’’تخت نہ ملدے منگے‘‘


یہ کالم پڑھنے والوں کی اکثریت نے اس امر کو سراہا ہے کہ گزشتہ کئی دنوں سے میں افغانستان کی صورتحال پر نگاہ رکھتے ہوئے اس کی اہم ترین جزئیات بیان کررہا ہوں۔ ستائش کے ساتھ مگر کئی دوستوں نے گلہ یہ بھی کیا ہے کہ اس کالم میں ملکی سیاست کا ذکر نہیں ہورہا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اس ضمن میں سچ بیان کرنے کی سکت سے محروم ہوجانے کے بعد میں نے دانستہ خاموشی اختیار کررکھی ہے۔

سرکار کے جاری کردہ ڈیکلریشن کی بدولت روزانہ شائع ہونے والے اخبار کے لئے لکھتے ہوئے آپ کو یقینا احتیاط برتنا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بے تحاشہ معاملات ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں کھل کر لکھو تو فسادِ خلق کی آگ بھڑک سکتی ہے۔ صحافی کا بنیادی فرض مگر کسی نہ کسی انداز میں ’’خبر‘‘ کو عوام کے روبرو لانا ہے۔ اس فرض کو نبھانے کے لئے زبان وبیان پر کامل گرفت درکار ہے۔ اپنے کئی ساتھیوں کی طرح میں اس ضمن میں کافی کمزور محسوس کرتا ہوں۔

ملکی سیاست کے صحافی مگر متحرک کردار نہیں ہوتے۔ اس دھندے میں اصل گیم سیاست دان لگاتے ہیں۔ صحافی اس گیم کے مختلف عوامل اور لمحات کو محض بیان ہی کرسکتے ہیں۔ یہ عرض کرنے کے بعد دیانت داری سے سوال اٹھانا لازمی سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں سیاست دانوں کے پاس کوئی گیم ہے بھی یا نہیں ۔ اسے کھیلنا تو دور کی بات ہے۔

 1985 سے میری صحافت کا کلیدی انحصارپارلیمانی کارروائی پر رہا ہے۔ اس حوالے سے میں نے انگریزی اخبارات کے لئے ’’پریس گیلری‘‘ والا کا لم متعارف کروایا تھا۔ پارلیمانی کارروائی پر کامل انحصار کرنے والے رپورٹر کا عالم مگر اب یہ ہو گیا ہے کہ قومی اسمبلی کے گزشتہ سیشن کے آخری دس دن میں نے پارلیمان ہائوس جانے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ ہمارے تحریری آئین نے تقاضہ کر رکھا ہے کہ پارلیمانی سال کے دوران قومی اسمبلی کے کم از کم  130 اجلاس ہوں۔ اس برس کے پارلیمانی سال کو اگست کے پہلے ہفتے میں مکمل ہونا تھا۔ قومی اسمبلی کے مگر مطلوبہ اجلاس مکمل نہیں ہوئے تھے۔ نام نہاد ’’آئینی فریضہ‘‘ نبھانے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر لہٰذا اجلاس بلا لئے گئے۔ یہ اجلاس عموماََ نماز عصر کے بعد شروع ہونا چاہیے تھے۔ ہمارے معزز اراکین مگر مغرب تک اپنے گھروں ہی میں آرام کرتے رہتے۔ طویل انتظار کے بعد بالآخر اجلاس شروع ہوتا تو پندرہ یا بیس منٹ کی کارروائی کے بعد کورم کی نشاندہی ہوجاتی۔ اس کی عدم موجودگی میں اجلاس دوسرے دن کے لئے مؤخر کردیا جاتا۔ وزراء شاذ ہی قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاسوں میں آئے۔ تقریباَ ہر وزارت کے بارے میں اٹھائے سوالات کا پارلیمانی امور کے ’’چھوٹے‘‘ وزیر علی محمد خان صاحب ہی جواب فراہم کرتے رہے۔

منتخب ایوان کو اصل قوت وتوانائی حزب مخالف کی لگن فراہم کرتی ہے۔ ان دنوں عددی اعتبار سے نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ شہباز شریف صاحب اس کے قائد ہیں۔ وہ مگر ایوان تو کجا اسلام آباد بھی تشریف نہیں لاتے۔ ان کی عدم موجودگی میں نون والوں کو سمجھ نہیں آتی کہ اپنا وجود کیسے ثابت کریں۔ اس میں شامل کئی اراکین ازخود کوئی معاملہ اٹھانا نہیں چاہتے۔ انہیں خوف لاحق رہتا ہے کہ ان کی پیش قدمی کہیں شہباز شریف صاحب کے بیانیے کو رد کرتی نظر نہ آئے۔ شہباز شریف کا ’’بیانیہ‘‘ مگر کبھی کھل کر بیان نہیں ہوا۔ عمومی تاثر البتہ یہ ہے کہ وہ ’’نیویں نیویں‘‘ رہ کر ڈنگ ٹپانا چاہ رہے ہیں۔ ہماری ریاست کے دائمی اداروں سے درپردہ رابطوںکی کوشش کرتے ہیں اور ’’اچھے وقت‘‘ کا انتظار کررہے ہیں۔ امید بھرا انتظار ٹھوس حکمت عملی نہیں بلکہ سیاست دان کی بے بسی اور بنجرذہن کا اظہار ہوتی ہے۔ ہمارے لاہور کے شاہ حسین نے کہہ رکھا ہے کہ ’’تخت نہیں ملدے منگے‘‘۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ آپ کے فدویانہ چال چلن سے خوش ہوکر اقتدار آپ کی جھولی میں نہیں ڈالا جاتا۔ اقتدار کے حصول کے لئے ہاتھ آپ کو ہی بڑھانا ہوتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے جواں سال قائد بلاول بھٹو زرداری پہلی بار قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوکر ایوان میں آئے تو باقاعدگی سے اس کی کارروائی میں گرم جوش انداز میں حصہ لیتے رہے۔ ان کی چند تقاریر نے ایوان میں رونق بھی لگائے رکھی۔ چند ماہ بعد مگر ان کا جذبہ بھی مدہم ہوگیا۔ شہباز شریف صاحب کی طرح اب وہ بھی ایوان سے غائب رہتے ہیں۔

منتخب ایوانوں سے مایوس ہوئے سیاست دان جلسے جلوسوں کے ذریعے عوام کو متحرک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پی ڈی ایم کے انتقال پر ملال کے بعد یہ سلسلہ بھی ختم ہوچکا ہے۔ اپوزیشن کے قائدین مختلف موضوعات پر بیانات جاری کردیتے ہیں۔ ان کی جانب سے میڈیا سے رابطے رکھنے والے ان بیانات کو ٹکروں کی صورت ٹی وی سکرینوں پر دکھانے کی کاوشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ جلسے جلوسوں کا موسم نہ ہو تو سیاست دان شہر شہر جاکر اپنی جماعت کے مقامی قائدین سے تفصیلی ملاقاتوں کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ حکومت کو کونسے معاملات اٹھاتے ہوئے جوابدہی کو مجبور کیا جائے۔ مختلف شہروں کے مقامی قائدین مگر اب لاہور ،کراچی یا اسلام آباد جاکراپنے قائدین کے گھروں میں حاضری دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ کھڑے ہوکر سلفی بناتے ہیں اور اسے اخبار میں شائع کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس نوع کی سیاست کے بارے میں کیا لکھا جائے؟

1980 کی دہائی سے افغانستان ہمارا اہم ترین مسئلہ رہا ہے۔ ضیاء الحق کے بدترین جبر کے دور میں بھی سیاست دانوں کا ایک مؤثر حلقہ ان کی افغان پالیسی کا شدید ناقد رہا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جنرل ضیاء کے نامزد کردہ وزیر اعظم محمدخان جونیجو مرحوم نے بھی فوجی صدر کی خواہش کے برعکس جنیوا میں اقوام متحدہ کے سائے تلے ہوئے مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلہ کا حل ڈھونڈنا چاہا۔ جنرل ضیاء نے طیش میں آکر قومی اسمبلی کو وزیر اعظم سمیت برطرف کردیا۔ اس کے بعد سیاست دانوں نے افغانستان کا موضوع اپنے لئے ’’علاقہ غیر‘‘ بنا دیا ہے۔ وہ ’’ریڈ زون‘‘ میں داخل ہونے کی جرأت سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔

گزشتہ کئی دنوں سے ہمارے چند سرکردہ سیاست دان مطالبہ کر رہے ہیں کہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔ وہاں نام نہاد اجتماعی بصیرت کے ذریعے پاکستان کی اب بدلے ہوئے افغانستان کے حوالے سے کوئی جامع پالیسی بنائی جائے۔ یہ بیان پڑھتے ہوئے میرا پنجابی محاورے والا ’’ہاسا چھٹ‘‘ جاتا ہے۔ چند ہفتے قبل پارلیمان کے ستر کے قریب اراکین کو افغانستان کے معاملات پر بریفنگ کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نے مذکورہ بریفنگ میں اپنی صورت دکھانے کی بھی زحمت گوارا نہ کی۔ آرمی چیف سات گھنٹوں تک ان سے گفتگو میں مصروف رہے۔ عملی صحافت سے ریٹائر ہوجانے کے باوجود میں نے مذکورہ بریفنگ کی تفصیلات معلوم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ میری تحقیق کسی ایک سیاست دان کی جانب سے افغانستان کے بارے میں کسی اچھوتی بات کی دریافت میں قطعاََ ناکام رہی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ’’اجتماعی بصیرت‘‘ کی وہ کونسی گیدڑ سنگھی ہے جو ہمارے سیاست دانوں نے ایک خفیہ بریفنگ میں تو بیان نہیں کی مگر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے روبرو رکھنے کو بے چین ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments