رضیہ آپا، ان کے کچھ افسانے اور میں


کہا جاتا ہے کہ اکثر بڑے ادیبوں اور دانشوروں سے دوری ہی بھلی، کیونکہ ان سے قربت پہ ان کی شخصیت کے جو مخفی ناپسندیدہ روپ آشکار ہوتے ہیں وہ آپ کو مایوس کرتے ہیں اور تب آپ سوچتے ہیں کہ اس سے تو بہتر تھا کہ صرف ان کی تحریروں پہ اکتفا کیا ہوتا۔ لیکن اس سلسلے میں میرا تجربہ رضیہ آپا سے ملنے کے بعد مختلف ہے۔

گو رضیہ آپا یعنی رضیہ فصیح احمد، ادبی دنیا کا بڑا نام ہیں۔ لیکن میری نالائقی دیکھیے کہ ان کو اس طرح تفصیل سے پڑھنے کا مجھے وہ موقع نہ ملا جو ان کے قلم کا حق تھا۔ حالانکہ وہ بہت پہلے ہی اپنے ناول ”آبلہ پا“ پہ آدم جی پرائز لے کر اور دوسری ادبی اصناف میں بھی بہت کچھ لکھ کر نام کما چکی تھیں۔ میں اپنی نوجوانی میں ان کی تحاریر سے گہری اور تفصیلی شناسائی نہ ہونے کو اپنی ادبی لغزش میں شمار کرتی ہوں۔ لیکن اب اس عمر میں کہ جب دنیا کے تجربات بشمول ہجرت کی آبلہ پائی کے تجربے میرے وجود کی رگ رگ میں سرایت کر چکے ہیں، یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میں رضیہ آپا سے ذاتی طور پہ متعارف ہوئی۔

ان سے دوستی کے بعد مجھ پہ ان کی شخصیت کے دلچسپ پہلو اس طرح کھلے ہیں بلکہ پھول کی مانند کھلتے ہی جا رہے ہیں کہ ان سے ہونے والی ہر گفتگو کو میں اپنا تحفہ سمجھتی ہوں۔ ان کو جاننے کے بعد میں نے انہیں کچھ اور پڑھا۔ اور اس بار کچھ زیادہ گہرائی سے، اور یقین کیجیے کہ میں ہرگز مایوس نہیں ہوئی، کیونکہ رضیہ فصیح احمد قلمکار اور رضیہ آپا کی شخصیت کو میں نے تضاد سے عاری پایا۔

رضیہ آپا سے میرا دوستی اور اعتماد کا رشتہ ہے۔ یعنی کوئی بات کہنے کے بعد یہ سوچنا نہیں پڑتا کہ برا مان جائیں گی۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ چھیاسی سال کی ہیں۔ تو بھئی یقیناً ہوں گی، لیکن باتیں اور مذاق کرتے ہوئے تو ہم دونوں ہی کئی دہائی پیچھے چلے جاتے ہیں۔ میں کہتی ہوں ”رضیہ آپا میں آپ کا لحاظ اور عزت تو بہت کرتی ہوں مگر آپ کی بزرگی کی وجہ سے کبھی کچھ ڈر نہیں محسوس ہوتا۔“ تو وہ کہتی ہیں، ”اچھا تو میں آپ کو اپنی تصویر بھیجتی ہوں آپ وہ سامنے رکھ کر باتیں کیا کیجیے۔ پھر کچھ خوف آئے گا“ ۔ باوجود بے تکلفی کے وہ مجھ سے ”آپ“ سے مخاطب ہوتی ہیں۔ گویا ہم دوستی کے اس مقام پہ ہیں کہ ہمیں۔ ”تم“ اور ”آپ“ کے تخاطب کی بحث لایعنی لگتی ہے۔

گو میں نے آج ان کی کتاب ”بے سمت مسافر“ کے افسانوں پہ لکھنے کا ارادہ کیا ہے لیکن کیوں نہ پہلے کچھ بات ان کی شخصیت بطور افسانہ نگار ہو جائے۔

رضیہ آپا نے مجھے بتایا کہ انہوں نے اپنا پہلا افسانہ 1948 میں ”ناتمام تصویریں“ نویں جماعت میں بغیر پتہ کے ”عصمت“ رسالے میں بھیجا تھا کہ اگر ناقابل اشاعت ہونے کی صورت میں واپس آئے تو گھر میں مذاق نہ اڑے۔ افسانہ چھپنے کا پتہ کلاس کی ساتھی طالبات سے ملا جنہوں نے ان کا خیر مقدم اس طرح کیا ”اوہو مصنفہ آ گئیں۔“ اس کے بعد سے بڑے ادبی رسالوں میں چھپنے لگیں۔ بہترین طالبہ اور بیڈمنٹن کی کھلاڑی ہونے کے باوجود تعلیم کا سلسلہ ابتدا میں موقوف ہونے کے بعد شادی جو ان کے الفاظ میں”ارینج محبت“ تھی، کی نذر ہو گئیں۔ ظاہر ہے ہمارے سماج نے گوری چٹی رنگت اور نیلی آنکھوں والی پریوں کی اڑان کو کب تسلیم کیا ہے؟ لیکن رضیہ آپا نے بھی کون سی ہار مانی؟ انہوں نے شادی کے بعد بی اے، پہلی پوزیشن گولڈ میڈل کے ساتھ اور پھر کراچی یونیورسٹی سے 1970 میں ایم اے کیا۔ لیکن وہ اس سے پہلے ہی 1964 میں ”آبلہ پا“ جیسا شاہکار ناول لکھ کر ادبی دنیا میں نام منوا چکی تھیں۔ ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو ان کی طبیعت کی شگفتگی، ظرافت، دل میں جستجو اور جاننے کی امنگ اور انسانوں سے پیار ہے۔

انہوں نے زندگی کے سفر میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا، کچھ اپنی طبیعت کی جولانی تو کچھ میاں کی فوج میں ملازمت کے سبب اور ان تجربات کو اپنی تخلیقات میں سمویا ہے۔ انہوں نے بچوں کے ادب سے لے کر سفر نامے، ڈرامے، ناولز اردو اور انگریزی میں کہانیاں اور انشائیے لکھے۔ ان کی طبیعت شاعری کے جانب بھی مائل ہے اور چار کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں لیکن یہاں میں غالب لائبریری والے مرزا ظفر الحسن کا لکھا مشورہ رقم کروں گی کہ ”ادب میں چومکھی لڑانا بیشتر صورتوں میں مفید نہیں ہوتا۔ بس دو ایک اصناف کافی ہیں جن سے شغف، لگن، مشق اور بصیرت ادبی شخصیت کی تعمیر میں معاون ہوتے ہیں۔“

لیکن اتنے ادبی تجربات میں بھلا رضیہ آپا کا دوش بھی کیا؟ جب بھی ان سے بات کرو تو مزید کچھ جاننے کی جستجو، وہ انسانی نفسیات کی گتھیاں ہوں، روحانیت کی پراسراریت، سیاست کے پیچ و خم ہوں یا ادب و موسیقی کی جادوئی آفاقیت ان کا پرتجسس ذہن ہمہ وقت کچھ اور جاننے کا متلاشی نظر آتا ہے۔ اس عمر میں جب لوگ عبادتوں کے پل سے ہمہ وقت اللہ کا قرب ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں، وہ غیر روایتی انداز میں زندگی گزارتے ہوئے مطمئن اور پرسکون اپنے تخلیقی کاموں میں مصروف نظر آتی ہیں۔

اب آتے ہیں ان کی کتاب ”بے سمت مسافر“ کی طرف۔

جس میں کل پانچ افسانے شامل ہیں۔ یہ کتاب 1978 میں چھپی تھی۔ چونکہ تمام کہانیوں پہ رائے کا اظہار ممکن نہیں لہذا میں نے تین کا انتخاب کیا ہے۔

پہلی کہانی ”ڈائن“ ہے۔ جو رضیہ آپا میں چھپے نفسیات دان کا پتہ دیتا ہے۔ کہانی کا بنیادی کردار سعید ہمارے سماج کی ایک ایسی ماں کا بیٹا ہے جو اپنی دیوانہ وار محبت سے اپنے بالغ بیٹے کو نفسیاتی طور پہ اپنی محبت کا غلام بنا کر عمر بھر کے لیے قابو کر لینا چاہتی ہے۔ وہ اسے بے مانگے ہر شے مہیا کر کے کسی ناکامی کے لیے تیار نہیں کرتی۔ لہٰذا جب ایک معمولی شکل و صورت اور بظاہر کم حیثیت لڑکی ندرت جب سعید سے شادی سے انکار کرتی ہے تو یہ سعید کے لیے ناقابل برداشت ہوتا ہے۔

”پوری زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی چیز بے مانگے بھی نہ ملے اور طلب کرنے پر بھی نہیں۔“ اس صورتحال میں سعید بے یقینی اور انتہائی مایوسی کے عالم میں گاڑی کے سامنے آ کر جان دے دیتا ہے۔ بیٹے کی میت پہ روتی ہوئی ندرت کو جب سعید کی ماں ”ڈائن“ کہتی اور بیٹے کی موت کا ذمہ دار قرار دیتی ہے تو وہ ان کو ترس بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سوچتی ہے۔ ”۔ سعید کو میں نے نہیں تم نے مارا ہے۔ تم نے اور تمھارے بے ڈھنگے پیار نے۔“ یقیناً افسانے میں ہمارے سماج کی ماؤں کی نفسیات میں مجرمانہ حد تک بے اعتدال محبت کو چیلنج کیا ہے جس کا مقصد اولاد کو جذباتی طور پہ اپنا غلام بنا دینا ہے۔ تاکہ وہ با اعتماد اور کسی اور عورت کی محبت کا اسیر ہونے کا اہل نہ ہو سکے۔

دوسرا افسانہ جو مجھے ان کی متجسس طبیعت کا امین لگا وہ ”بے سمت مسافر“ ہے۔ اس افسانے کی بنت میں ان کے جاسوسی ادب کے مطالعہ کا ذوق اور فطری تجسس تو جھلکتا ہی ہے۔ لیکن ایک ایسے سماج پہ بھی چوٹ ہے کہ جو دیوالیہ پن کی حد تک اخلاقی، مذہبی اور سماجی رویوں میں تضاد کا شکار ہے۔ افسانہ بیانیہ ہے جس میں اپنی بہن کے قاتل سجاد نے ابتدا سے اپنی زندگی کی کہانی بیان کی ہے۔ جو قتل کی سزا کے ڈر سے انگلستان کے باشندے ٹیلر اسمتھ کا روپ دھارے ہوئے ہے۔

سجاد نے اپنی زندگی کی دشواریوں کو لینڈ سلائیڈ سے تشبیہ دی ہے، ”جو کسی کی راہ میں کم اور کسی کی راہ میں زیادہ آتے ہیں“ ۔ افسانے میں دہرے روپ دھارنے والے افراد کو چیلنج کیا ہے۔ خاص کر مذہب کا ڈھونگ رچائے لوگ ”بات یہ ہے کہ زندگی کا یہ لینڈ سلائیڈ میرے عقیدے کو روندا ہوا گزر گیا۔ میں ایسی نمازوں سے دور ہی رہنا چاہتا ہوں جو حاجی پڑھتا ہے جو میری دادی اور میری ماں پڑھتی ہیں۔“ یہ وہ لوگ تھے جو بظاہر عبادت گزار ہونے کے بیٹی کے جسم کی کمائی اور حج کے بہانے منشیات کے کاروبار کی آمدنی میں مضائقہ نہیں سمجھتے۔

تیسری کہانی جس کی فضا نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ”آگ اور پانی“ ہے۔ جو بارش کی وجہ سے آفت زدہ قرار دیے جانے والے شہر کراچی کے پس منظر میں لکھی گئی۔ جہاں طبقاتی تفریق کی وجہ سے بارش غریب شہر کی کمر توڑتی اور امیر شہر کی بے حسی کو عریاں کرتی ہے۔ اس کہانی کے متعلق رضیہ آپا کا کہنا ہے کہ اس کے کردار محض تخیلاتی نہیں بلکہ جھونپڑی اور کوٹھی میں رہنے والوں کے کردار اور رویے ان کا براہ راست مشاہدہ ہے۔ قصر ایمن کوٹھی میں رہنے والے امیر گھر کے افراد کہ جنہوں نے اپنی کوٹھی یا گھر والوں سے آگے تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا، اور ایک طرف وہ غریب جن کی زندگی کی ہر شے پانی میں بہہ رہی تھی اور جو ”پل پر جھکے یہ تماشا ایسے مزے سے دیکھ رہے تھے جیسے کشتیوں کی دوڑ یا پیرا کی کا مقابلہ دیکھ رہے ہوں۔

اور پھر اس طوفانی فضا میں ایک مجذوب کا کردار بھی ہے جو پانی کو حقیر گردانتے ہوئے آگ کا دم بھرتا ہے“ پانی نے بھی کسی محل کسی بنگلے کو گرایا۔ یہ آگ ہے جو جھونپڑیوں اور محلوں میں تمیز نہیں کرتی۔ یہ سب کو جلاتی ہے۔ آگ انصاف پسند ہے۔ پانی بے انصاف ہے۔ غریبوں کو ڈبوتا ہے۔ غریبوں کو بہاتا ہے۔ ”اس طرح مصنفہ نے سماجی نظام کی نا انصافی، معاشی بدحالی اور انسانی رویہ کی بے حسی کے خلاف اپنا احتجاج ایک مجذوب کی زبان سے ادا کیا۔

افسانوں کی یہ کتاب پرانی سہی لیکن وقت نے رضیہ آپا کی زندہ دلی اور سچ کی تازگی کو باسی نہیں ہونے دیا۔ وہ آج بھی اردو اور انگریزی میں شگفتہ مضامین اور سوال اٹھاتے افسانے لکھ رہی ہیں۔ میری خواہش ہے کہ ہماری گفتگو کو سلسلہ اسی طرح دراز رہے، اور وہ اپنی شگفتگی، تجسس اور با معنی زندگی سے مجھے بھی بامقصد زندگی جینے پہ اکساتی رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments