اخلاقی بحران: سیاسی قیادت کی بھی کوئی ذمہ داری ہے یا نہیں؟


عورتوں کے ساتھ جو رہا ہے ہماری نسل کے نوجوانوں کی یادداشت کے مطابق یہ سب کچھ شروع ہوتا ہے قومی اسمبلی سے جب ایک پارلیمنٹیرین نے خاتون کو ٹریکٹر ٹرالی کہا اور مردوں نے موصوف کو خوب سراہا۔ اس کے بعد میڈیا میں ماروی سرمد صاحبہ کے لئے جو الفاظ استعمال ہوئے اس پر بھی موصوف کو خوب سراہا گیا، موٹر وے پر عورت کی عزت لوٹ لی گئی سی سی پی او نے جو بیان دیا وہ مردوں کو خوب پسند آیا، وزیر اعظم صاحب سے جب سوال کیا گیا کہ عورتیں غیر محفوظ ہیں تو محترم جواب دیتے ہیں کہ مرد روبوٹ نہیں ہیں سارا قصور عورتوں کے کپڑوں کا ہے، عورت مارچ کے خلاف مردوں کے دلائل، وفاقی وزیر صاحب اپنے جلسوں میں عورت کو تھپڑ مارنے کی باتیں کرتے ہیں اور عوام خوب محظوظ ہوتے ہے۔ اس سب میں آپ نوجوانوں سے جو آپ کو سن کر اور دیکھ کر بڑے ہو رہے ہیں اور کیا امید کر سکتے ہیں۔

حالیہ واقعات میں زیادتی کرنے میں پیش پیش نوجوان ہی تھے۔ چاہے وہ مینار پاکستان گراؤنڈ کا واقعہ ہو، شاہی قلعہ کا واقعہ ہو، اسلام آباد کے واقعات ہوں، رحیم یار خان میں مندر کو جلانے کا واقعہ ہو، موٹروے کیس کے عابد ملہی صاحب ہوں، زینب کیس کے عمران صاحب ہوں یا مشعال خان کو قتل کرنے والے گروپس ہوں ان سب واقعات میں جن کرداروں نے اپنے جوش کا استعمال کیا یہ سب کردار وہی تھے جنہیں آپ اس ملک کا مستقبل کہتے ہیں۔

گزشتہ دو دہائیوں سے گورنمنٹ پالیسیوں کے عدم تسلسل اور پے در پے تجربات، یوتھ پالیسیوں کے فقدان، تعلیمی نصاب اور پالیسی کے فقدان، بے روز گاری، تفریح کے فقدان، سٹوڈنٹ یونین پر پابندی، سینما کی بندش، محدود ذرائع معاش، فنون لطیفہ، میوزک، گائیکی سینما کو برا کہنا اور سمجھا جانا۔ اور گھٹن کے اس ماحول میں بڑوں کی حرکتیں ہم نوجوانوں کو اور کیا ترغیبات دیں گے۔

ہمارے ملک میں بڑے دعویٰ سے کہا جاتا کہ اتنے فیصد نوجوان ہیں اور اگر سوال کیا جائے کہ ان کے لئے کیا کیا جا رہا ہے صفر فیصد جواب۔ جب ووٹ لینے ہوتے ہیں تو نوجوانوں کے ملک کی قسمت کا ستارہ، ریڑھ کی ہڈی، مستقبل اور پتہ نہیں کیا کیا القابات دیے جاتے ہیں اور قوت میں آنے کے بعد نوجوانوں کے مسائل کے حل کے لئے اپنے حلقے سے ہارے ہوئے 40۔ 45 سالہ شخص کے ہاتھ میں نوجوانوں کی کمان پکڑا دی جاتی ہے۔

اوہ بھائی نوجوانوں پر تقریریں یا لیکچر کم اثرانداز اور بڑوں کے اعمال زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں اس لئے ہمیں سکھانا چاہتے ہو تو اپنے آپ کو درست کرو۔ ہمارا قصور کیا ہے ہمیں جو ماحول ملا ہم پر جو تجربات کیے گئے ہم ان کے پھل ہی دیں گے۔ اپنے اپنے نظریوں اور انا کی تسکینوں کے لئے ہمارے فیصلے اپنی مرضی سے کیے گئے کبھی کسی نے جاننے کی کوشش نہیں کی آپ کی مرضی کیا ہے۔ ہم سے امید کرتے ہیں کہ ہم عاجز، فرمانبردار، نیک سیرت، آنے، بیرے، بولے بن جائیں۔

یہ جو کچھ مینار پاکستان گراؤنڈ میں ہوا یہ خالصتاً جنسی بھوک کی تسکین، جبری گھٹن زدہ ماحول کی نفی، تفریح کے محدود ذرائع اور مردوں کی فوقیت کے نظریے کی بنیاد پر ہوا۔ اور حل اس سب کا کیا ہے بات سادہ ہے افر ہمارے بڑے چاہتے ہیں کہ نوجوان اچھے ہوں تو پہلے انہیں اپنے قول و فعل میں تضاد ختم کرنا پڑے گا، دوسرا قانون سب کے لئے یکساں، تیسرا ہمیں تقریروں اور درسوں کی بجائے مصروف کریں روزگار دیں، تفریح دیں، نمائندگی دیں اپنی بات کرنے اور اپنے مسائل بیان کرنے کی جگہ دیں۔

چوتھا مزید تجربات کرنا بند کریں خود پتہ نہیں مذہبی تعلیم انہوں نے کس حد تک لی ہے اور ہمارے مستقبل کا فیصلہ ایسے کرتے ہیں کہ آپ کو پرائمری میں دین کا یہ حصہ پڑھنا پڑے گا، مڈل میں یہ، میٹرک میں یہ، کالج میں یہ اور یونیورسٹی میں یہ۔ یہ بات نہیں کرتے کہ یونیورسٹی کی ڈگری بہت مہنگی ہے یا غریب کا بچہ کالج یا یونیورسٹی تک کیسے کیسے پہنچے گا۔ اوہ بھائی کم از کم یہ انتظام ہی کر دیں کہ ہر بچہ کالج یونیورسٹی تک جاسکے۔

آپ نے تو بدلنا نہیں ہے اور اگر آپ کو ہماری تھوڑی سی بھی فکر ہے تو برائے مہربانی ہمارے نام پر لگائی گئیں تمام پابندیاں ختم کریں ہمیں آ زاد کریں اور تمام لوگوں کی حدود متعین کر دیں کہ کوئی کسی کا محاسبہ نہ کرے۔ اگر کچھ چیز ہمیں بچا سکتی ہے تووہ ہے یکساں قانونی حدود اور سزا جزا کا موثر نظام۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments