طالبان کا عام افغان عوام کے ساتھ رویہ کیسا ہوگا؟


چونکہ اب طالبان افغانستان پر مکمل کنٹرول کر چکے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ طالبان کی حکومت کیسی ہوگی؟ طالبان کا عام افغان عوام کے ساتھ رویہ کیسا ہوگا؟ ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے سے پہلے اس بات کو بھی جاننا ضروری ہے کہ جتنا حق افغان طالبان کو ہے کہ وہ افغانستان میں کس طرح حکومت کرنا چاہتے ہیں اتنا حق افغان عوام کو بھی ہے کہ وہ ایسے حکومت کو تسلیم کریں کہ جو ان کے حقوق اور تحفظ کی ضمانت دے، اگر افغان عوام کو ان کے حقوق اور تحفظ کی ضمانت نہیں دی گئی اور حکومت کو عوام کے رائے کے تابع نہ کیا ان پر اپنی رائے بالجبر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو یہی افغان عوام اختلاف پر بھی اتر سکتی ہے تو طالبان کو فیصلہ ابھی سے ہی کرنا ہوگا کہ وہ بندوق کے زور کو ترجیح دیتے ہیں یا افغان عوام کی رائے کو۔

کیونکہ افغانستان میں بندوق کے زور پر کبھی بھی کوئی حکومت قائم کر کے مستحکم نہیں رہی ہے تاریخ میں اس کئی مثالیں موجود ہیں کہ جب بھی کسی نے افغانستان میں بندوق کے زور پر حکومت قائم کی ہے تو وہ حکومت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر مٹی کے تلے دب گئی ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف افغانستان کا امن خراب ہوا ہے بلکہ افغانستان کے لوگوں کے درمیان اختلافات بڑھ گئے ہیں۔

اب اگر بات کی جائے کہ طالبان کی طرز حکومت کیسی ہوگی تو اس کے لیے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا کیونکہ طالبان پہلی بار اقتدار میں نہیں آئے ہیں، بلکہ طالبان ایک بار پہلے بھی حکمران رہ چکے ہیں اور دنیا طالبان کی حکمرانی کے طور طریقے ماضی میں دیکھ چکی ہے، تو اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ بیسویں صدی کے طالبان کے طرز حکومت اور اکیسویں صدی کے طالبان کے طرز حکومت میں کیا فرق ہوگا؟

جب طالبان 1996 ء میں اقتدار میں آئے تو اس وقت طالبان کا افغانستان کے 95 فیصد رقبے پر حکومت قائم تھی اور عوام کے ساتھ سادگی خلوص، عوام دوست، ایثار و کفالت، اور منصفانہ حکومت بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا اور افغان عوام کو یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ایک انسان دوست اسلامی حکومت بنائی جائی گی لیکن تاریخ کے کتابوں میں وہ واقعات آج بھی درج ہیں کہ کس طرح کچھ عرصے بعد حالات تبدیل ہو گئے جیسے کہیں کسی کا سر کاٹتے دیکھا گیا، کہیں کسی عورت پر مظالم ڈھائے گئے، کہیں عوام کے سامنے انسانوں کو سنسار کرتے ہوئے دیکھا گیا، تو کہیں پر کسی کو ہجوم کے سامنے لٹکاتے ہوئے دیکھا گیا حتی کہ ریاست شہریوں کی لباس سے لے کر حلیے تک حق سے چھین لیا گیا جس میں داڑھی کے حوالے سے سخت قوانین بنائے گئے اور ملک کے تمام مردوں کو داڑھی رکھنا ضروری قرار دیا گیا اور قانون کے خلاف ورزی کی صورت میں شہریوں کو سخت ترین سزائیں دی گئی۔

اس کے ساتھ ساتھ اگر بات کی جائے کہ خواتین کے ساتھ کس طرح رویہ رکھا گیا تو یہ بات کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس دور میں خواتین کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس میں خواتین کے لیے سکول، کالج اور یونیورسٹی بند کردی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان میں خواتین کی تعلیم کی شرح خواندگی نہ ہونے کی برابر رہ گئی، جس کے حوالے سے متعدد رپورٹ سامنے آئی جس میں یہ صاف صاف لکھا گیا تھا کہ طالبان کے دور حکومت میں تقریباً دو تہائی افغان لڑکیاں سکول سے باہر ہو گئی تھی اس طرح لاکھوں لڑکیاں بنیادی تعلیم سے محروم ہو گئی، اس کے علاوہ طالبان نے موسیقی کے حوالے سے سخت قوانین بنائے جس سے موسیقی، فن و لطیفہ پر سخت پابندی لگ گئی اور اس طرح سیکڑوں کی تعداد میں ریڈیو، ٹیلی ویژن کو بند کیا گیا، ساتھ ساتھ کھیل کود پر پابندی لگادی دی گئی۔

اس کے برعکس جہاں اس قسم کے واقعات بیسویں صدی کے طالبان کے دور میں ملے وہاں پر یووون رڈلے نامی برطانوی صحافی خاتون طالبان کی دفاع کرتی ہوئے بھی نظر آئی حتیٰ کہ وہ ایک عرصے تک افغان طالبان کے قید میں بھی رہی تھی لیکن وہ طالبان کے برتاو سے اتنی متاثر ہوئی تھی کہ بعد میں وہ مسلمان ہو گئی اس کے علاوہ جہاں طالبان نے خواتین کے حوالے سے سخت قوانین نافذ کیے تھے وہاں اس وقت افغانستان وہ واحد ملک تھا جہاں پر خواتین کے عصمت داری کے واقعات نہ ہونے کے برابر تھے جس کی تاریخ میں اس وقت نہ کوئی مثال تھی اور نہ کبھی بنی اور اس طرح دوسرے جرائم جیسے چوری اور کرپشن کے جرائم میں اچھی خاصی کمی دیکھنے کو ملی جو صرف اور صرف اس وقت کے طالبان کے دور حکومت میں ممکن ہوا تھا۔ اس طرح جہاں دنیا بھر سے طالبان پر غیر انسانی سلوک کے رپورٹیں سامنے آئی تھی وہاں دوسری طرف اچھی رپورٹ بھی دیکھنے کو ملی تھی۔ تو یہ بیسویں صدی کے طالبان کی وہ صورتحال تھی جس کو تاریخ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

اب اگر بات کریں کہ اکیسیویں صدی کے طالبان کی طرز حکومت کیسی ہوگی؟ عوام کے ساتھ رویہ کیسا ہوگا؟ اس حوالے سے لوگ مختلف مفروضے پیش کر رہے ہیں کوئی کہتا ہے کہ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان ایک بار پھر تاریکی میں چلا جائے گا کیونکہ طالبان بنیادی حقوق کے جدید تصور کو قبول ہی نہیں کریں گے کوئی کہتا ہے کہ طالبان کی فہم دین، تصور، تہذیب اور اسلوب حکمرانی بنیادی حقوق کے جدید تصور سے مماثلت نہیں رکھتی اور کوئی کہتا ہے کہ طالبان کی طرز حکومت اس نظریے پر ہے جہاں پہ انسان کے لباس سے لے کر حلیے تک فیصلہ ریاست کو کرتی ہے جو کہ افغان عوام کبھی قبول نہیں کریں گے، اس کے علاوہ دوسرے طرف کچھ لوگ اس کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس بار طالبان کافی حد تک سیاسی بن چکے ہیں اور کافی شعور بھی آ چکا ہے جو کہ ایک حد تک سچ بھی معلوم ہو رہا ہے، جیسے بہت سے معاملات پر طالبان کا موقف تبدیل ہو چکا ہے چاہے وہ عوامی رائے کی اہمیت کے حوالے سے ہو۔

متعدد انٹرویو میں دیکھا جا سکتا ہے جس میں افغان طالبان یہ اقرار کر رہے کہ اس بار عوامی رائے کی قدر کی جائے گی اس کے علاوہ وہ خواتین کی تعلیم کے حوالے سے بھی اپنا موقف تبدیل کر چکے ہے کہ خواتین کو تعلیم اور دوسرے شعبوں میں کام کرنے کی مکمل اجازت ہوگی۔ کسی پر کوئی پابندی نہیں ہوگی جو کہ افغان عوام کے لیے ایک اچھی نوید ہے۔

یاد رہے کہ یہ ساری باتیں ابھی ثابت ہونی ہے لیکن حالات کو بدلنے میں دیر نہیں لگتی جیسے کابل کو فتح کرنے میں دیر نہیں لگی خدشات ابھی بھی ہیں کیونکہ اگر یہ بات صحیح ثابت ہو گئی کہ پرانے اور نہیں طالبان میں کوئی فرق نہیں ہے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ افغانستان ایک بار پھر تاریکی میں چلا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments