ڈاکٹر کی ڈائری: معاشرہ، جنسی استحصال اور لڑکے


گزشتہ دنوں وطن عزیز میں ہے در پے پیش آنے والے واقعات نے دماغ کو مکمل طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا ہے، کبھی تو لگتا ہے کہ سوچنے سمجھنے اور بولنے کی صلاحیت ہی ختم ہو گئی ہے۔

تصویر کے دو رخ دیکھنے کی کوشش میں چاروں طبق روشن ہو جاتے ہیں۔

شاید کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا کہ، جذباتی تکلیف، جسمانی تشدد، جنسی ہراسانی اور جنسی استحصال معاشرے میں کس نوعیت کے ذہنی انتشار کا سبب بن رہا ہے۔

ہر طبقے کا فرد اپنی ذہنی علمی اور عقلی استطاعت کے مطابق رائے زنی، تبصرے اور تجزیے کرنے میں مصروف ہے۔

لڑکی اپنے دوست کے ساتھ تعلق میں تھی، لڑکی شادی شدہ خاوند کے ہاتھوں مر گئی، لڑکی ٹک ٹاکر فینز کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوئی، لڑکی قبر سے نکال کر بے آبرو کی گئی،

لڑکی نہ گھر سے باہر محفوظ، نہ گھر میں محفوظ، نہ غیروں کے ہاتھوں محفوظ، نہ اپنوں، نہ محرم رشتوں کے ہاتھوں محفوظ۔

لڑکی چھ ماہ کی ہو، چھ سال کی ہو، یا ساٹھ سال کی استحصال کا شکار ہو رہی ہے۔

مگر ان سب تبصروں تجزیوں اور بحث کے دوران ایک بات میرے لئے انتہائی حیرت اور تکلیف کا باعث ہے کہ کیا یہ سب کچھ صرف ایک صنف کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ؟

یہ تمام تبصرے تجزیے اور بحث کرنے والے مرد خود کبھی اپنی پوری عمر میں جنسی ہراسمنٹ یا استحصال کا شکار نہیں ہوئے؟

مجھے بحیثیت عورت شاید اس بات کی کبھی سمجھ نہ آتی اگر میں نے اپنی سائیکالوجسٹ کے ساتھ مل کر ایک ریسرچ نہ شروع کی ہوتی، ریسرچ کا موضوع تو کچھ اور تھا مگر Qualitative research میں آپ انٹرویوز کرتے ہیں اور اگلے کو بولنے کا موقع دیتے ہیں تو بات سے بات نکلتی رہتی ہے۔

اس ریسرچ کے دوران بہت پڑھے لکھے طبقے کے مرد بشمول انتہائی قابل اور کامیاب ڈاکٹر حضرات نے بھی اپنے ساتھ ہوئی جنسی ہراسانی کا اعتراف کیا۔

میڈیکل کے اسٹوڈنٹس کو Child Abuse پڑھاتے ہوئے میں نے یہ کہا کہ تقریبا سب بچے اپنے بچپن میں جنسی ہراسانی اور جسم کے مخصوص اعضاء کو غلط طریقے سے چھونے کے تجربے سے گزرتے ہیں، اور اس میں زیادہ تعداد لڑکوں کی ہوتی ہے کہ جو چھ سال کی عمر میں دکان سے چیزیں لینے بھی جاتے ہیں، ربیع الاول اور محرم کی نیاز محلے میں بانٹنے بھی جاتے ہیں، گھر سے باہر جا کر کرکٹ اور دوسرے کھیل بھی کھیلتے ہیں، اور ہاتھ میں سپارے پکڑے دو تین گلیاں گزار کر مسجد تک بھی جاتے ہیں، اور اس دوران دکانداروں، راہگیروں، زیر تعمیر عمارت کے مزدوروں، اپنے سے بڑے گراؤنڈ میں کھیلتے لڑکوں کے ساتھ ساتھ اپنے بڑے کزنز، اپنے گھر کے نوکروں، اور پڑوسیوں کے نوکروں کی بری نظر اور برے لمس کا شکار ہوتے ہیں۔

میں نے خود بڑے لڑکوں کو سر عام چھوٹے بچوں کی نیکر نیچے کر کے قہقہے لگاتے دیکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ظلم صرف عورت پر نہیں بلکہ ہر انسان پر ہو رہا ہے۔

مرد نے عورت کو گلا کاٹ کر مار دیا، عورت خود ذمہ دار کہ وہ آزاد خیال عورت میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگانے والی تھی،

آئے دن اخبار اور نیوز چینل کی زینت بنتی ہیں ایسی خبریں کہ، عورتوں نے شوہر کو زہر دے کر مار دیا، کسی چاہنے والے کے ساتھ مل کر کلہاڑی کے وار کر کے مار دیا، اور بخدا اس میں زیادہ تعداد دیہاتی ان پڑھ یا نیم خواندہ عورتوں کی ہوتی ہے، جو کہ میرا جسم میری مرضی کا نعرہ بالکل نہیں لگاتیں مگر اپنے جسموں پر اپنی مکمل مرضی کر رہی ہوتی ہیں۔

کاروکاری کے الزام میں مارے جانے والی معصوم لڑکیوں کے ساتھ مرد بھی مارے جاتے ہیں، چاہے وہ بے گناہ ہوں یا ان کا گناہ کچھ بھی ہو، قتل کرنے والوں کی طرف سے الزام بدکرداری ہی لگایا جاتا ہے دونوں صنف پر۔

کراچی کے ایک مشہور مجرم پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ وہ لوگوں کو قتل کر کے ان کے سروں کے ساتھ فٹبال کھیلا کرتا تھا۔

دہشتگردی میں، ذاتی دشمنی میں اور پیسوں کے تنازع پر بے تحاشا مشہور مرد بھی ظلم، استحصال اور قتل کا شکار ہوئے۔

میری گزارش ہے کہ معاشرے میں ظلم، استحصال اور زیادتی کے خلاف بلا تفریق و تخصیص بات کریں۔

جنسی استحصال اور زیادتی پر بات کرتے ہوئے ایک حقیقت تو یہ ہے کہ ایک پوری نسل کے والدین، اسپیشلی مائیں مجرم ہیں کہ انہوں نے اپنے معصوم بچوں کی حفاظت نہیں کی، کہ جب وہ خود بچپن میں غلط طرح چھوئے جانے کے تجربے سے گزریں تو پھر بھی اپنے بچوں کی خصوصی حفاظت کیوں نہیں کی، کیوں ہر کسی پر اعتبار کر کے اپنے بچے بھی ان حالات میں چھوڑے۔

اور دوسری حقیقت یہ ہے کہ استحصال، زیادتی اور ظلم صرف عورت پر نہیں بلکہ انسان پر ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments