فنا، بقا اور حسینیت کا فلسفہ


بقائے ازلی انسان کا پرانا خواب ہے۔ اس جہان فانی میں لافانی ہونے کے لئے انسان نے ان گنت کشٹ اٹھائے ہیں۔ وقت کی گردش سے ماورا ہونے کے لئے یہ خاک کا پتلا کبھی اپنی ”ممی“ بناتا ہے تو کبھی سادھو کا بہروپ بنائے ہمالیہ کی چوٹیوں پر مدتوں سانس روکے بیٹھا رہتا ہے۔ اللہ پاک کا ابدی فرمان ہے کہ ”ہر نفس کو مرنا ہے“ ۔ حیات جاودانی کی صرف ایک ہی صورت ہے۔ قرآن کہتا ہے جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوجائیں وہ مردہ نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور اپنے رب کے ہاں سے رزق پاتے ہیں۔

اگرچہ ہم ان کی حیات کا شعور نہیں رکھتے، مگر ہم میں سے زیادہ لوگ باقی معاملات کا بھی کتنا شعور رکھتے ہیں؟ یہ قابل فکر اور قابل غور بات ہے۔ شہید کی موت اپنی قوم کی حیات ہوتی ہے مگر دنیا کی تاریخ میں ایک شہادت ایسی ہے جو کسی مخصوص قوم کی نہیں، پورے عالم انسانیت کی حیات ہے۔ جس سے حسن کو ثبات ہے۔ جو ماورائے شش جہات ہے۔

خیر و شر کی ازلی جنگ کو اگر مختصر ترین الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ”یزید تھا حسین ہے“ ۔ جدید اصول پرست دنیا کے ظہور سے کچھ عرصہ پہلے تک طاقت ہی یہاں کا سب سے بڑا اصول تھی اور ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ ، ”ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں“ جیسے محاورے زبان زد عام تھے کیونکہ یہی حقیقت تھی۔ انگریزی زبان کا درج ذیل محاورہ گزرے حالات کی بہترین تفسیر ہے۔ :

”Might is Right“

الحمدللہ، پاک پیغمبر کی تعلیمات کی وجہ سے دنیا اب اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ سب سے بڑی طاقت سچ کی طاقت ہے اور عظمت کا معیار انسانی کردار ہے۔ آج کی انسانی دنیا کا حسن چند اصول ہیں اور آج کے انسان کی ان اصولوں کے ساتھ وابستگی ہمارے ذہنی ارتقا کی بہترین مثال ہے۔ اصولوں کے ساتھ وابستگی کا مکمل درس ہمارے سردار حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کی زندگی کا نمونہ ہے۔ اردو ادب کی یہ خوبصورتی ہے کہ ہمارے ہاں حسن کا استعارہ حسین اور حسینیت ہے جبکہ یزید اور یزیدیت کفر، ظلم، لالچ اور قبیح پن کا استعارہ ہے۔

یزید لکھتا ہے تاریکیوں کو خط دن بھر
حسین شام سے پہلے دیا بناتا ہے
یزید آج بھی بنتے ہیں لوگ کوشش سے
حسین خود نہیں بنتا خدا بناتا ہے

موجودہ دور میں کسی انسان کی بہت زیادہ تعریف اگر کرنی ہو تو اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اصولوں کا آدمی ہے۔ اصولوں کی خاطر جان دینے کا بہترین سبق کربلا کی درس گاہ میں ملتا ہے۔ جہاں امام اور ان کے ساتھیوں نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر آن اور جان میں انتخاب کا معاملہ آن پڑے تو مسلمان ہمیشہ نہ صرف اپنی آن بلکہ انسانیت کی آن کی خاطر جس دھج سے مقتل میں جاتا ہے وہ شان ہمیشہ سلامت رہتی ہے کیونکہ یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں۔ حسینیت کائنات کی ان آفاقی سچائیوں کا دوسرا نام ہے جن کو ماہ سال کی گردش کچھ نہیں کہہ سکتی۔

حسین آج بھی قائم ہے اپنی صورت پر
یزید چہرے بدلتا ہے ہر زمانے میں

امامؑ کا ہر فعل اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان اگر کہیں کوئی برائی دیکھتا ہے تو پھر خاموش نہیں رہتا، اپنے لہو سے ایک نئی تاریخ لکھتا ہے۔ مومن کی زندگی کا مقصد صرف اللہ کے دین کی سرفرازی ہوتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے وہ اپنی عزیز ترین چیز قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔

حضرت امامؑ کی شہادت اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ قیادت اور سیادت اسی کو زیبا ہے جو اپنے اصول کی خاطر ہر آزمائش قبول کر لیتا ہے سردار وہی ہے جو جانتا ہے کہ ہماری بقا حق کے لئے ہماری کاوشوں سے جڑی ہے۔ جسم اللہ کی امانت ہے اور روح اللہ کا راز ہے۔ سردار کی زندگی اور موت کا اپنا ہی جدا انداز ہے۔

دنیا کی بدقسمتی یہ ہے کہ ایسے لوگ شاید ہمیشہ سے اکثریت میں ہیں جن کے دل بھلے امام کے ساتھ ہوں مگر ان کی تلواریں ہمیشہ یزید کی تائید میں اٹھتی ہیں۔ اگرچہ بہت سارے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو حر ہوتے ہوئے بھی لشکر یزید میں صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ ان کا حسین ابھی وقت کے کربلا نہیں پہنچا ہوتا۔ اردو دان حضرات جانتے ہیں کہ یزید ”ہل من مزید“ کے لئے ایک استعارہ ہے۔ دنیا کی کبھی نہ ختم ہونے والی ہوس یزیدیت ہے۔ میں جب بھی ”سورہ التکاثر“ پڑھتا ہوں، مجھے یزید اور اس کے حواری یاد آ جاتے ہیں۔ حسینؑ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں جن لوگوں کو حضرت حسینؑ کا قرب نصیب ہوا ہو گا وہ ہرحال میں جنت کے مزے لے رہے ہوں گے۔ آج بھی جنت میں جانے کا راستہ حسینیت کا راستہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments