منٹو کا فحش افسانہ؟ دُھواں


”کلثوم کو اگر ذبح کردیا جائے تو کھال اُتر جانے پر کیا اس کے گوشت میں سے بھی دھواں نکلے گا؟ “
لیکن ایسی بیہودہ باتیں سوچنے پر اس نے اپنے آپ کو مجرم محسوس کیا اور دماغ کو اس طرح صاف کردیا جیسے وہ سلیٹ کو اسفنج سے صاف کیا کرتا تھا۔

”بس بس۔ “
کلثوم تھک گئی۔
”بس بس۔ “

مسعود کو ایک دم شرارت سوجھی۔ وہ پلنگ پر سے نیچے اترنے لگا تو اس نے کلثوم کی دونوں بغلوں میں گُدگُدی کرنا شروع کردی۔ ہنسی کے مارے وہ لوٹ پوٹ ہو گئی۔ اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مسعود کے ہاتھوں کو پرے جھٹک دے۔ لیکن جب اس نے ارادہ کرکے اس کے لات جمانی چاہی تو مسعود اچھل کر زد سے باہر ہو گیا اور سلیپر پہن کر کمرے سے نکل گیا۔ جب وہ صحن میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی ہے۔ بادل اور بھی جھک آئے تھے۔

پانی کے ننھے ننھے قطرے آواز پیدا کیے بغیر صحن کی اینٹوں میں آہستہ آہستہ جذب ہورہے تھے۔ مسعود کا جسم ایک دلنواز حرارت محسوس کررہا تھا۔ جب ہوا کا ٹھنڈا ٹھنڈا جھونکا اس کے گالوں کے ساتھ مس ہُوا اور دو تین ننھی ننھی بوندیں اس کی ناک پر پڑیں تو ایک جھرجھری سی اس کے بدن میں لہرا اٹھی۔ سامنے کوٹھے کی دیوار پر ایک کبوتر اور کبوتری پاس پاس پَر پھلائے بیٹھے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دونوں دم پخت کی ہُوئی ہنڈیا کی طرح گرم ہیں۔

گل داؤدی اور نازبو کے ہرے ہرے پتے اُوپر لال لال گملوں میں نہا رہے تھے۔ فضا میں نیندیں گھلی ہُوئی تھیں۔ ایسی نیندیں جن میں بیداری زیادہ ہوتی ہے اور انسان کے اردگرد نرم نرم خواب یوں لپٹ جاتے ہیں جیسے اونی کپڑے۔ مسعود ایسی باتیں سوچنے لگا۔ جن کا مطلب اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ وہ ان باتوں کو چُھو کردیکھ سکتا تھا مگر ان کا مطلب اس کی گرفت سے باہر تھا، پھر بھی ایک گمنام سا مزا اس سوچ بچار میں اُسے آرہا تھا۔

بارش میں کچھ دیر کھڑے رہنے کے باعث جب مسعود کے ہاتھ بالکل یخ ہو گئے اور دبانے سے ان پر سفید دھبے پڑنے لگے تو اس نے مٹھیاں کَس لیں اور اُن کو منہ کی بھاپ سے گرم کرنا شروع کیا۔ ہاتھوں کو اس عمل سے کچھ گرمی تو پہنچی مگر وہ نم آلود ہو گئے۔ چنانچہ آگ تاپنے کے لیے وہ باورچی خانہ میں چلا گیا۔ کھانا تیار تھا، ابھی اُس نے پہلا لقمہ ہی اٹھایا تھا کہ اس کا باپ قبرستان سے واپس آگیا۔ باپ بیٹے میں کوئی بات نہ ہوئی۔

مسعود کی ماں اُٹھ کر فوراً دوسرے کمرے میں چلی گئی اور وہاں دیر تک اپنے خاوند کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔ کھانے سے فارغ ہو کر مسعود بیٹھک میں چلا گیا اور کھڑکی کھول کر فرش پر لیٹ گیا۔ بارش کی وجہ سے سردی کی شدت بڑھ گئی تھی کیونکہ اب ہَوا بھی چل رہی تھی، مگر یہ سردی ناخوشگوار معلوم نہیں ہوتی تھی۔ تالاب کے پانی کی طرح یہ اوپر ٹھنڈی اور اندر گرم تھی۔ مسعود جب فرش پر لیٹا تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہُوئی کہ وہ اس سردی کے اندر دھنس جائے جہاں اس کے جسم کوراحت انگیز گرمی پہنچے۔

دیر تک وہ ایسی شِیر گرم باتوں کے متعلق سوچتا رہا جس کے باعث اس کے پٹھوں میں ہلکی ہلکی سی دُکھن پیدا ہو گئی۔ ایک دو بار اس نے انگڑائی لی تو اسے مزا آیا۔ اس کے جسم کے کسی حصّے میں، یہ اس کو معلوم نہیں تھا کہ کہاں، کوئی چیز اٹک سی گئی تھی، یہ چیز کیا تھی۔ اس کے متعلق بھی مسعود کو علم نہیں تھا۔ البتہ اس اٹکاؤ نے اس کے سارے جسم میں اضطراب، ایک دبے ہُوئے اضطراب کی کیفیت پیدا کردی تھی۔ اس کا سارا جسم کھنچ کر لمبا ہو جانے کا ارادہ بن گیا تھا۔

دیر تک گدگدے قالین پر کروٹیں بدلنے کے بعد وہ اُٹھا اور باورچی خانہ سے ہوتا ہوا صحن میں آنکلا۔ نہ کوئی باورچی خانہ میں تھا اور نہ صحن میں۔ اِدھر اُدھر جتنے کمرے تھے سب کے سب بند تھے۔ بارش اب رُک گئی تھی۔ مسعود نے ہاکی اور گیند نکالی اور صحن میں کھیلنا شروع کردیا۔ ایک بار جب اس نے زور سے ہٹ لگائی تو گیند صحن کے دائیں ہاتھ والے کمرے کے دروازے پرلگی۔ اندر سے مسعود کے باپ کی آواز آئی۔

”کون؟ “
”جی میں ہُوں مسعود! “

اندر سے آواز آئی۔
”کیا کررہے ہو؟ “

”جی کھیل رہا ہوں۔ “
”کھیلو۔ “

پھر تھوڑے سے توقف کے بعد اس کے باپ نے کہا۔
”تمہاری ماں میرا سردبا رہی ہے۔ زیادہ شور نہ مچانا۔ “

یہ سُن کر مسعود نے گیند وہیں پڑی رہنے دی اور ہاکی ہاتھ میں لیے سامنے والے کمرے کا رخ کیا۔ اس کا ایک دروازہ بند تھا اور دوسرا نیم وا۔ مسعود کو ایک شرارت سوجھی۔ دبے پاؤں وہ نیم وا دروازے کی طرف بڑھا اور دھماکے کے ساتھ دونوں پٹ کھول دیے۔ دو چیخیں بلند ہوئیں اور کلثوم اور اس کی سہیلی بملا نے جو کہ پاس پاس لیٹی تھی، خوفزدہ ہو کر جھٹ سے لحاف اوڑھ لیا۔ بملا کے بلاؤز کے بٹن کُھلے ہوئے تھے اور کلثوم اُس کے عریاں سینے کو گھور رہی تھی۔

مسعود کچھ سمجھ نہ سکا، اس کے دماغ میں دُھواں سا چھا گیا۔ وہاں سے الٹے قدم لوٹ کر وہ جب بیٹھک کی طرف روانہ ہوا تو اسے معاً اپنے اندر ایک اتھاہ طاقت کا احساس ہوا۔ جس نے کچھ دیر کے لیے اس کی سوچنے سمجھنے کی قوت بالکل کمزور کردی۔ بیٹھک میں کھڑکی کے پاس بیٹھ کر جب مسعود نے ہاکی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر گھٹنے پر رکھا تو یہ سوچا کہ ہلکا سا دباؤ ڈالنے پرہاکی میں خم پیدا ہوجائے گا، اور زیادہ زور لگانے پر ہینڈل چٹاخ سے ٹوٹ جائے گا۔ اس نے گھٹنے پر ہاکی کے ہینڈل میں خم تو پیدا کر لیا مگر زیادہ سے زیادہ زورلگانے پر بھی وہ ٹوٹ نہ سکا۔ دیر تک وہ ہاکی کے ساتھ کُشتی لڑتا رہا۔ جب وہ تھک کر ہار گیا تو جھنجھلا کر اس نے ہاکی پرے پھینک دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments