ریپ یا جنسی زیادتی کیس میں والدین تھانے جانے سے کیوں گھبراتے ہیں؟


ساحل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر روز کم از کم آٹھ بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ اب اگر والدین یا کسی خاتون کا رشتہ دار تھانے رپورٹ کروانے جائے تو اس بچی بچے یا خاتون کا اصل ریپ سے بھی بھیانک ریپ، طنزیہ جملوں اور الزامات سے شروع ہوجاتا ہے

پہلے تو تھانے والے رپورٹ لکھنے میں پس و پیش سے کام لیں گے اور ایسی طنزیہ گفتگو کریں گے کہ جنسی زیادتی کے شکار فرد کے اہل خانہ شرم سے پانی پانی ہوجائیں گے۔ کیونکہ تھانے والے ریپ ہونے والی لڑکی کو ہی قصور وار ٹھہرا کر کہیں گے کہ ان کا آپس میں تعلق لگتا ہے کیونکہ بچی کو تھانے کچہریوں میں رو لیں گے آپس میں ہی طے کر لیں۔ اگر والدین نہ مانیں تو ابتدائی تفتیش میں ہی، ریپسٹ اکثر پیسے دے کر یہ ثابت کروا دیتے ہیں کہ لڑکی پہلے سے خراب تھی۔

رپورٹ بھی اتنی آسانی سے نہیں لکھی جاتی کیونکہ تھانے والے پہلے میڈیکل کروانے کا کہتے ہیں۔ اور یہ میڈیکل اس شرمناک طریقے سے کیا جاتا ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ اس میں ایک انڈا داخل کرنے کا طریقہ بھی ہے کہ وہ داخل ہو جائے تو ریپ ثابت ورنہ نہیں، یا پھر دو انگلیوں والا شرمناک ٹسٹ، جسے، پچھلے سال 2020 میں لاہور ہائیکورٹ نے با الاخر، بیہودہ، انتہائی شرمناک، واہیات اور ذہنی اذیت ناک قرار دے کر اس میڈیکل کو جدید فرانزک طریقوں سے کرنے کا حکم دیا ہے۔ جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ریپ کے شکار فرد کا فرانزک تجزیہ کئی دہائیوں سے رائج ہے۔ جس میں مرد کا مادہ منویہ، کپڑوں پر مجرم کے ڈی این اے کا حصول، اور جسم پر رگڑوں یا مزاحمت کے نشانات اور دیگر شواہد سائنٹیفک انداز میں اکٹھے کیے جاتے ہیں۔

اب تھانے والوں کی چونکہ بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ مدعی کو تھانے سے ہی ڈرا دھمکا کر بھگا دیا جائے تاکہ تھانے کا ریکارڈ صاف رہے۔ اور اس درد سری سے بھی جان چھوٹ جائے۔ مگر مدعی کے اسرار اور بعض اوقات رشوت لے کر رپورٹ درج کرنے کی حامی بھر بھی لی جائے تو پھر تھانے والے، مدعی کو میڈیکل والوں کے سپرد کر دیتے ہیں جہاں تندخو بے رحم عملہ لڑکی کا پھر زبانی طور پر کربناک ریپ کرنا شروع کر دیتا ہے اور اکثر فائنل رپورٹ لکھنے سے پہلے ہی لڑکی کو اس کے سامنے ہی، بڑے یقین کے ساتھ بدکردار گردانا جانے لگتا ہے اور ساتھ یہ بھی کہا جاتا کہ ان کا (یعنی میڈیکل عملے کا) روز کا کام ہے لہذا انہیں پتہ ہے ریپ شیپ کچھ نہیں ہوتا لڑکیوں کے اپنے ہی کالے کرتوت ہوتے ہیں۔ اس طرح لواحقین اگر تھانے سے نہ بھاگیں تو ان کو اپنی غمزدہ اور کرب سے گزرنے والی بیٹی بہن کی دوسری رسوائی میڈیکل رپورٹ کے دوران اٹھانی پڑتی ہے۔ لہذا اکثر والدین یہاں ہمت ہار جاتے ہیں اور پھر بھاگ جانے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ اور اپنی درخواست واپس لے لیتے ہیں۔

میڈیکل رپورٹ کے بعد لڑکی کے لیے ایک اور اذیت ناک مرحلہ شروع ہوجاتا ہے کہ اب اکثر لڑکی کے والدین بھی اسے شک کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور والدین یہ سوچ سوچ کر بھی مرے جا رہے ہوتے ہیں کہ کسی طرح لڑکی کا یہ داغ چھپا لیں کیونکہ اگر اس داغ کا محلے داروں کو پتہ چل گیا تو بچی کوئی شادی کرنے کو تیار نہ ہوگا اور یہ ساری زندگی گھر پر ہی اپنے بال سفید کر لے گی۔

اب چونکہ پاکستان میں ہمارے مردوں یا لڑکوں نے بے شک گھاٹ گھاٹ کا گند کھایا ہو مگر لڑکی اسے اپنے برخلاف زیرو میٹر ہی چاہیے۔ یہی وجہ یہ کہ بچی کے والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہر لحاظ سے صاف شفاف اور پاکیزہ بیٹی، بے شک اس لڑکے کے ساتھ بیاہ دیں جس کا بدکرداری میں طوطی بولتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اگر سہاگ رات کو لڑکی کا جنسی تشدد سے خون نہ نکلے تو پورے سسرال سے جو کچھ سننا پڑتا ہے وہ تو ہے ہی مگر لڑکی کا قصور ہو نہ ہو اسے بدکردار کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ بس جیتے جی ہی مر جاتی ہے یا عملاً خود کشی کر لیتی ہے۔ یہ بھی نہ ہو تو کسی بہانے سے طلاق کا پروانہ اسے تھما دیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف لڑکے سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا اور وہ پوتر کا پوتر ہی رہتا ہے۔

اب اگر جنسی زیادتی کا شکار لڑکی کے والدین پھر بھی حوصلہ نہ ہاریں اور عدالت میں تک چلے ہی جائیں تو۔ ۔ ۔

میں نے کچھ ریپ کے مقدمات عدالتوں اپنے گناہ گار کانوں سے سنے اور دیکھے ہیں۔ اور یقین کریں مخالف وکیل جس طرح کی اخلاق سے گری جرح کرتا ہے الامان الحفیظ۔ کہ آپ کا جنسی زیادتی کا شکار لڑکیوں سے کوئی رشتہ نہ ہونے کے باوجود سر شرم سے جھک جائے گا۔ کیونکہ مخالف وکیل کے لچر، بیہودہ اور، غیر اخلاقی اور فحش سوالوں کے جواب کوئی بچی نہیں دے سکتی لہذا لڑکی والے تھانے میڈیکل سے نہ بھاگیں تو پہلی پیشی میں ہی مقدمے سے بھاگ جانے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ اور صحافی مظہر عباس کے بقول بعض جج تک اس قسم کے کیسوں میں صرف چسکے لے رہے ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض انہیں اپنے پرائیویٹ کمرے میں بظاہر اس وجہ سے لے جاتے ہیں کہ جنسی تشدد کا شکار لڑکی کھل کر اپنا بیان دے سکے تو اس میں بھی جج اپنی تسلی کی خاطر نہیں بلکہ مزید تسکین کی خاطر اس کا بیان بار بار سنتے ہیں۔

اور پھر تھانے سے لے کر میڈیکل اور پھر مخالف وکیل کے طنزیہ، دل کو چیر دینے والے جملے اور ریپسٹ اگر با اثر ہے تو ہر جگہ رشوت دے کر آخر کار جنسی تشدد کی شکار لڑکی ہی بدکردار ثابت ہوجاتی ہے اور ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر باعزت رہا کر دیا جاتا ہے۔

یاد رہے مینار پاکستان میں ہونے والا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی ایسے واقعات ہوچکے ہیں جس میں اکثر مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں۔ آپ کو کراچی میں قائداعظم کے مزار پر مبینہ طور پر ایک نوبیاہتا دلھن کا مزار قائد کے محافظوں کے ہاتھوں ریپ یاد ہوگا کہ ڈی این اے میں محافظ پکڑے بھی گئے مگر عدالت نے ڈی این اے کی شہادت ہی ماننے سے انکار کر دیا اور سب ملزم رہا ہو گئے۔

اب کئی احباب فوراً اس قبیح فعل کا دفاع یہ کہہ کر، کر سکتے ہیں کہ یورپ میں بھی تو ایسا ہوتا ہے۔ اس پر کیوں نہیں لگا جاتا تو جناب اگر یورپ میں غلط ہوتا ہے تو ہمارے غلط قدم سے وہ جائز نہیں ہوجاتا۔ دوسری بات یہ کہ ایسے لوگ غلط فہمی دور کر لیں کہ یورپ میں ریپ کی سزا بہت سخت ہے۔ وہاں کے ریپ اور پاکستان کے ریپ میں بڑا فرق ہے۔ یورپ میں تو کسی لڑکی کو اس کی اجازت کے بغیر ہاتھ بھی لگایا جائے تو قانون حرکت میں آ جاتا ہے اور اسے بھی ریپ کے برابر سمجھتا ہے۔

میں نے برطانیہ کی عدالتوں میں بطور جیوری ممبر، جو کہ عوام سے بے ترتیبی (Randomly) سے چنے جاتے ہیں، کی بھی ڈیوٹی کی ہے۔ اور ایک دو ریپ کیس بھی دوران ڈیوٹی مشاہدہ کرنے کو ملے۔ ایک کیس میں لڑکی کو اس کی اجازت کے بغیر ٹھرکیانہ ہاتھ لگایا گیا تھا، جس پر عدالت نے مجرم کو چار سال کی سزا دی۔ ایک اور کیس میں ایک سیاہ فام خاتون نے اپنے نئے سیاہ فام آشنا کو صرف باہر باہر ٹھرک جھاڑنے کی اجازت دی تھی مگر اس پر جنون سوار ہو گیا تو وہ حد سے بڑھنے لگا تو اس نے پولیس کال کرلی اسے بھی عدالت نے زبردستی کرنے کی کوشش میں آٹھ سال قید سنائی۔

یہ تو برطانیہ کا قصہ ہے اور یقین کریں جس طرح کا مختصر لباس ویک اینڈ پر، یہاں کی جوان خوبرو لڑکیاں پہن کر کلب یا بار کی طرف رواں دواں ہوتی ہیں اگر وہ یہ حرکت پاکستان میں کریں تو سو گز کے اندر ہم سب کو چیر پھاڑ کر رکھ دیں۔

اور دوسری طرف جب ہماری بہن بیٹیاں کسی جنسی ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں تو وہ اول تو سرے سے تھانے جاتی ہیں نہیں اگر جاتی ہیں تو اس کا کربناک ذہنی ریپ تھانے سے لے کر عدالتوں تک کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔

اب پھر عام لوگ کیا کریں اور اپنی بچیوں کی حفاظت کیسے کریں؟ کیا جب بھی عورت گھر سے باہر نکلے تو محرم مرد ساتھ کلاشنکوف لے کر نکلے؟

خدارا یہ کہنا بند کریں کہ فلاں لباس پہنیں فلاں لباس نہ پہنے، ہم لوگوں نے ہر اس بچی، بچے، عورت سے جنسی تشدد کیا ہے جس کے پاس کوئی نہ کوئی سوراخ کی موجودگی کا یقین ہوتا ہے۔ ورنہ پھر اگر مگر ہی کرنا ہے تو پھر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں گا کہ:

یادگار پاکستان میں عورت سے دست درازی اس وجہ سے ہوئی، کیونکہ وہ فحش ٹک ٹاکر تھی۔ برقعے میں ہوتی تو ایسا ہر گز نہ ہوتا

چنگ جی رکشے میں اوباش لڑکے نے شرمناک حرکت اس وجہ سے کی کیونکہ اس لڑکی نے اپنا چہرہ نہیں ڈھانپ رکھا تھا۔ بلکہ وہ گھر سے نکلی ہی کیوں؟

بہت سے لوگ مل کر ایک لڑکی کو اس وجہ سے مار رہے تھے کہ وہ لڑکی شکل سے ہی دو نمبر لگتی تھی

ایک برقعے والی عورت کے ساتھ پچھلے سال پارک میں دست درازی اس وجہ سے ہوئی تھی کہ وہ یقیناً اوباش لڑکوں کو برقعے میں سے فحش اشارے کر رہی ہوگی

کوہاٹ میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے والی لڑکی اس وجہ سے قتل کردی گئی کہ وہ قاتل میں دلچسپی نہیں دکھا رہی تھی۔

چھ ماہ کی بچی اس وجہ سے ریپ کی گئی کیونکہ اس نے ہیجان انگیز اور سیکسی ڈائپر پہن رکھا تھا

قبر سے مردہ نوجوان لڑکی کو نکال کر، اس کا ریپ اس وجہ سے کیا گیا تھا کہ اس کے باریک کفن سے اس کے جسم کی نمائش ہو رہی تھی

چونکہ ہم گناہ گار لوگ ہیں لہذا مولانا طارق جمیل کی حوروں کی نقشہ کشی ہم کو دنیا میں ہی اس عمل پر اکسا سکتی ہے کیا کریں انسان ہیں اور جلد شیطان کے بہکاوے میں آ جاتے ہیں لہذا ہمیں معاف کر دیا جائے کیونکہ اصل گناہ کی پوٹلی تو عورت ہی ہے اور روایات کے مطابق دوزخ میں بھی عورتوں کی تعداد ہی زیادہ ہوگی لہذا گناہ کی دعوت، عورت ہی دیتی ہے اس میں ہم معصوم فرشتہ صف مردوں کا کیا قصور؟ حالانکہ ہم ہی وہ فرشتے ہیں پاکستانی ہیں کہ جو نہ کوئی نماز چھوڑتے ہیں نہ کوئی کمزور بے یارومددگار معصوم بچہ یا بچی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments