آئیے آزادی منائیں


1947 میں ہونے والی علیحدگی نے جہاں ایک جانب انسانی تاریخ کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا وہیں دوسری طرف پاکستانیوں کو قائد کی بدولت سکھ کا سانس ملا۔ یہ بھلا کیسے ممکن تھا؟ دو مختلف رسومات، تہذیب، مذہب، سوچ، اور طرز کے لوگ ایک جگہ رک پائیں؟ قائد کے اس نظریہ نے برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کو یکسر بدل کے رکھ دیا جیسے مادر ملت کی ”لالٹین“ نے۔ آپ آج سینتالیس میں ہونے والے دنگا فساد اور بربادیوں کا عکس دیکھیں تو روح کانپ اٹھے گی۔

ہماری اس نسل کی سکھ کے سانس کے لیے ہمارے آبا و اجداد نے قربانیاں دیں اور خدا کی کرم نوازی سے ہم نے ایک آزاد ملک میں آنکھ کھولی۔ آزادی اصل میں ہے کیا؟

آزاد ملک ایسے ملک کا نام ہے جہاں دماغ خوف سے پاک ہوں، جہاں سر نیچے نا جھکے۔ جہاں لوگ مذہب، رسم، قوم، نسل، رنگ، تفرقہ، حیثیت، سیکولر ازم، سوشل ازم اور کمیونزم جیسی اصطلاح سے کوسوں دور ہوں۔ جہاں عقل کا شفاف سر چشمہ، دانش مندی کا دریاء قوم کی مجموعی دانش کو سیراب کرتا جائے۔ جہاں لکھنے کی، پڑھنے کی، سوچنے کی آزادی ہو۔ جہاں کے لوگ ”آزاد غلاموں“ کی طرح زندگی بسر نہ کر رہے ہوں اور ایسا ہی ہے میرا وطن آزاد، الحمدللہ آزاد

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی آزادی ایک ذمہ دار شخص کے طور پر منائیں۔ اگر ہم استاد ہیں تو ہمیں تو اسکول، کالج، یونیورسٹی میں سیمینار منعقد کروائیں جس میں قائد، اقبال رحمۃ اللہ علیہ، سر سید احمد خان، لیاقت علی خان جیسی شخصیات کی زندگی پر روشنی ڈالی جائے۔ ہمیں چاہیے کہ لوگوں کو کتابیں تحفہ دے کر جہالت سے آزاد کریں، کسی غریب طالب علم کو پڑھائیں۔ کسی قاری کو سوچنا اور عالم کو لکھنا سکھائیں جو معاشرے کی مجموعی دانش مندی میں اضافہ کر پائیں۔ لائبریریاں بنوائیں، قوم کو ٹیکنالوجی کی جانب راغب کریں جس کا در مشرق کی طرف کھلے۔ مدارس کو اپ گریڈ کریں۔

ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے آزادی منائیں کہ غریبوں کی مالی مدد کر کے غربت سے آزادی دلائیں۔ کسی نوجوان کو ہنر سکھا کے بے روزگاری سے آزادی دلائیں، کسی لاچار کو اس کی بے بسی سے آزادی دلائیں۔ کسی بیمار کا خرچ اٹھا کہ جو زندگی کی تمنا لیے اداس آنکھوں سے مسکرا رہا ہو اسے اذیت سے آزادی دلائیں۔ آزادی ایسے منائیں کہ کسی بے بسی کی بے بسی کے خاتمے کا سبب بنیے۔ آزادی کے دن، چھٹی کے دن جو کسی غریب کا ”دھندا کھا“ جاتا ہے اس روز پھل دار درخت لگائیے جس کا سایہ آپ تک بھی پہنچے اور لوگ سکھ کا سانس لے پائیں۔ آئیے یوں آزادی منائیں۔

آزادی کے روز اپنے بچوں کو پاکستان کے ہیروز کی قبر منور کی زیارت کروائیں۔ انہیں سکھائیں کہ یہ دن شور شرابا کا دن نہیں بلکہ خدا کے سامنے جھکنے کا دن ہے۔ دو نفل شکرانہ ادا کرنے کا دن ہے۔ پاکستان کے لیے جانیں قربان کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے اور پاکستان کے لیے خود کو وقف کردینے کے عزم کا دن ہے۔

اسفند جاوید مہر
Latest posts by اسفند جاوید مہر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments