حکومت کا نیا آئین زباں بندی


آزادی صحافت اور جمہوریت کا تصور ایسا ہی ہے جیسے ریاست کا ماں ہونے کا۔ لیکن پاکستان میں اس وقت ریا ست بھی ماں جیسی ہی ہے لیکن سوتیلی۔ کسی بھی معاشرے کو اگر ترقی کرنی ہے تو اس کو سوال کرنا آنا چاہیے اور اگر صحافی ہو تو اس کے لیے تو یہ لازمی جزو ہے۔ یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ بندے کا شغل صحافت ہو اور سوال نہ کرے۔ اگر کسی آمر کی حکومت ہوتی تو سمجھ بھی آتی تھی۔ لیکن جمہوریت میں ایسا ہونا ایک جرم کے مترادف ہے۔ حکومت وقت جو اقدام پیمرا کے ذریعے کرنے جا رہی ہے وہ ایک بھیانک اور بھونڈی حرکت ہے جو کہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کی طرح ہے۔

آرڈیننس میں میڈیا سے متعلقہ تمام موجودہ قوانین کو منسوخ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ بشمول پریس کونسل آرڈیننس 2002، پریس، اخبارات، نیوز ایجنسیاں اور کتب رجسٹریشن آرڈیننس 2002، اخبارات کے ملازمین (سروسز ایکٹ کی شرائط ) ، 1973 پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس، 2002، جیسا کہ پیمرا ترمیمی ایکٹ، 2007 اور موشن پکچرز آرڈیننس، 1979 میں ترمیم کی گئی ہے۔

اس طرح تو لگ رہا ہے جیسے ریاست خود ہی کوئی طریقہ ڈھونڈ رہی ہے کہ وہ میڈیا ہاؤس یا اخبار ہو جس مٰیں اپنے صحافی رکھے جو عوام کو بتا سکے کہ سب اچھا ہے۔ ویسے بھی تو کچھ ایسے صحافی موجود ہیں جو مثبت رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی صاحب نے ایسے لوگ بھرتی کیے ہوئے ہیں جو صحافت کی الف ب تو جانتے نہیں لیکن ان کو یہ بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون محب وطن ہے اور کون غدار ہے۔ آپ لوگوں کے لیے بھی آسانی کر دیتا ہوں کہ یہ وہ چہرے ہیں جن کی کوئی شناخت نہیں لیکن خود کو بلاگر اور یوٹیوبر کہتے ہیں۔

اگر اس آرڈیننس پر نظر ڈالیں تو لگتا توں یوں ہے کہ جناب عزت ماب ماضی کی طرح یوٹرن لیں گے اور اس کام میں تو صاحب کا کوئی ثانی نہیں۔

بات اگر صاحب بہادر کی کریں تو یہ فرمان وہاں سے ہی جاری ہوا لگتا ہے۔ کیوں کہ صاحب بہادر نے جسے چنا ہے اسی نے صاحب بہادر کو بھی مزید 3 سال کے لیے چنا تھا۔ بلکہ بات تو کچھ یوں معلوم ہوتی ہے کہ میں نے تجھے چن لیا تو بھی مجھے چن۔

آزادی تو مل گئی لیکن بات کرنے اور سوال کرنے کی آزادی ابھی میسر نہیں آ رہی۔ اور خان صاحب کو ان کے ووٹر بار بار یہ ہی گانا سنا رہے ہیں کیا ہوا تیرا وعدہ وہ قسم وہ ارادہ! جس کا خان صاحب نے بھی بخوبی جواب دیا ہے کہ مزید 5 سال لگیں گے بس آپ نے گھبرانا نہیں ہیں۔

بقول احمد ندیم قاسمی
کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذن کلام
ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments