جنگیں اور ٹی وی صحافت


اپنے ذہن میں موجود کئی خیالات کا ہم اس خدشے کی وجہ سے بھی برجستہ اظہار نہیں کرتے کہ لوگ ان کا کوئی اور مطلب نہ نکال لیں۔ ٹی وی صحافت کا تجزیہ کرتے ہوئے مجھے بھی ایسا ہی خوف لاحق رہتا ہے۔ پرنٹ میڈیا میری پہلی محبت ہے۔ اپنی جوانی کی تمام تر توانائی اس کی نذر کردی۔ اس صدی کے آغاز میں جب وطن عزیز میں ٹی وی صحافت کا آغاز ہوا تو آج کے کئی کامیاب ترین اداروں نے مجھے پرکشش تنخواہ اور مراعات سمیت اپنی جانب راغب کرنا چاہا۔ میں اخبار سے محبت پر ڈٹا رہا۔

2007 میں لیکن میری پنجابی محاورے والی ’’بس‘‘ہوگئی۔ ایک ٹی وی پروگرام شروع کر دیا اور ٹی وی صحافت کے لئے ’’سبز قدم‘‘ یوں ثابت ہوا کہ جنرل مشرف نے مارشل لاء (2) لگاتے ہوئے مجھ سمیت چھ اور ساتھیوں کی وجہ سے چند چینلوں کو بھی آف ایئر کردیا۔ 2008 کے انتخابات ہوجانے کے کئی ہفتوں بعد ہمارے چہروں کو سکرینوں پر لوٹنے کی سہولت نصیب ہوئی۔ اس سہولت کو اگرچہ میرے بے شمار ساتھیوں نے جمہوری نظام کو ’’چور اور لٹیروں‘‘کا یرغمال ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا۔ میں فریاد کرتا رہا کہ یوں کرتے ہوئے درحقیقت ہم اسی شاخ پر آری چلا رہے ہیں جو ہمیں سایہ فراہم کئے ہوئے ہے۔ میری صدا مگر صحرا میں بلند ہوئی آواز ہی رہی۔ بالآخر ہماری سیاست کے ’’چور اور لٹیروں‘‘ کو سپریم کورٹ اور احتساب بیورو نے ’’سیدھا ‘‘کر دیا۔ ٹی وی سکرینوں پر اب ان سے ’’لفافے‘‘لینے کے عادی بھی نظر نہیں آتے۔ میں بھی ’’وہاں‘‘ سے نکالا ہوا ہوں۔ عمر کے آخری حصے میں اخبار ہی نے پناہ فراہم کر رکھی ہے۔

اپنی ذلت ورسوائی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس حقیقت کے برجستہ اظہار سے ہمیشہ گھبراتا ہوں کہ ٹی وی صحافت کی بے پناہ محدودات ہیں۔ اس کے ذریعے پیچیدہ مسائل کی گہرائی اجاگر ہونہیں سکتی۔ ٹی وی صحافت بنیادی طورپر سکرینوں پر رونق لگانے والا دھندا ہے۔ مطلوب رونق کے لئے ڈرامہ درکار ہے۔ شوبز سے وابستہ ’’شوشا‘‘۔ اسی باعث جنگ جیسا سنگین مسئلہ بھی رونما ہوجائے تو ٹی وی سکرینوں کو دیکھتے ہوئے پیغام یہ ملتا ہے کہ گویا دو ٹیموں کے مابین فٹ بال میچ ہورہا ہے۔ T-20والی سنسنی خیزی۔

جنگ کو T-20میچ بنانے کا انداز 1990 کی دہائی میں CNN نے متعارف کروایا تھا۔ صدام حسین کے عراق نے جب کویت پر قبضہ کیا تو اس ملک کو ’’آزاد‘‘ کروانے کے لئے امریکہ نے بغداد جیسے شہروں پر فضائی حملے شروع کر دیے۔ صدام حکومت نے طیش میں آکر اسرائیل کی جانب میزائل اچھالنا شروع کردئیے۔ امریکہ میں قائم CNN کے ہیڈ کوارٹر میں بیٹھے اینکر عراق سے میزائل کی پرواز کے بعد بغداد اور تل ابیب میں کھڑے اپنے نمائندوں کو تبصرہ آرائی کے لئے Liveلینا شروع ہوجاتے۔ سائرنوں کی آوازیں ’’میدان جنگ‘‘’ میں بلٹ پروف جیکٹ اور ہیلمٹ پہنے رپورٹر کو فرض شناس ہیرو بنا کر دکھاتیں۔ عراق سے چلائے میزائل مگر ہر اعتبار سے ناکارہ تھے۔ انہیں اسرائیل فضا ہی میں تباہ کر دیتا۔ اس کے علاوہ سکرینوں پر دکھانے کو کچھ بھی میسر نہیں تھا۔ رونق مگر لگی رہی۔

صدام کے خلاف امریکہ کی برپا کردہ جنگ کے علاوہ میں نے ذاتی طورپر عراق ہی کے خلاف مسلط ہوئی دوسری جنگ کو برسرزمین جاکر دیکھا ہے۔ لبنان کی حزب اللہ کے خلاف 2006میں ہوئی جنگ کا بھی میدان جنگ میں جاکر مشاہدہ کیا۔ اس کے علاوہ نائن الیون کے بعد افغانستان پر ہوئے حملوں کو میں چمن کے ایک سرحدی گائوں میں مقیم رہتے ہوئے رپورٹ کرتا رہا۔ بھارت اور پاکستان کے مابین انتہائی کشیدگی کے لمحات میں اکثر دہلی ہی میں پایا جاتاتھا۔

ایک نہیں کئی جنگوں کا برسرزمین مشاہدہ کرتے ہوئے میں نہایت دیانت داری سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ٹی وی صحافت کے ذریعے ان جنگوں کی بھرپور رپورٹنگ ممکن ہی نہیں۔ جنگوں کی وجہ سے عام شہری جس اذیت سے گزر رہے ہوتے ہیں اسے کماحقہ انداز میں فقط اخبار کے لئے اپنائی صحافت کے انداز ہی سے بیان کیا جاسکتا ہے۔ برطانیہ کا ایک جید صحافی ہوا کرتاتھا۔ نام تھا اس کا رابرٹ فسک ۔ افغانستان یا مشرق وسطیٰ کے ممالک میں جب کوئی جنگ چھڑ جاتی۔ نام نہاد عالمی صحافتی ادارے اس کی 24/7رپورٹنگ میں محو ہوجاتے تو لبنان میں کئی دہائیوں سے مقیم ہوا رابرٹ فسک ان کی صحافت کو حقارت سے Monkey Journalismپکارتا۔ وہ اصرار کرتا رہا کہ ہر جنگ کے امکانات کئی برسوں سے ہانڈی میں تیار ہوئے سالن کی طرح اُبل رہے ہوتے ہیں۔ جدید صحافت بتدریج ابھرتے امکانات سے مگر دنیا کو غافل رکھتی ہے۔ اسے خبر ہی نہیں ہوتی کہ جو تنازعہ چل رہا ہے اس کی ٹھوس وجوہات کیا ہیں۔ کونسے فریق کن مفادات کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے ایک دوسرے کے درپے ہیں۔ جنگ کا پہلا فائر ہوتے ہی مگر ’’سٹار‘‘ ہوئے صحافی ’’میدان جنگ‘‘ میں نمودار ہوbجاتے ہیں۔ وہ بڑے شہروں میں قائم کسی فائیو سٹار ہوٹل میں قیام پذیر ہوتے ہوئے وحشت پھیلاتی جنگ کو ’’رپورٹ‘‘ کرتے ہیں۔ یوں وہ ایسے بندروں کی طرح ہو جاتے ہیں جو درختوں کی پناہ میں بیٹھ کر اپنے گرد لگی آگ پر رواں تبصرہ کرتے ہیں۔

کئی جنگوں کو قریب سے دیکھنے کے بعد میں نہایت دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ رابرٹ فسک اپنے علم، تجربے اور صحافت سے مجذوبانہ لگن کی بنیاد پر ضرورت سے زیادہ انتہا پسند ہو گیا تھا۔ اس کے لہجے کی حقارت میدان جنگ میں جانے کو ہمہ وقت آمادہ صحافیوں کی کاوشوں اور ان پر نازل ہوئی مشکلات کو قطعاََ نظرانداز کردیتی ہے۔

مثال کے طورپرحال ہی میں کئی صحافی جو کابل میں موجود تھے انہیں طالبان کے شہر میں داخل ہو جانے کے بعد بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جن اداروں کے لئے وہ کام کرتے ہیں وہ مصر رہے کہ کابل میں موجود صحافی خود کو ’’خطرے‘‘ میں نہ ڈالیں۔ فوراََ کسی نہ کسی صورت کابل ایئرپورٹ پہنچ جائیں اور وہاں سے کہیں ’’محفوظ‘‘ ملک پہنچ جانے کا راستہ تلاش کریں۔

کابل ایئرپورٹ کو لیکن ہزاروں افغانوں نے اپنے کنبوں سمیت گھیرے میں لے رکھا تھا۔ اس بے پناہ ہجوم کی اجتماعی کیفیت دل دہلادینے والی تھی۔ میرے ایک عزیز ترین دوست بھی ان صحافیوں میں شامل تھے جنہیں ہر صورت کابل ایئرپورٹ کے اندر داخل ہونا تھا۔ میں ان کا اور ان کے ادارے کا نام ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر لکھ نہیں سکتا۔ میرے ساتھ وہ ہمہ وقت واٹس ایپ کے ذریعے رابطے میں تھے۔ کابل ایئرپورٹ میں داخل ہو جانے کے باوجود انہیں تین روز بعد اس ملک سے نکلنے کی پرواز نصیب ہوئی اور یہ فقط ایک صحافی کی داستان ہے جس کی تفصیلات کا مجھے ذاتی علم ہے۔

ان جیسے صحافیوں پر نازل ہوئی مصیبت کے بھرپور اعتراف کے باوجود میں یہ دعویٰ کرنے کو اب بھی بضد ہوں کہ افغانستان میں اس وقت جو صورت حال نمودار ہورہی ہے وہ ٹی وی صحافت کے ذریعے بیان نہیں ہوپارہی۔ ساری توجہ کابل ایئرپورٹ کے گرد جمع ہوئے ہجوم کی بے چینی پر مرکوز ہے۔ اس کے علاوہ کابل ہی نہیں افغانستان کے دیگر شہروں اور قصبات میں اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھی خلق خدا کیا سوچ رہی ہے۔ اس کی بابت آج کے نا م نہاد گلوبل ویلج کا باسی ہوتے ہوئے بھی کم ازکم میں ہر اعتبار سے ناآشنا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments