“ہم سب” کے سب کہاں سے آئے؟ (آخری حصہ)


پہلا حصہ

حاشر ابن ارشاد نے کہا، بابا جی یہ سامنے دو ٹیکریوں پر خواتین کے سائے کیسے ہیں؟

وسی بابا نے حاشر کو غور سے دیکھا اور تیوری چڑھاتے ہوئے کہا ، ان میں سے ایک کو تو تم جانتے ہو!

ایک لینہ حاشر ہے اور دوسری رامش فاطمہ

دونوں کے پاس زندہ لاشوں کو زندگی کا شعور دینے کا سلیقہ ہے ٗ  دونوں ہنر مند ہیں ٗ  دونوں کا طریقہ واردات ذرا مختلف ہے   ٗ دونوں ذہین ہیں لیکن۔۔۔ دونوں کا اس میں کوئی کمال نہیں؟

واہ وسی بابا یعنی دونوں ہنر مند بھی ٹھہریں اور باسلیقہ بھی لیکن دونوں کا اس میں کوئی کمال نہیں ٗ  بابا جی مجھے کہنے دیجئے  آپ کے اندر عورتوں کے حوالے سے تعصب ختم نہیں ہوا۔ حاشر ابن ارشاد نے کہا

وسی بابا تھوڑی دیر خاموش رہے ۔ پھر پاس جلتی آگ کو دو پھونکیں ماریں کہ دھواں تکلیف دے رہا تھا اور پھر حاشر کو مخاطب کر کہ کہا،

نوجوان ٗ  لینہ حاشر کے حوالے سے زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں، 

حاشر نے بات کاٹتے ہوئے کہا  نہیں بابا بات لینہ کی۔۔

وسی بابا کی دھاڑ سنائی دی۔ بابا سب جانتا ہے  ۔۔خاموش

دیکھو رامش کی ساری دانش ریت کی عطا کردہ ہے ۔ ماحول صرف ہمارے نقش و نگار ہی نہیں سوچ  اور آواز کو بھی شکل دیتا ہے۔مائی بھاگی کو کسی اکیڈمی کی ضرورت نہیں ہوتی،   شاہ جو رسالو کو کیسے آواز دینی ہے عابدہ پروین کو سیکھنے کی ضرورت نہیںٗ الن فقیر سمیت کسی ریت کے فنکار کو گلے میں سوز اور درد اجاگر کرنے کے لیے تربیت کی ضرورت نہیں۔

مارو نے جو دھاگے باندھے، ہر دھاگہ زرتار،

ریشم سے نہ للچا مجھ کو، میں صحرائی نار،

سب کچھ دوں میں وار، اس شال کے اک اک دھاگے پر

کبھی سوچو کہ دانش کی ریت سے کیا نسبت ہے؟

کیا یہ دانش تھی جس نے اپنے لیے ریت کو بطور  مقام منتخب کیا ۔۔یا یہ ریت تھی  جس نے دامن میں رہنے والوں کو دانش بخشی؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ سرسوتی کی ندی کے خشک ہونے پر جو دکھ اترا تھا اس نے  یہاں کے باسیوں کو دھیما پن اور دانش بخشی ہو ؟

لیکن سرسوتی کے سوکھنے کے بعد بھی یہاں کے رہنے والوں نے ہجرت کیوں نہ کی؟

  ریت پہاڑ جنگل سب زنجیر یں رکھتے ہیں۔ دامن میں پناہ لینے والوں کو باندھ لیتے ہیں۔

 لیکن پورے کرہ ارض پر جو مضبوط زنجیر ریت کی ہے وہ کسی اور کے پاس نہیں۔

ریت نے دانش کیسے دی؟ حاشر وسی بابا کے دیو مالائیت لہجے میں کھو چکے تھے۔

معلوم نہیں،   اس کا صحیح جواب کیسے دیا جا سکتا ہے؟

جواب کے متلاشی ریت میں رہے بھی اور جواب بھی پایا لیکن ابلاغ سے معذور ہو گئے۔ شاید ریت راز افشا نہیں کرنا چاہتی۔

حاشر کبھی ریت میں جا کر رہو۔ ریت کے حسن کی تاب لانا بہت مشکل ہے۔ شام سمے کسی ٹیلے پر بیٹھو۔

 سرخ تھال کو ڈوبتے ڈوبتے ریت کو سرخ کرتا دیکھو۔

 ٹیلے پر بیٹھے روح میں اترتی اس نیم گرم ہوا کو محسوس کرو،

دیکھوٹیلے پر پاس سے اڑتے ریت کے ذرے کیسے ہجر کا نوحہ پڑھتے ہیں ؟

کیسے کوئی اپنے سانولے پاؤں کو ریت میں یو ں حرکت دیتی ہے جیسے کوئی کسی جھیل کنارے بیٹھ کر پانیوں میں پاؤں مارتا ہے؟

میرا پریتم سبزہ زار میں، ریوڑ لایا ہوگا،

ملوں گی برکھا رت میں میں تو، کر لائی ہوں وعدہ

دنیا میں خوشی کے امکانات اور ان امکانات کے پورا ہونے کی شکل میں تجربات ڈھیروں ہیں ۔ لیکن ریت خوشی اور دکھ میں انتہا سے روشناس کراتی ہے۔ سوچوصحرا کی وسعتوں میں ایک چوئنرو میں حاشر بیٹھا ہے۔ آسمان آگ برسا رہا ہے۔ بگولے ریت کے سینے پر رقص درویش میں مشغول ہیں ۔ اچانک بادل آتے ہیں اور بارش ہوتی ہے ۔ آپ فورا  چھپر چھن میں بندھے جانوروں کو کھولتے ہیں اور درختوں کے ایک مختصر جھنڈ کی جانب جاتے ہیں۔ اچانک صحرا بچے کی مانند بلاوجہ ہنسنا شروع کر دیتا ہے۔

 سنگی ساتھی بھی جانوروں کے ساتھ خوشی سے چیختے چنگھاڑتے نمودار ہو جاتے ہیں۔

 وہ کہ جب صحرا کے کسی کونے میں نمودار ہوتی ہے تو دل کی دھڑکن تھم جاتی ہے وہ اس رلی کو سر پر لیے آ پہنچتی ہے جس پر تھوڑی دیر پہلے کترنیں سجا رہی تھی۔

چوڑیاں بج رہیں ہیں،  نتھ اٹکھیلیوں پر اتر آئی ہے۔ کسی درخت پر اب بھی ٹکا کوئی قطرہ چہرے پر آ گرتا ہے ۔

ٹھنڈی تیز ہوا اور پیلا دوپٹہ ایک مشترکہ سازش میں شریک ہو جاتے ہیں ۔

کہے لطیف کہ دیکھ تو بادل، چھائی کالی بدرا،

ریوڑ لاؤ ڈھلواں پہ، چھم چھم برسی برکھا،

پھر اتر سے آئے بادل، جیسے کالے کیس،

رت ساون کی آئی سجنی! پہن کے بدرا بھیس،

پریتم تھے پردیس، برکھا رت میں آن ملے

تو حاشر ریت کی پیداوار ایسی ہی ہوتی ہے۔ انسان دوستی کا سبق، محبت کا درس  وغیرہ زرخیز میدانوں کے باسیوں کے لیے ہیں۔ریت کی دانش تو ازل سے محبت سے بھرپور ہے۔ انسان کی اوج دانش اور محبت ہی تو ہے ۔تو بتاؤ بھلا رامش فاطمہ کا اس میں کیا کمال ہے؟

ٹھیک ہے لیکن لینہ حاشر تو ریت کے سینے پر رقصاں بگولا نہیں  ہے ؟ حاشر نے کہا

وسی بابا نے بجھتی آگ میں دو پھونکیں ماریں اور کہا،   دیکھو بھائی اگر انسان کو دو ہنر آ جائیں تو وہ بہت موثر ہو جاتا ہے۔

ایک دکھ  اور اس کے اثرات سے آشنائی اور دوسرا ضرب لگانا۔

لینہ بی بی کا کوئی کمال نہیں۔ یہ جو بروقت ضرب ہے یہ اس کو باپ سے ملی ہے۔ قوال کی شناخت ضرب ہے ۔ کب اور کہاں ضرب لگانی ہے اچھے قوال کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن دانشور وں میں یہ خوبی بہت کم پائی جاتی ہے۔

دانش کا اظہار قلم سے ہوتا ہے تو چہرہ غائب اور اچھا بولنے کا ہنر نصیب میں آ جائے تو قلم کمزور ہونے لگتا ہے۔

عجیب بات نہیں ہے کہ لوگ ہنسنے کے لیے انور مسعود کی محفل میں جائیں اور واپسی پر شدت غم سے آنکھیں سرخ کر کے آ جائیں۔ لوگ رونے کا ارادہ باندھ کر جائیں اور ہنستے ہوئے یوں واپس ہوں کہ انتڑیوں میں بل لیے دہرے ہو تے واپس آئیں۔

انور مسعود ایک ایسا فنکار جس کے چہرے پر تین مزید منفرد شناخت کے فنکاروں کا اجتماع ہے۔

چہرے کی لکیریںٗ  آنکھیں اور ہونٹ

ان تین فنکاروں کو پتلیوں کی مانند کیسے نچانا ہے پیچھے بیٹھا بڑا فنکار جانتا ہے۔ جب انور مسعود کی آنکھ ضرب لگاتی ہے  اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ضرب کے بعد ایک دورانیہ سکتے کا بھی ہوتا ہے۔ قوال بھی یہ سکتہ ڈالتا ہے یہ دیکھنے کے لیے کہ سامنے بیٹھے مٹی کے پتلوں میں کتنے مر گئے ہیں۔

 انور مسعود کے سکتہ میں ایک فرق ہے ۔ ان کے سکتہ میں ان کے چہرے پر بیٹھے تین فنکار اچانک فنکار سے تماشائی بن جاتے ہیں  اور سامنے بیٹھے ہزاروں تماشائی فنکار بن جاتے ہیں۔ ایسا کبھی دیکھا ہے؟

انور مسعود کے دل میں جتنی محبت ہے اس کی میں نے ایک دفعہ صحیح صحیح  پیمائش کی تھی۔میں نے اندازہ لگایا کہ وہ فالتو محبت جس کے بغیر بھی انور مسعود, انور مسعود رہ سکتے ہیں کواگر پوری دنیا میں برابر تقسیم کر دیا جائے تو دنیا میں دو بڑی تبدیلیاں فورا نمودار ہو ں گی۔

نمبر ایک: دنیا میں سرحدیں ملیامیٹ  ہو جائیں گی اور۔۔

نمبر دو: دنیا میں دو کروڑ تہتر لاکھ نو ہزار چھ سو تیس فوجی بے روزگار ہو جائیں گے۔

دکھ سے آشنائی ٗ  دکھ کو بطور ہتھیار کیسے استعمال کر کے انسانوں کے دل موم کرنے ہیں اور ضرب کا تخمینہ بحوالہ طاقت و وقت۔۔ دنیا کے موثر ترین ہتھیار ہیں جو لینہ حاشر کے پاس ہیں ۔یہ ہتھیار اسے انور مسعود سے ملے ہیں۔ اب ذرا بتاؤ اس میں لینہ حاشر کا کیا کمال؟

خاموشی چھا گئی۔ وسی بابا اور اس کے سامنے بیٹھے معتقدین چپ بیٹھے رہے۔ آس پاس تا حد نظر کفن پوش جو اس کہانی کو سن رہے تھے ان میں سے کچھ نے خفیف سی حرکت بھی کی۔ حاشر خاموش رہے ۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ واپس جا کر اس کمرے میں پناہ لیں جہاں روشنی کے تین ڈبے دیوار کے جسم پر رینگتے تھے یا یہیں وسی بابا کے چرنوں میں بیٹھے رہیں۔

وسی بابا نے جیسے حاشر کے دل کی کشمکش کو پڑھ لیا تھا فورا بولے۔۔

یہاں کیوں بیٹھے ہو جاؤ ۔۔جاؤ جا کر لینہ حاشر کے چرن چھوؤ !


پہلا حصہ

دوسرا حصہ

تیسرا حصہ

آخری حصہ

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments