کیڑے مکوڑے (مختصر افسانہ)


نادر قریشی نے راستے بھر اپنی چودہ سالہ بیٹی ریحانہ کو سمجھایا تھا مگر پھر بھی وہ موٹرسائیکل سے اترتے ہی سیدھی ماں کے پاس پہنچی اور رو رو کر سارہ المیہ بیان کر دیا۔ نادر قریشی موٹرسائیکل کھڑی کر کے کمرے کی طرف لپکا ہی تھا کہ اس کی بیوی آسیہ، بیٹی کا دکھڑا سن کر ایک بپھری ہوئی شیرنی کی طرح اس پر جھپٹی۔ اسے گریبان سے پکڑا اور اس پر موٹی موٹی گالیوں اور بد دعاؤں کی بوچھاڑ کر دی۔

”میرے ساتھ دھوکہ ہوا ہے آسیہ! میں نے دانستہ کچھ نہیں کیا“ نادر نے بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی۔ لیکن وہ جانتی تھی کہ نادر کا تو پیشہ ہی یہی ہے اور آج وہ معصوم بیٹی کو بھی بیچ آیا ہے۔

مگر پھر آسیہ نے بیٹی کے کراہنے کی آواز سن کر نادر کا گریبان چھوڑ دیا اور اندر کی طرف لپکی، ادھر ان کے دونوں جوان بیٹے جو اس چھوٹے سے گھر کی چھت پر پتنگ بازی کر رہے تھے، یہ سب سن کر نیچے آ گئے۔ نیچے آ کر پہلے انہوں نے نادر کو ماں بہن کی گالیاں دیں، پھر اسے زمین پر گرایا اور مکوں ٹھڈوں سے اس کی پٹائی کرنے لگے۔ نادر پٹتا بھی جا رہا تھا اور ساتھ انہیں گالیاں دیتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ”مارو، مارو، مار لو آج مجھے۔

کل تمہاری اولادیں بھی تمہارے ساتھ یہی سلوک کریں گی۔ تمہیں بھی یہی طعنے دیں گی۔ نہ تعلیم ہے نہ ہنر ہے نہ کوئی جائیداد ہے۔ پھر شراب بھی پیتے ہو جواء بھی کھیلتے ہو۔ تم بھی کل یہی کام کرو گے۔ کوئی باہر کی نہیں ہو گی تو گھر کی عورت ہی تمہارا بھی نشانہ بنے گی“ ۔ یہ سن کر لڑکوں نے اس کی مزید پٹائی کی۔ اس کی تلاشی لی۔ تلاشی میں کافی مال ہاتھ آ گیا تو جیبیں بھرتے ہی وہاں سے نکل گئے۔

آسیہ، بیٹی کو دلاسا دے کر واپس آئی کہ بیٹوں کے ہاتھوں نادر کی پٹائی ہوتے دیکھ سکے۔ مگر انہیں وہاں نہ پا کر کچھ کہنا ہی چاہتی تھی کہ نادر بول پڑا ”پیسے چھین کر دوڑ گئے ہیں دونوں“ ۔ آسیہ نے حیرت سے اسے دیکھا ”لیکن تم تو کہہ رہے تھے تمہارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے؟“ ۔

نادر نے اپنی چوٹوں کو سہلاتے ہوئے لیکن اطمینان سے جواب دیا ”میں نے سچ کہا تھا مگر ان لوگوں نے بعد میں معافی مانگتے ہوئے کچھ پیسے میری جیب میں ڈال دیے تھے“ ۔

آسیہ نے طنزیہ لہجے سوال کیا ”جو وہ دونوں اب چھین کر لے گئے ہیں؟“ ۔
”ہاں مگر سارے نہیں۔ یہ لو کچھ پیسے میں نے اندر والی جیب میں چھپا لئے تھے“ ۔

آسیہ ابھی کچھ سوچ ہی رہی تھی کہ نادر نے وہ روپے آسیہ کے ہاتھ میں رکھ کر مٹھی بند کر دی ”رکھ لو انہیں۔ میں جانتا ہوں تمہیں پیسوں کی ضرورت ہے۔ جو ہونا تھا ہو چکا ہے۔ وہ سب بڑے لوگ ہیں۔ ہم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ لیکن دیکھو آج اپنی اس جرمن والی سہیلی کا ذکر نہ کرنا۔ جرمنی اور طرح کا ملک ہے۔ وہاں کی ریاست اپنے تمام باشندوں کو انسان سمجھتی اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتی ہے۔ جب کہ ہم یہاں کیڑے مکوڑوں کی طرح پیدا ہوتے اور کیڑے مکوڑوں کی طرح ہی مر جاتے ہیں ”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments