام لیا جاتا ہے اور غلط تاویل اور تشریح کر کے اپنے موقف کو سند جواز فراہم کرنے جتن کی جاتی ہے۔ آیت مذکورہ میں بیوی کی طرف سے ”نشوز“ یعنی نافرمانی، سرکشی اور بغاوت کی صورت میں بطور اصلاح، تدریجی عمل میں اخری درجہ میں صرف اس کی مشروط اجازت ہے نہ کہ کوئی حکم۔ اس ضمن یہ امور مد نظر رکھ کر اس الجھن کو سلجھایا جانا ممکن ہے۔

ہاتھ اٹھانا ناگزیر وجوہات کی بنا پر بطور اصلاح اخری حربہ ہے نہ کے پہلا اور کوئی شدید فعل۔

مارنا کوئی حکم نہیں بلکہ ناگزیر حالات میں صرف اس کی اجازت ہے اور یہ بالکل کوئی پسندیدہ عمل بھی نہیں ہے۔

تشدد کرنا ہر گز بھی نہیں بلکہ صرف بطور علامت، تنبیہ اور تادیب کے ہلکے انداز میں مارنا کہ جسم پر کوئی نشان تک نہیں پڑ جائے جبکہ منہ پہ مارنا تو صریحا منع ہے۔

مستقلا اس روش پہ قائم رہنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ اگر اصلاح نہیں ہو سکتی تو پھر مزید مراحل کے بعد بالآخر جدائی ہے۔

”اسلامی نظام معاشرت میں گھر کی مثال ایک چھوٹی سی ریاست کی ہے جس کی سربراہی قدرت اور فطرت نے شوہر کو سونپی ہے ’بیوی اس ریاست میں شوہر کی معاون اور اس کے مال و آبرو کی محافظ ہے۔ اگر کسی موقع پر بیوی کے رویے میں ایسا بگاڑ آ جائے کہ اس‘ ریاست خاندانی ’کی ٹوٹ پھوٹ کا اندیشہ پیدا ہو جائے تو ازدواجی زندگی بچانے کی خاطر قرآن حکیم نے شوہر کے لیے چند اقدامات اور تدابیر تجویز کی ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے :

”مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالٰی نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں، پس نیک فرمان بردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں بہ حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بد دماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر راستہ تلاش نہ کرو، بیشک اللہ تعالٰی بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے۔“

واضح رہے کہ

”یہاں فضیلت بمعنی شرف، کرامت اور عزت نہیں ہے، جیسا کہ ایک عام اردو خواں آدمی اس لفظ کا مطلب لے گا، بلکہ یہاں یہ لفظ اس معنی میں ہے کہ ان میں سے ایک صنف ( یعنی مرد ) کو اللہ نے طبعاً بعض ایسی خصوصیات اور قوتیں عطا کی ہیں جو دوسری صنف ( یعنی عورت ) کو نہیں دیں یا اس سے کم دی ہیں۔ اس بنا پر خاندانی نظام میں مرد ہی قوام ہونے کی اہلیت رکھتا ہے، اور عورت فطرتا ایسی بنائی گئی ہے کہ اسے خاندانی زندگی میں مرد کی حفاظت و خبر گیری کے تحت رہنا چاہیے۔“

بیوی کی طرف سے اگر نافرمانی، سرکشی اور بغاوت کا صدور ہو تو پہلا درجہ ان کی اصلاح کا یہ ہے کہ نرمی سے ان کو سمجھاوٴ اگر وہ محض سمجھانے سے باز نہ آئیں تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ ان کا بستر اپنے سے علاحدہ کردو اور جو اس شریفانہ سزا و تنبیہ سے بھی متاثر نہ ہو تو پھر بطور اصلاح اس کو معمولی مار مارنے کی اجازت ہے، جس سے اس کے بدن پر اثر نہ پڑے اور ہڈی ٹوٹنے یا زخم لگنے تک نوبت نہ آئے اور چہرہ پر مارنا مطلقاً منع ہے، قرآن شریف میں تیسری سزا یعنی مار کی اگرچہ بدرجہ مجبوری ایک خاص انداز میں مرد کو اجازت دی گئی ہے، مگر اس کے ساتھ حدیث میں یہ بھی ارشاد ہے ولن یضرب خیارکم یعنی اچھے مرد یہ مارنے کی سزا عورتوں کو نہ دیں گے۔ ”

اگر یہ تمام تدابیر اختیار کرنے کے بعد بھی مسئلہ حل نہ ہو پائے تو اگلی آیت مبارکہ میں فرمایا گیا ہے :

”اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مرد والوں میں اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو، اگر یہ دونوں صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں میں ملاپ کرا دے گا، یقیناً اللہ تعالیٰ پورے علم والا اور پوری خبر والا ہے۔“

”اس آیت میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جہاں میاں اور بیوی میں ناموافقت ہو جائے، وہاں نزاع سے انقطاع تک نوبت پہنچنے یا عدالت میں معاملہ جانے سے پہلے گھر کے گھر ہی میں اصلاح کی کوشش کر لینی چاہیے، اور اس کی تدبیر یہ ہے کہ میاں اور بیوی میں سے ہر ایک کے خاندان کا ایک ایک آدمی اس غرض کے لیے مقرر کیا جائے کہ دونوں مل کر اسباب اختلاف کی تحقیق کریں اور پھر آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور تصفیہ کی کوئی صورت نکالیں“

”اگر یہ کوشش بھی بیکار رہے اور میاں بیوی کی نفرت خود کو یا دوسرے کو ہلاک کرنے تک پہنچ جائے تو مارپیٹ کرنے اور تشدد کا راستہ اپنانے کی بجائے آخری قدم کے طور پر شوہر بیوی کو ایک طلاق رجعی دے۔ اگر دوران عدت معاملات درست ہو جائیں تو ٹھیک ورنہ طلاق کی عدت مکمل ہونے پر ان کا نکاح ختم ہو جائے گا اور بیوی کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔ خاندان چلانے اور بچانے کا یہی مہذب اور درست طریقہ ہے ’مارپیٹ، تشدد اور گالم گلوچ کی نہ فطرت اجازت دیتی ہے اور نہ اسلام اس کا حکم دیتا ہے۔ حضرت عبدا اللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے :

لا یجلد احدکم امراتہ ثم یجامعھا فی آخر الیوم۔
تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو نہ پیٹے کہ پھر دن ختم ہو تو اس سے مجامعت کرنے بیٹھ جائے۔

اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ایک طویل حدیث مبارکہ روایت کرتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خطبہ حجۃ الوداع بیان کیا گیا ہے۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

تم لوگ عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، کیونکہ تم لوگوں نے ان کو اللہ تعالیٰ کی امان میں لیا ہے، تم نے اللہ تعالیٰ کے کلمہ (نکاح) سے ان کی شرم گاہوں کو اپنے اوپر حلال کر لیا ہے، تمہارا ان پر حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمہیں ناگوار ہو، اگر وہ ایسا کریں تو تم ان کو اس پر ایسی سزا دو جس سے چوٹ نہ لگے! اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم اپنی حیثیت کے مطابق ان کو خوراک اور لباس فراہم کرو۔

درج بالا آیات و روایات سے واضح ہوتا ہے کہ بیویوں پر تشدد کا نہ حکم ہے اور نہ یہ عمل پسندیدہ ہے۔ بیوی کی سرکشی کی صورت میں مار کے علاوہ دیگر تدابیر اختیار کرنا ہی مشروع و مندوب ہے۔ ”

اگر بیوی سے واقعی ایسا قصور ہو بھی جائے جس میں خود شریعت نے مارنے کی اجازت دی ہے تو وہاں بھی مارنا صرف جائز ہے واجب نہیں البتہ نہ مارنا افضل ہے اور مار بھی ہلکا جو اذیت ناک نہ ہو۔ ”بنے ہوئے رومال یا ہاتھ سے مارے، کوڑا اور ڈنڈا استعمال نہ کیا جائے الغرض ہلکے سے ہلکا طریقہ اختیار کیا جائے۔ امام فخر الدین رازی علیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں پہلے بیویوں کو سمجھانے کا حکم دیا پھر بستروں سے علیحدگی کو بیان کیا اور آخر میں مارنے کی اجازت دی تو یہ اس بات پر صراحۃً تنبیہ ہے کہ نرمی سے غرض حاصل ہو جائے تو اسی پر اکتفا لازم ہے سختی اختیار کرنا جائز نہیں۔“

یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ عورت اپنی مزاج اور نفسیات میں بہت زیادہ حساسیت اور نزاکت رکھتی ہیں اس لئے ان کے ساتھ حکمت کے ساتھ پیش آنے کی نصیحت ہے۔ کوئی بھی انسان خامیوں اور کوتاہیوں سے ماورا نہیں ہے اس لئے حکمت یہی ہے کہ خامیوں کی بجائے ان کی خوبیوں پر نظر رکھی جائے اور اسی میں بہت ساری الجھنوں سے نجات کا سامان موجود ہے۔ اسی بنا رسول اللہ صلعم نے فرمایا ہے کہ ”عورتوں کے بارے میں میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا، کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہیں۔ پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اوپر کا حصہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اسے بالکل سیدھی کرنے کی کوشش کرے گا تو انجام کار توڑ کے رہے گا اور اگر اسے یونہی چھوڑ دے گا تو پھر ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہ جائے گی۔ پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت مانو، عورتوں سے اچھا سلوک کرو“

بیوی جو درحقیقت اللہ تعالی کی بڑی رحمت ہے جو ذریعہ محبت، الفت، راحت، فرحت، سکینت اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا ہے، ان کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں کے پیچھے پڑ جانا، اس کا حساب کتاب رکھنا اور اسے اپنی اوقات میں رکھنے کی زعم میں مبتلا رہنا جہالت اور حماقت ہے۔

سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اس طرزعمل میں خانگی زندگی کی حسن کے لئے دنیا جہاں کی سبق موجود ہے۔ کتنا پیارا رویہ، طرزعمل، سوچ اور نصیحت ہے۔

”ایک بدو صبح صبح امیر المومنین عمر ابن الخطابؓ کے گھر اپنی بیوی کی زبان درازی کی شکایت کرنے آیا، آپ ایک معمولی گھر میں رہتے تھے کوئی 100 کنال کا محل تو تھا نہیں اندر کی بات باہر صاف سنائی دیتی تھی، بدو جونہی دروازے کے پاس پہنچا، اس نے جناب فاروق رضی اللہ عنہ کی بیوی کو بولتے سنا جو بولتی جا رہی تھی اور آگے سے جناب فاروقؓ کی آواز تک نہیں آ رہی تھی، اگر عمر ابن الخطابؓ کا یہ حال ہے جو اتنے سخت ہیں اور امیر المومنین بھی ہیں تو میرا شمار تو کسی شمار میں نہیں ہے، پھر شکایت کا کیا فائدہ؟

ادھر بدو واپسی کے لئے پلٹا ادھر امیرالمومنین صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کے لئے گھر سے باہر نکل آئے، آپؓ نے بدو کو واپس جاتے دیکھا اور اس کی چال ڈھال سے سمجھ لیا کہ یہ مدینے کا باسی نہیں کوئی مسافر ہے آپ نے اس کو آواز دی کہ بھائی کسی کام سے آئے تھے؟ وہ واپس پلٹا اور کہا کہ امیرالمومنین میں اپنی بیوی کی شکایت لے کر آیا تھا کہ وہ مجھے بہت ڈانٹتی ہے مگر آپ کو بھی اسی مصیبت میں مبتلا دیکھ کر واپس جا رہا تھا کہ جب امیرالمومنین کا خود اپنا یہ حال ہے تو پھر ہمارے لئے بھی صبر کے سوا چارہ نہیں، امیر المومنین عمر فاروقؓ نے اسے نصیحت کی، فرمایا،

میرے بھائی، اس کی یہ ساری باتیں میں اس کے ان احسانات کے بدلے برداشت کرتا ہوں جو وہ مجھ پر کرتی ہے، وہ میرا کھانا تیار کرتی ہے، میری روٹی پکاتی ہے، میرے کپڑے دھوتی ہے، میری اولاد کو دودھ پلاتی ہے اور میرے دین کی حفاظت کرتی ہے اور مجھے حرام سے بچاتی ہے اور یہ سب اس پر واجب بھی نہیں ہیں، ، اس شخص نے کہا کہ امیر المومنین میری بیوی بھی یہ سب کام کرتی ہے، آپ نے فرمایا تو پھر اس کو برداشت کرو بھائی، فانھا مدۃ یسیرہ، یہ تھوڑی سی مدت ہی کی تو بات ہے، پھر نہ ہم رہیں گے اور نہ وہ، صدقت یا امیر المومنین، بدو نے نے کہا آپ سچ کہتے ہیں امیرالمومنین اور واپس چل پڑا، اسے عملی سبق مل چکا تھا کہ بولنا عورت کا عیب نہیں، برداشت کرنا مرد کا امتحان ہے۔

رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی میں ہمارے لئے عملی نمونہ ہے۔ ان کی خانگی زندگی مثالی رہی لیکن ان کی ازواج کی بشری کمزوریوں کی سبب مسائل کا بھی سامنا رہا لیکن کہی بھی ثابت نہیں ہے کہ انھوں نے کبھی سختی فرمائی ہو، ہاتھ اٹھانا تو بہت دور کی بات ہے۔

”حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں اچھا وہ ہے جس کا سلوک اپنے اہل و عیال سے اچھا ہو اور میں تم میں اپنے اہل و عیال کے بارے میں سب سے اچھا ہوں۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments