یہ واویلہ، سر پھروں کا شور ہے، مینار پاکستان پر کچھ نہیں ہوا!



پھر ہمارے ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا، میں ایک شور اٹھا ہے۔
پھر کسی انہونی ( یا ہونی ) پر، کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔
پھر کسے قصے کے پیچھے، خیال آرائی زوروں پر ہے۔
پھر، ہر کوئی، ہر جگہ، اپنی رائے کے اظہار کو بے تاب ہے۔
پھر کسی بات پر، باتیں بنانے والے، باتیں بنانے پہ مصر ہیں۔

حیرت ہے کہ آخر یہ سب کس لئے اور کس موضوع پر اس قدر الجھے ہوئے ہیں؟ ایسا کیا ہوا ہے کہ جس پر اتنا بحث و مباحثہ جاری ہے۔

یقین مانیں، کچھ بھی نہیں ہوا!
جی ہاں، ہماری قوم کی جہاں تاریخ رقم ہوئی، اس محترم جگہ، (مینار پاکستان ) کچھ نہیں ہوا۔
جغرافیہ کی تبدیلی کے سبب ملنے والی آزادی کی ترنگ میں، آزادی کی عظمت کے دعویداروں نے کچھ نہیں کیا۔

اگر ( اکیسویں صدی میں ) ، اس تاریخی مقام اور اس قومی تہوار پر کچھ ہوا ہوتا اور وہ بھی ویسا، جیسا کہ تصویروں سے عیاں ہے تو ہمارے فیصلہ سازوں کی بصارت نہ ختم ہو گئی ہوتی۔

اگر قوم کی ایک بیٹی اس طرح سر بازار رسوا ہوتی، جیسا کہ بتانے والوں کا بتانا ہے، تو ایسا المیہ سننے والوں کی سماعت نہ ختم ہو گئی ہوتی۔

اگر بنت حوا کے ساتھ وہ کچھ ہوا ہوتا، جو آدم زادے، اپنے اظہار خیال میں نمایاں کر رہے ہیں، تو بولنے والوں کی قوت گو یائی نہ چھن جاتی۔

سو، یقین جانیئے، کچھ نہیں ہوا ہے۔

بھلا ہمارے معاشرے میں، آزادی اور اظہار آزادی کی سرشاری کے دوران کسی غلط کاری اور اخلاقی گراوٹ کا مظاہرہ ہو سکتا ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ ایک عظیم مینار کی بلندیوں کے نیچے، پستی کا ایسا قبیح مظاہرہ ہو کہ پستی بھی اپنا مفہوم بدلنے ہو آمادہ ہو جائے۔

یقین مانیے، کچھ نہیں ہوا۔

اگر واقعی کچھ ہوا ہوتا جیسا کہ بتایا گیا ہے، تو کیا ہم اسے صرف افسوسناک کہہ کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتے!

اگر اس بھیانک اور روح فرسا واقعے کا وجود ہوتا تو کیا صرف مذمت کر کے متعلقین کی گلو خلاصی ممکن ہوتی۔

اگر یہ سب اتنا ہی الم ناک اور پوری قوم کے لئے شرم ناک ہوتا، تو اس کے اسباب کے لئے، اس کے سدباب کے لئے اور اس کے احتساب کے لئے وہ کچھ ہوتا نظر آتا کہ اس بد صورت جرم کو کہیں شکل دکھانے کی جگہ نہ ملتی اور اس کی جائے پناہ، نفرت اور صرف نفرت ہوتی۔

مگر یقین رکھیں، ایسا کچھ نہیں ہوا۔
اگر کچھ ہوا ہے تو وہ
تماشا دیکھنے والوں کے لئے، گزشتہ سے پیوستہ کڑیوں میں محض ایک اور کڑی کا اضافہ ہوا ہے۔
ایک اور دل سوز کڑی، ایک اور انسانیت سے گری، حیوانیت میں ڈوبی ہوئی کڑی!

معاشرے کی مسلسل بے حسی اور مظلوموں ( اور کم زوروں ) کی مستقل بے بسی، اس تماشے کے نہ ختم ہونے کی وجہ ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ تماشا بھی، ( خدانخواستہ ) اگلے تماشے کے آنے تک، نظروں سے اوجھل ہو جائے گا!

ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ اخلاقی خود کشی کا یہ تماشا اور اس خصلت کے یہ ہول ناک مناظر آخر ہم کب تک دیکھتے رہیں گے!

کب تک یہ معاشرہ تاویلوں، دلیلوں، اور بہانوں کے پیچھے چھپ کر حقیقت اور حقیقت کے کریہہ چہرے سے نظریں چرائے گا۔

کب تک ہم اخلاقیات کی لکیر سے نیچے رہتے ہوئے، شائستگی اور بردباری کی بلند سطح تک آنے کی (سنجیدہ ) کوشش نہیں کریں گے۔

کب تک زندگی گزارنے کی، خوش رہنے کی اور خوشی بانٹنے کی وہ آزادی جو ہم اپنے لئے پسند کرتے ہیں، اسے دوسروں کے لئے بھی آسان بنا دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments