مغربی معاشرے کی مختلف سماجی و سیاسی تحریکیں (12)


محترمہ مقدس مجید صاحبہ!

آپ نے اپنے خط میں مردوں اور عورتوں کے رشتوں کے مسائل کا جو نفسیاتی اور سماجی تجزیہ پیش کیا ہے وہ دلچسپ بھی ہے اور فکر انگیز بھی۔

جس معاشرے میں لڑکوں اور لڑکیوں کو بچپن سے ہی بہت دور دور ایک دوسرے سے الگ رکھا جائے ان کے لیے نوجوانی میں ایک دوسرے سے بامعنی مکالمہ کرنا بہت دشوار ہو جاتا ہے اور جب وہ ایک دوسرے سے دوستی اور محبت کے جذبے کا اظہار کرنا چاہیں تو مکالمہ اور بھی گنجلک پیچیدہ اور گمبھیر ہو جاتا ہے اور بہت سی misunderstandings کو جنم دیتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ مشرق کے کئی معاشروں میں ہم آج بھی مرد اور عورت کے رشتے کو انسانی نفسیات کی عینک سے دیکھنے کی بجائے مذہب اور روایت کی عینک سے دیکھتے ہیں اور پھر گناہ و ثواب کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔

مغربی دنیا میں لڑکے اور لڑکیاں مخلوط تعلیم کی وجہ سے ایک ہی سکول اور کالج میں پڑھتے ہیں ان کے لیے ایک دوسرے سے ملنا اور دوسری صنف سے مکالمہ کرنا ان کی زندگی کی ایک حقیقت بن جاتا ہے، فینٹسی نہیں رہتا۔

سماجی حوالے سے مغرب میں جہاں پچھلی دو صدیوں میں عورتوں کی آزادی و خود مختاری کی فیمنسٹ تحریک نے بہت سا فاصلہ طے کیا ہے وہیں کئی اور تحریکوں نے اس تحریک کی مدد بھی کی ہے ایسی تحریکوں میں سوشلزم، انارکزم، سیکولر ازم اور ہیومنزم کی تحریکیں قابل ذکر ہیں۔

سیکولر ازم کی تحریک کی وجہ سے جب church and state علیحدہ ہوئے تو مذہب لوگوں کا ذاتی مسئلہ بن گیا اور قوانین انسانی حقوق کے حوالے سے بننے لگے ایسے قوانین جن میں تمام شہریوں کو ’خاص طور پر عورتوں اور اقلیتوں کو‘ برابر کے حقوق حاصل ہونے لگے۔

سوشلزم کی تحریک سے غریبوں اور مزدوروں کو زیادہ حقوق ملے۔ کینیڈا میں ایک ویلفیر سسٹم ہے۔ اس نظام میں شہریوں کا جہاں مفت طبی علاج ہوتا ہے وہیں بے روزگار لوگوں کو الاؤنس بھی ملتا ہے اور ماؤں کو بچوں کی نگہداشت کا مالی معاوضہ child allowance بھی ملتا ہے۔ اس طرح عورتوں کی صحت اور ملازمت کا خیال رکھا جاتا ہے۔

مغرب نے اپنے تلخ تجربات سے جانا کہ ملک کے تمام شہری ایک ہی کشتی میں سوار ہیں ہمیں اپنا خیال رکھنے کے لیے سب کا خیال رکھنا چاہیے۔

ایسی سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کے باوجود مغرب میں بھی مختلف ممالک کے نظاموں میں فرق ہے۔ میری نگاہ میں کینیڈا کا نظام امریکہ کے نظام سے کئی حوالوں سے بہتر ہے اسی لیے میں نے امریکہ کی بجائے کینیڈا میں رہنے کو ترجیع دی۔ کینیڈا میں سوشلزم کے نظام کے فوائد زیادہ ہیں جبکہ امریکہ میں کیپیٹلزم کے نظام کے نقصانات زیادہ ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ کینیڈا میں ہر شہری کو صحت کی انشورنس میسر ہے جبکہ امریکہ میں لاکھوں شہری ایسے ہیں جو صحت کی انشورنس سے محروم ہیں اس لیے اگر ایک غریب عورت حاملہ ہوتی ہے اور اسے زچہ و بچہ کے طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کے پاس علاج کے لیے ڈالر نہیں ہوتے اور وہ تسلی بخش علاج سے محروم رہ جاتی ہے۔

مقدس مجید صاحبہ!

جب میں پشاور کے زنانہ ہسپتال میں کام کرتا تھا تو میری بہت سی ایسی عورتوں سے ملاقات ہوئی جو خوراک کی کمی کی وجہ سے بیمار رہتیں اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے مناسب علاج بھی نہ کرواتیں۔ بعض تو نسوانی بیماریوں کا ڈاکٹر سے علاج کروانے کی بجائے پیروں فقیروں کے پاس گنڈا تعویز کروانے جاتیں۔

اسی طرح جن عورتوں کے ہاں بچے نہ ہوتے وہ بھی اپنا اور اپنے شوہر کا طبی تجزیہ کروانے کی بجائے کسی مزار کے کسی پیر بابا سے دعا کروانے جاتیں۔

میری نگاہ میں لڑکیوں اور عورتوں کی تعلیم ان کی معاشی آزادی و خودمختاری کے لیے ہی نہیں ان کی اپنی اور ان کے بچوں کی صحت کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔

جب مرد اور عورت کی دوستی نہ ہو اور دو اجنبیوں کی کسی اجنبی مولوی کے سامنے نکاح پڑھوا کر شادی کر دی جائے اور انہیں فیملی پلاننگ کی تعلیم بھی نہ دی جائے اور گھر میں ایک کے بعد دوسرا بچہ پیدا ہونا شروع ہو جائے تو آپ اندازہ کر سکتی ہیں کہ ان بچوں کی دیکھ بھال کیسے ماحول میں ہو گی۔

اب میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ آپ کا ماں باپ کی ذمہ داری اور بچوں کی نگہداشت کے بارے میں والدین کے رشتے اور رویے کے بارے میں کیا خیالات و نظریات ہیں؟

میں آپ سے اس خطوط کے تبادلے سے بہت محظوظ ہو رہا ہوں۔ مجھے ان خطوط کے تواتر سے بھی حیرانی ہو رہی ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ ہم نے دس دن میں بارہ خطوط کا تبادلہ کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم دونوں ایک literary trance میں یہ خطوط لکھتے جا رہے ہیں۔ ایسا خطوط کا تبادلہ ایک creative friendship میں ہی ممکن ہے۔

آپ کا ادبی دوست
خالد سہیل
31 مئی 2021

ڈاکٹر خالد سہیل
اس سیریز کے دیگر حصےزندگی کا ٹوٹا ہوا پل (خط # 11)خط نمبر 13۔ بچہ پیدا کرنا گناہ ہے!

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments