پاکستان میں مذہبی آزادی اور یوم اقلیت


3 جون 1947 کے تقسیم ہند ایکٹ کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقوں سے منتخب ممبران اسمبلی پاکستان کی پہلی اسمبلی کے ممبر قرار پائے گئے۔ اس فارمولے کے تحت 69 ممبران اسمبلی پر مشتمل اسمبلی وجود میں آئی۔ اس اسمبلی میں مسلم لیگ اقلیت جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ اس اسمبلی کا وجود 1946 کے انتخابات کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا۔ اس اسمبلی کا اجلاس 11 اگست 1947 کو قیام پاکستان سے محض 3 دن پہلے منعقد ہوا۔

اس اجلاس میں متفقہ طور پر قائد اعظم محمد علی جناح کو اسمبلی کا صدر بنایا گیا۔ اسمبلی صدر کا مطلب سپیکر قومی اسمبلی۔ یوں محمد علی جناح تا مرگ صدر اسمبلی یعنی اسمبلی کے سپیکر بھی رہے۔ اس اسمبلی میں متفقہ طور پر محمد علی جناح کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے صدراتی خطبہ میں پاکستان کے بنیادی اصولوں پر بات کی۔ آپ نے مذہبی آزادی کی مکمل حمایت کی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا کہ نوزائیدہ ملک میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو گئی۔ ان پر کوئی جبر، ظلم اور زیادتی نہیں ہوگی۔ ہر ایک کو آزادی ہوگی کہ وہ اپنے عقائد کے مطابق مندر، چرچ، مسجد، امام بارگاہ جا کر عبادت کریں۔ ہر کوئی اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا حق رکھتا ہے۔ قائد اعظم کا مشہور قول کہ ”“

I am going to constitute myself the Protector General of the Hindu minority in Pakistan.

سے یہ بات ظاہر ہوتی ہیں کہ آپ مذہبی آزادی کے علمبردار تھے۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے دسمبر میں 1947 میں عیسائی برادری کے ساتھ بطور مہمان کرسمس منائی یہ آپ کی زندگی کی آخری اور بطور سربراہ پاکستان آپ کی پہلی اور آخری کرسمس تھی۔ محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو جو تاریخ ساز خطبہ دیا اس میں نوزائیدہ پاکستان کے بنیادی خد و خال پیش کیے گئے۔ جہاں مساوات ہوگی۔ جہاں مذہبی آزادی ہوگی۔ جہاں قانون کی حکمرانی ہوگی۔ جہاں جمہوریت ہوگی۔ جہاں برابری ہوگی۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قائد اعظم کے اس خطبہ کو کبھی پاکستان میں حکومتی سرپرستی نہیں مل سکی۔ آپ کی وفات کے بعد ملک کو ”زبردستی“ مذہبی بنانے کی کوشش کی گئی۔ جب تک قائد اعظم صدر اسمبلی/سپیکر رہے کبھی بھی اسمبلی کا آغاز تلاوت یا نعت خوانی سے نہیں ہوا۔

ملک میں اقلیتوں کے ساتھ گزشتہ 74 سالوں سے نا انصافی روا رکھی گئی۔ مذہبی آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ ملک کے اندر موجود تمام اقلیتوں کو اسمبلی میں نمائندگی ملنی چاہیے۔ تاکہ وہ اپنی برادری کی آواز کو بلند کرسکے۔ ملک کے اندر اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جا رہا ہے۔ ملک میں اقلیتی برادری کے ساتھ کٹر مذہبی طبقہ کا رویہ ظالمانہ اور وحشیانہ ہے۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران ملک بھر میں ہندو اور عیسائی برادری کے لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے اور ان کی لڑکیوں کے ساتھ زبردستی شادی کرنا ثواب سمجھا جا رہا ہے۔

قادیانیوں کا نام لینا بھی پاکستان میں جرم ہے۔ دوسری طرف سابقہ فاٹا سے لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی کرنے والوں کی آبادکاری ابھی تک نہیں ہو سکی۔ ہزاروں کی تعداد میں سابقہ فاٹا کی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے متاثرین ملک بھر میں ناگفتہ بہ حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے 11 اگست 1947 کے خطبہ کی مناسبت سے اس دن کو اقلیتی یوم کی مناسبت سے منایا جاتا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشادات اور فرمودات پر حقیقی معنوں میں عمل کریں اور سابقہ فاٹا کی اقلیتی برادری کے متاثرین کو ترجیحی بنیادوں پر دوبارہ اپنے آبائی علاقوں میں آباد کریں اور حکومت ان کو متاثرین پیکج کی ادائیگی کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments