پاکستانی عورت اور مسجد


پاکستانی عورت اور مسجد کا تعلق کوئی خاص تعلق نہیں۔ مساجد اسلام کی ظاہری شناخت ہیں مگر یہ پاکستان کی عورتوں کی پہچان نہیں۔ پاکستانی عورت مسجد نبوی اور مسجد اقصی تو جا سکتی ہے مگر کیا ہے نا وہ اپنے محلے کی مسجد نہیں جا سکتی۔ میں ایسی پاکستانی خواتین کو جانتی ہوں جن کو عام مساجد میں جانے سے روکا گیا، مگر وہ یروشلم کی مسجد اقصیٰ ضرور گئیں۔

میں تصویر کشی کرتی ہوں۔ میں کبھی کبھار پیشہ ورانہ اور اکثر شوق کے تحت تصویریں بناتی ہوں۔ بحیثیت فوٹوگرافر میں نے بہت سی مساجد کی تصاویر لینا چاہی ہیں۔ زیادہ تر تاریخی مقامات کی مساجد تھیں جہاں سیاحوں کا آنا معمول کی بات ہے سو بہتی گنگا میں میں نے ہاتھ دھوئے۔ گزشتہ چھ برسوں میں لاہور شہر کا کوئی ایسا کونا ہو گا جس کی میں نے تصاویر نہ بنائی ہوں یا کم از کم کوشش نہ کی ہو۔ جہاں کوشش ناکام ہوتی ہے وہاں اکثر میرے عورت فوٹو گرافر ہونے کی وجہ اہم رہتی ہے اور کہیں سرکار کو لگتا ہے کہ ہم آزاد فوٹوگرافر نجانے کتنے لاکھوں کماتے ہوں گے سو اپنی آمدن سے چند ہزار سرکاری خزانے میں جمع کرائے جائیں اور اجازت نامہ لیا جائے۔ میرے نزدیک یہ فوٹوگرافروں کی پیشہ ورانہ آزادی سلبی ہے اور مکمل احمقانہ پن ہے۔ جہاں پر ہر گزرنے والا موبائل میں بہتر سے بہترین کیمرے لئے پھرتا ہو، وہاں اس قسم کی باتیں خاصی احمقانہ ہی معلوم ہوتی ہیں۔

میرے تجربے کے تحت جوں جوں وقت گزر رہا ہے یعنی لوگوں کے رویے تنگ نظری کی جانب دھکیلے جا رہے ہیں ویسے ویسے بحیثیت عورت تصویر کشی کرنا خاصا کٹھن ہوتا جا رہا ہے۔ بالخصوص تاریخی و مذہبی مقامات پر تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کوئی مجرم ہوں اور کمرائے عدالت میں سزا سننے کو جا رہی ہوں۔ ایک دفعہ نہیں کئی بار سوچنا پڑتا ہے کہ بستے سے کیمرا باہر نکالوں یا نہ نکالوں، اس مقدس جگہ قدم بھی رکھوں یا نہ رکھوں۔

اکثر مرد سیکیورٹی اہلکاروں نے بلا جھجک اپنی مردانگی مجھ پر جھاڑتے ہوئے بدتمیزیوں کی حدود پھلانگی ہیں۔ ایسے چیختے ہیں جیسے اپنے گھر میں بیٹھے ہوں۔ خدا معلوم گھر کی مظلوموں پر کیسے چیختے چاختے ہوں گے اگر باہر یہ حال ہے۔ بڑی باتیں مشہور ہیں کہ پاکستانی بہت مہمان نواز ہوتے ہیں۔ گوریاں اور گورے تو بڑے بول بالا کرتے ہیں۔ یہ مہمان نوازیاں بھی سفید چمڑی اور نیلی ہری آنکھوں والیوں اور والوں کے لئے ہیں۔

سب برے نہیں، مگر سب اچھے بھی نہیں۔ وہ لوگ جو گوریوں کو دیکھ کر باچھیں بکھیرتے ہیں، مقامی فوٹوگرافروں بالخصوص خواتین فوٹوگرافرز کو ویسی ہی نفرت کا نشانہ بناتے ہیں۔ دس میں سے ایک شخص کی یا اس کی دکان کی تصویر بنانے کا موقع ملتا ہے۔ ورنہ ہمیں بد تہذیبی سے لوٹا دیا جاتا ہے۔ جہاں تک مسجد کا تعلق ہے تو کسی بھی مسجد میں جانا ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ مساجد کے آداب بھی مردوں اور عورتوں کے لئے جدا ہیں۔ جیسے پاکستان کی عورت بے ادب ہو۔ مگر گوری کے لئے مسجد کے آداب بھی سامراج محبت کے آگے برف کی طرح پگھل جاتے ہیں۔ مجھے بچپن کا وہ منظر کبھی نہیں بھولتا جب بادشاہی مسجد میں چند سفید فام سیاح جوتوں پر مسجد انتظامیہ کے مہیا کردہ موزے پہن کر مسجد گھوم رہے تھے۔ بات یہ ہے کہ گوریوں کے جوتے بھی پاک ہوتے ہیں اور پاکستانی عورت کا وجود بھی مسجد میں عبادت کے لئے نجس ٹھہرتا ہے۔

ایک وقت تھا جب مسجد وزیر خان میں بڑے پرسکون انداز میں تصویر کشی کی جاتی تھی۔ اب وہی مسجد وزیر خان ہے جہاں نماز کے لئے جانا بھی محال لگتا ہے۔ مجھے وہاں نماز پڑھنے سے بھی اس لئے خوف آتا ہے کہ کہیں کوئی مجھے آ کر منع نہ کر دے کیونکہ ایسا ہو چکا ہے۔ عورت دشمن عورت کو مسجد میں نماز پڑھتا بھی نہیں دیکھ پاتے۔

تاریخی مساجد میں تصویر کشی پر تنقید کرنے والوں کو یہ بتاتی چلوں کہ مساجد میں جب جب بھی تصویر کشی کے لئے جایا جاتا ہے تو مساجد کا احترام مکمل بروئے کار لایا جاتا ہے۔ ہم یہیں کے باسی ہیں، اسی ملک کی گلیوں کے پلے بڑھے ہیں۔ تنقید کرنے والوں کو شاید معلوم نہ ہو گا مگر ہم ان مقامات پر ہمیشہ سے جاتے رہے ہیں۔ ہمیں بھی دین کی اتنی سمجھ بوجھ ہے جتنی ہمیں کافر اور لادین کہنے والوں کو۔ مساجد کی تصویر کشی دنیا بھر میں ہوتی ہے، یہاں بھی ہوتی ہے، کوئی بھی دھول بجاتے ہوئے مسجد میں جاتا ہے نہ ہی بنا مودب لباس کے۔ مگر ایسا کیا ہے کہ مسجد میں جانا جرم سا لگتا ہے؟

آپ ایک خاتون ہیں اور جونہی مسجد میں قدم رکھیں تو روح تک جیسے نشتر داغ دیے گئے ہوں۔ ایک دم سے جیسے پردیس میں آ گئے ہوں جہاں کوئی اپنا نہ ہو۔ جیسے عورت نہ ہوئی کوئی بلا ہو گئی۔ وضو کرتی نظریں، کندھوں سے جھانکتی سلام پھیرتی دیدیں ایسے تفتیش کرتی ہیں جیسے غلطی سے کوئی سرحد پار کر لی ہو، یا ہمارا خدا کے گھر سے کوئی تعلق نہ ہو۔

کچھ لوگ یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ مساجد کی فوٹوگرافی کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے، میں ان کو کہتی ہوں پھر مساجد میں اس قدر دیدہ زیب نقش و نگاری کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ خدا کے حضور سجدہ تو کچی مٹی پر بھی ہو سکتا ہے نا؟ ہماری مساجد میں تصویر کشی کرنے کے مخالفین ہماری ہی محنت اور مہارت سے کھینچی ہوئی تصاویر ہماری اجازت کے بنا لے لے کر اپنی ٹائم لائنز پر لگا رہے ہوتے ہیں۔

میرا کسی کام سے دہلی دروازہ جانا ہوا۔ وہاں کی سنہری مسجد میرے من کو بہت بھاتی تھی۔ میں جب جب وہاں گئی ہمیشہ لوٹا دی گئی۔ کبھی غلطی سے سنہری مسجد کے زینے پار کر بھی لئے تو خوف اور عجلت میں کبھی دل کش تصویر نہ لے سکی۔ البتہ مرد تصویر نگاروں کی بنائی ہوئی سنہری مسجد کی تصاویر دیکھ کر حسرت اور آہیں بھرتی رہی۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ مسجد میں عورت کے وجود کو پاکستانی تنگ نظر معاشرے میں سراہا نہیں جاتا۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ عورت کا وجود اس قدر لعن طعن جھیلتا ہے کہ مسجدوں تک کو اس پر بند کیا جاتا ہے۔ یہ مردوں کا خاص شیوا ہے۔ کبھی عورتوں پر مندر بند ہوتے ہیں تو کبھی مساجد، وجہ اس کا وہی وجود ہے جس سے وہ جنم لیتے ہیں۔ اس کو پدرشاہی کی احسان فراموشی کہیں تو کہیں مناسب ہو گا۔

جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں نے خستہ حال ٹوٹی دیواروں والی مساجد کی بھی تصاویر لی ہیں اور عالیشان مساجد کی بھی۔ جیسے سنہری مسجد کی سیڑھیاں پار کیں تو مسجد کے دروازے پر بیٹھی خواتین سے میں نے یہ پوچھ لیا کہ اندر جا سکتی ہوں میں؟ درمیانی عمر کی خاتون نے جھٹ سے منع کر دیا کہ نہیں، عورتیں نہیں جا سکتی کیونکہ یہ مسجد ہے۔ یہ الفاظ جوان بیٹیوں کی ایک ماں کے تھے۔ ان کو بھی علم تھا کہ عورت کو خدا کے گھر جانے نہیں دیا جاتا۔ وہ بیت الخلاء کے سامنے بیٹھ کر کھانا تو کھا سکتی ہے مگر مسجد کے اندر نہیں۔ عورت کا وجود مسجد کے بے حد ناپاک ہے؟ آخر ایسا کیا ہے عورت میں کہ وہ مقدس نہیں؟ تولیدی نظام ہے؟ اس میں نجس کیا ہے کہ وہ انسان جنتی ہے جو بعد میں اس کو محروم کر دیتے ہیں؟

مجھے غصہ تھا، کچھ ہم وطنوں کی ظالمان کی حکومت کی خوشی منانے پر، باقی کا وہی غصہ جو یہاں روز ہوتا ہے جس پر زمیں نہیں پھٹتی نہ کوئی آسمان ٹوٹتا ہے۔ اگر پاکستان کے تنگ نظر معاشرے نے عورت پر سجدے کے دروازے بند کرنے ہی تھے تو ساتھ میں نمازیں بھی خود پر ہی فرض کر وا لیتے۔ مردوں کی اکثریت تو مسجدوں کا رخ بھی نہیں کرتی اور جو عورتیں مساجد جانا چاہتی ہیں ان کے لئے مساجد بند ہیں۔ میں واپس تو ہو گئی مگر یہ احساس جیسے میری شکست ہوئی نے پلٹنے پر مجبور کیا اور میں نے واپسی کا راستہ لیا۔

مسجد اللہ کا گھر ہے، پاکستان کے تنگ نظر عورت دشمن مردوں کی وہ جاگیر نہیں جس میں وہ عورت کا آدھا حصہ بھی نوش کر سکتے ہیں۔ آخری بار ایک مسجد سے نکالے جانے کے باوجود میں سنہری مسجد میں داخل ہوئی۔ زندگی میں پہلی بار میں نے کسی کی پرواہ نہیں کی۔ مسجد کے احاطے میں منفی رویوں سے اچھلتی نفرت کی کودتی لہریں میرے اطراف منڈلانے لگیں۔ میں نے کچھ تصاویر لیں اور نفرت کا برملا اظہار کرتی آنکھوں کے روبرو ان سے اکتاہٹ کا احساس دلایا۔ یعنی خدا کے حضور جھک کر بھی نفرت کرنی ہے تو مسجد آنے کی زحمت کیوں کرتے ہیں؟

آپ یہ مت کہیے کہ علما نے اسی لئے منع کیا ہے کہ مسجد میں بھی مرد عورت کو دیکھتا ہے۔ آیا آپ کا تعلق جس بھی مسلک سے کیوں نہ ہو، آپ عورت دشمنی پر متفق ہیں؟ وہاں پر کچھ ایسا ہی ماحول تھا۔ چیدہ چیدہ چھ برسوں میں بہت سی کوششوں، نفرتوں، نجس نگاہوں کے تعاقب کرنے کے بعد میں نے پہلی بار سنہری مسجد کی تصویر لے ہی لی۔ یہ میرے لئے کوئی روحانی سکوں کا باعث نہیں، جہاں گھٹن کی ترویج کی جائے وہاں سکوں کم میسر آتا ہے۔ مجھے تصویر سے زیادہ ان کی نفرت کی شکست پر زیادہ خوشی محسوس ہوئی خواہ میں وہاں ایک منٹ سے بھی قلیل وقت تک رہی۔

یہ بات کبھی بھی بھلائی نہیں جا سکتی کہ پاکستانی عوام عورت سے اس قدر نفرت کرتے ہیں کہ ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں عورت کو گھٹن اور انسان سلبی محسوس نہ ہو، خواہ وہ اس کا نام نہاد گھر ہو یا خدا کا گھر۔ ہم آپ کو اچھے سے جانتی، پرکھتی، اور دیکھتی ہیں جو بھولے نہیں بھلا پاتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments