دیت: انصاف کا نظام یا نا انصافی کا آلہ؟


پاکستان میں طاقتور مجرموں کے لیے قانون کی گرفت سے بچنے کے کئی ایک طریقے ہیں، جن میں سے دیت کی ادائیگی ایک ایسا طریقہ ہے جسے اکثر استعمال کیا جاتا ہے۔ جب بھی کوئی ہائی پروفائل قتل ہوتا ہے تو صحافیوں اور ایکٹیوسٹس کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ باقی کیسز کی طرح اس کیس کو بھی دیت کی آڑ میں دبا نہ دیا جائے اور باقی مجرموں کی طرح اس مجرم کو بھی راہ فرار نہ فراہم کر دی جائے۔ مگر دیت کا قانون آخر ہے کیا، اور پاکستان میں اس کا اطلاق کس طرح کیا جاتا ہے؟

جسمانی نقصان یا قتل کی پاکستان کے قانون میں دو قسم کی سزائیں ہیں۔ سزا کی ایک قسم دیت ہے، جس میں مجرم اپنے جرم کے بدلے اس جرم سے متاثرہ شخص یا خاندان کو مالی معاوضہ ادا کر سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ متاثرہ شخص یا خاندان مالی معاوضے پر راضی نہیں تو اس صورت میں مجرم پر تعزیرات پاکستان کے تحت دوسری سزا یعنی قصاص کا نفاذ کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں سزائیں اسلامی شریعت سے تخفیف کردہ ہیں اور پاکستان چونکہ ایک اسلامی جمہوریہ ہے، اس لیے ہمارے ملک میں بھی جسمانی نقصان یا قتل کے جرائم کی سزا کی صورت میں دیت یا قصاص کا نفاذ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں فوجداری قوانین کی اسلامائیزیشن کا عمل 1979 میں جنرل ضیاء الحق کے برسر اقتدار میں آنے کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ مگر قصاص اور دیت سے متعلق قانون سازی 1990 تک عمل میں نہیں لائی گئی، اور تب تک جسمانی نقصان اور قتل سے متعقل انگریز دور کے فوجداری قوانین ملک میں نافذ رہے۔

آخرکار 1990 میں صدر غلام اسحاق خان نے قصاص و دیت آرڈیننس کے ذریعے ملک میں قصاص اور دیت کے قوانین متعارف کروائے۔ یہ قانون ابھی تک آرڈیننس کی شکل میں تھا اور ایک پارلیمانی جمہوریت میں جب تک پارلیمان سے منظور نہ ہوتا، تب تک مستقل طور پر فوجداری قوانین کا حصہ نہیں بن سکتا تھا۔ اس لیے اس قانون کو مستقل تحفظ دینے کے لئے 1997 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی زیر نگرانی پارلیمان سے اس قانون کو منظور کروا کے ان کو بطور ایک پارلیمانی ایکٹ فوجداری قانون کا حصہ بنا دیا گیا۔

قصاص اور دیت کے قانون کے مطابق مجرم کی سزا کے تعین کا حق، ایک معقول حد کے اندر، جرم سے متاثرہ شخص کے پاس ہوتا ہے۔ قتل کی صورت میں یہ حق متاثرہ شخص کے لواحقین کے پاس چلا جاتا ہے۔ اگر وہ شخص یا اس کے لواحقین چاہیں تو مجرم سے قصاص کے مطابق برابر کا بدلہ لے سکتے ہیں، جو کہ قتل کی صورت میں سزائے موت ہے۔ لیکن اگر وہ شخص یا اس کے لواحقین چاہیں تو دیت کے بدلے اس جرم کو معاف بھی کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کے دیت کے بغیر بھی معاف کر سکتے ہیں۔

یہاں اس بات کا ذکر کرنا اہم ہے کے پاکستان کے قوانین کے مطابق عدالت متاثرہ شخص یا لواحقین کی معافی کے باوجود مجرم کو فساد فی الارض کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے اس کو لواحقین کی معافی کے باوجود قید کی سزا دے سکتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں عدلیہ اپنے اس حق کا استعمال کم ہی کرتی ہے اور عام طور پر متاثرہ شخص یا لواحقین کی معافی کی صورت میں مجرم کو بغیر کسی سزا کے باعزت بڑی کر دیا جاتا ہے۔

ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ دیگر قوانین کے طرح قصاص اور دیت کے قوانین کو بھی اس ملک کا طاقتور اور دولت مند طبقہ اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔ قتل کے کیسز میں اگر مجرم دولت مند اور با اثر خاندان سے ہو اور مقتول کا تعلق کسی غریب اور کمزور خاندان سے ہو تو مقتول کے لواحقین پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ دیت کے بدلے قاتل کو معاف کر دیں۔ اس کی ایک مثال 2012 میں ہونے والے شاہ زیب قتل کیس کی ہے، جس میں قاتل شاہ رخ جتوئی کو عدالت کی جانب سے سزائے موت کی سزا دی گئی تھی۔

تاہم مقتول کے والدین نے قاتل کو معاف کر دیا جس کے بعد قاتل کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ اخباری ذرائع کے مطابق مقتول کے والدین نے یہ فیصلہ قاتل کے خاندان کے دباؤ میں آ کر کیا تھا۔ سول سوسائٹی کی جانب سے متعدد درخواستوں کے بعد آخرکار سپریم کورٹ نے اس کیس کا از خود نوٹس لیا اور قاتل کو فساد فی الارض کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی۔

اسی طرح 2011 میں امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کا کیس تھا، جس نے دو پاکستانی شہریوں کا قتل کیا تھا۔ ریمنڈ کو گرفتار کر لیا گیا اور پاکستانی عدالت میں پیش کیا گیا۔ امریکی دباؤ کے باعث بالآخر پاکستانی حکومت نے قاتل کو رہا کر دیا اور اس قتل کے بدلے مقتولین کے لواحقین کے لیے دیت قبول کر لی۔ اسی طرح 2018 میں قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ محسود کو کراچی میں قتل کر دیا گیا اور قتل کرنے والے خود محکمہ پولیس کے ملازم تھے۔

اس قتل کے بعد بھی نقیب کے لواحقین پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ دیت کے بدلے نقیب کے قاتلوں کو معاف کر دیں۔ تاہم نقیب کے والدین نے دباؤ میں آنے سے انکار کر دیا اور اعلان کیا کہ وہ ہر صورت میں نقیب کے لیے انصاف حاصل کریں گے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فقط اس قانون کی موجودگی بھی پاکستان جیسے غیر متوازن معاشرے میں انصاف کے راستے میں اکثر رکاوٹ بن کر حائل ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں صرف طاقتور طبقہ ہی دیت کے قوانین کا غلط استعمال نہیں کرتا، بلکہ ہمارے پدرشاہی معاشرے میں مرد ان قوانین کو خواتین کے خلاف جرائم میں بھی راہ فرار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ان جرائم میں سے ایک قسم غیرت کے نام پر قتل کی ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کے کیسز میں عام طور پر پورے کے پورے خاندان ملوث ہوتے ہیں اور قاتل بھی اسی خاندان سے ہوتے ہیں۔ اس لیے مقتول کا خاندان خود قتل کرنے کے بعد بطور لواحقین اس قتل کو معاف بھی کر دیتا ہے۔ انصاف سے فرار کی اس صورت حال کا سد باب آخرکار 2016 میں کیا گیا تھا، جب عزت کے نام پر ہونے والے قتل کے کیسز میں قاتلوں کے لیے عمر قید لازم قرار دے دی گئی، چاہے لواحقین کی طرف سے قاتل کو معاف ہی کیوں نہ کر دیا گیا ہو۔

ان اصلاحات کے باوجود دیت کا موجودہ قانون وہ آلہ ہے جس کے ذریعے معاشرے کا طاقتور کمزور کے خلاف، اور مرد عورت کے خلاف جرائم کے بعد انصاف سے فرار اختیار کر سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان قوانین میں مزید اصلاحات کی جائیں تاکہ ملک کے ہر شہری پر قانون کا برابر اطلاق ہو۔ ضروری ہے کہ قتل کے ہر کیس میں ریاست کو مدعی بنایا جائے اور جس بھی کیس میں لواحقین قاتل کو معاف کریں یا اس سے دیت وصول کریں اس کیس میں عدالت قاتل کو کم از کم فساد فی الارض کا مرتکب ٹھہرا کر سزا دے۔

جس قانون سے طاقتور اپنی طاقت کے زور پر سزا سے بچ جائے وہ قانون کبھی بھی انصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اتر سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس ملک میں انصاف کا ایک ایسا نظام تشکیل دیا جائے جس میں دولت اور جنس کی تفریق کے بغیر متاثرہ افراد کو انصاف دلایا جا سکے اور مجرموں کو سزا مل سکے۔

عابدہ خالق

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عابدہ خالق

عابدہ خالق پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل اور قانون دان ہیں۔ آپ خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے حقوق اور قانونی تحفظ کے لئے ایک توانا آواز ہیں۔ مختلف لاء کالجز میں تدریس سے بھی وابستہ ہیں۔ ایک ترقی پسند اور منصفانہ معاشرہ کا خواب رکھتی ہیں۔

abida-khaliq has 7 posts and counting.See all posts by abida-khaliq

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments