ظلم اور مظلومیت کے مکھوٹے



بھارت کے سابق صدر ڈاکٹر کلام نے اپنی سوانح عمری میں اپنی قوم کے بارے میں لکھا تھا کہ ہماری عوام کا المیہ یہ ہے کہ یہ بیک وقت ظالم اور حد درجہ رحمدل ہیں، یعنی صورت حال کے مطابق ان کا نظریہ بدل جاتا ہے۔ حسب ضرورت کبھی مظلوم ہوتے ہیں تو کبھی ظالم۔ ذاتی مشاہدہ کی بنیاد پر میں کہ سکتا ہوں کہ دوغلا ہونے کی یہ خصوصیت پاکستانی عوام کی بھی ہے۔ ایک عام بے اختیار پاکستانی سے لے کر با اختیار لوگوں تک سبھی حسب ضرورت اپنا نظریہ بدلتے ہیں۔

ایک خاص سیچوایشن میں جو مظلوم بنا ہوتا ہے وہی تھوڑا سا اختیار ملنے پر گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے، اور یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ بڑے یعنی میکرو لیول کا دہشت گرد نہ سہی مگر مائیکرو لیول کا دہشت گرد ضرور ہے۔ عمومی طور پر میکرو لیول کی دہشت گردیوں مثلاً گزشتہ دنوں نور مقدم کا بے رحمانہ قتل یا کسی ملک یا قوم پر جنگ مسلط کرنا وغیرہ پر تو بہت کچھ لکھا اور بولا جاتا ہے مگر مائیکرو لیول کی دہشت گردیوں سے عمومی طور پر صرف نظر کر دیا جاتا ہے۔

اس تحریر کا بیک گراؤنڈ دو واقعات ہیں۔ ایک حادثہ جو اوکاڑہ سٹی کے ڈائیوو سب ٹرمینل کے باہر چند روز پہلے پیش آیا وہ پہلے بیان کرتا ہوں۔ شام کے تقریباً سات بجے کے قریب میں بس سے اتر کر آٹو رکشہ میں بیٹھا اور ڈرائیور ابھی آٹو سٹارٹ ہی کر رہا تھا کہ ٹرمینل سے نکل کر لاہور جانے والی بس نے رکشہ کو بری طرح سائیڈ مار دی، حالانکہ بس کا ڈرائیور بہت آسانی سے ہارن بجا کر یا بریک لگا کر آٹو ڈرائیور کو راستہ دینے یا چل پڑنے کا کہ سکتا تھا۔

مگر چونکہ وہ اس پوزیشن میں تھا کہ آٹو رکشہ کو ہٹ کر سکے تو اس نے اپنی بڑی گاڑی کی سائیڈ مار کر اپنے دہشت گردی کر سکنے کے ممکنہ اختیار کا بھر پور استعمال کیا۔ جواب میں رکشہ ڈرائیور نے جب گالیوں کا استعمال کیا تو ٹرمینل مینیجر نے بھی آ کر اپنے بس ڈرائیور کی غلطی پر معافی مانگنے کی بجائے رکشہ ڈرائیور کو برا بھلا کہا اور جواباً گالیوں سے تواضع کروائی۔ اسی بس ڈرائیور کو آگے چل کر اگر ٹریفک پولیس یا کوئی اور با اختیار لوگ روک لیں تو چھوٹے چھوٹے بچوں اور کم تنخواہ کی مظلومیت کا ایسا رونا روئے گا کہ محسوس بھی نہ ہو گا کہ یہی شخص ایک بزرگ رکشہ ڈرائیور کے ساتھ دہشت گردی کر کے آ رہا ہے۔

دوسرا حقیقی واقعہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ساہیوال کا ہے جس کے ایک میڈیکل افسر کے سامنے ایک مریض اپنی غربت، تنگ دستی، زیادہ بچوں، کم آمدنی اور ملک کی مہنگائی کا رونا اس قدر رو رہا تھا کہ میرا اور میرے دوست کا دل کیا کہ اپنی جیب میں جتنے پیسے ہیں اس کو دے دیے جائیں اور یہی سوچ کر ہم اس کے پیچھے چل دیے تو کیا دیکھا کہ ہسپتال کے باہر دھوپ میں انتظار کرتی ہوئی اپنی بیوی کو دو چھوٹے بچوں کے سامنے یوں غلیظ گالیوں کے ساتھ مخاطب ہوا جیسے اس نے اس کی بیوی بن کر کوئی ناقابل تلافی گناہ کیا ہو۔ ہسپتال کے اندر جو مظلوم بنا ہوا تھا وہی اپنی فیملی کے لیے ایک دہشت گرد سے کم نہیں تھا۔ معصوم بچوں کے لئے ایک بے رحم انسان ہسپتال کے اندر خود رحم کا طلب گار تھا۔ ہم اس کا دوہرا رویہ دیکھ کر بہت حیران اور افسردہ ہوئے۔

آپ بھی اپنی روزمرہ زندگی میں ایسے بہت سے واقعات اور حادثات کا مشاہدہ کرتے ہوں گے۔ دہشت گردی کی یہ مائیکرو وارداتیں ہماری سوسائٹی کے تقریباً ہر طبقہ میں پائی جاتی ہیں۔ ان کے تدارک کے لیے ضروری ہے کہ افراد کی سماجی اور نفسیاتی ٹریننگ اس طرح کی جائے کہ اخلاقی لحاظ سے مضبوط کردار کے حامل لوگ تیار ہوں، جنہیں صحیح اور غلط کے درمیان فیصلہ کرنا بھی آتا ہو۔ ایسے حالات میں ٹیچرز خصوصاً سماجی علوم سے منسلک اساتذہ کا کردار بہت اہم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments