اشرف غنی: ایک قابل ٹیکنو کریٹ، ایک کمزور سیاستدان


چند افراد، لوگوں کے ذہنوں پر نقوش چھوڑ کر تاریخ کے اوراق میں اپنے نام لکھتے ہیں۔ اس کے برعکس، بہت کم لوگ مختلف مراحل پر مختلف کاموں کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ دنیا کا دستور یہ کہ ہر ایک کے پاس اتنی صلاحیتیں نہیں ہوتی کہ وہ ایک تھیٹر مختلف کردار نبھا سکے جناب اشرف غنی ان میں سے ایک ہیں۔

اشرف غنی ضلع لوگر میں 1949 میں احمد زئی پشتون کے ایک قبیلے میں پیدا ہوئے (جن سے ڈاکٹر نجیب اللہ) بھی تعلق رکھتے تھے۔ ڈاکٹر اشرف غنی نے 1973 میں بیروت لبنان کی ایک امریکی یونیورسٹی سے بیچلر کی ڈگری حاصل کی، پھر کولمبیا یونیورسٹی نیویارک سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، بعد میں اسی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ Anthropology یعنی (علم نوع یا علم بشریات) میں مہارت کے ساتھ حاصل کی۔ اس کے بعد اشرف غنی نے کیلیفورنیا اور جانز ہاپکنز کی مشہور یونیورسٹیوں میں بطور پروفیسر خدمات انجام دیں۔

جناب اشرف غنی کی علمی کامیابیوں کا سلسلہ یہاں نہیں رکھتا۔ 1991 میں، انہوں نے عالمی بینک میں ایک معروف ماہر بشریات کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی تاکہ معاشی پروگراموں، سماجی پالیسی، حکمت عملی، اور اصلاحات کے لیے انسانی جہتوں کے شعبوں میں بینک ان کے علمی صلاحیتوں سے مستفید ہو۔

مزید براں، جناب اشرف غنی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے افغانستان کے لیے خصوصی معاون کے طور پر بھی خدمات انجام دیں، اور بون معاہدے ( 2001 ) میں شراکت کی جس نے طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد ایک نئے سیاسی نظام کی بنیاد رکھی۔ 2005 میں ڈاکٹر اشرف غنی نے ممتاز لکھاری کلیئر لاک ہارٹ کے ساتھ ریاستی تاثیر کے لیے انسٹی ٹیوٹ کی بنیاد رکھی جبکہ 2008 میں انہوں نے ایک کتاب ”فکسنگ دی فیلڈ اسٹیٹ“ کو شریک مصنف کلیئر لاک ہارٹ کے ساتھ شائع کیا جس کا موضوع معاشی ترقی، امن اور استحکام کے فروغ کے گرد گھومتا ہے۔ ڈاکٹر اشرف غنی کو 2010 میں فارن افیئرز میگزین نے ذریعہ دنیا کے 100 عالمی مفکرین میں بھی شامل کیا تھا۔

مئی 2014 میں، اشرف غنی کو برطانیہ کے پراسپیکٹ میگزین نے 2013 کے ”عالمی مفکرین“ میں دوسرا درجہ دیا۔ 2002 سے 2004 تک، اشرف اشرف غنی نے افغانستان کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے اس وقت خدمات انجام دیں جب حامد کرزئی صدر تھے۔ انہوں نے 2004 میں استعفیٰ دے دیا جس کے بعد وہ کابل یونیورسٹی سے منسلک ہوئے۔ جہاں انہوں نے 2009 تک بطور چانسلر خدمات سرانجام دیں۔

سیاسی میدان میں اشرف غنی کی پرواز کا آغاز 2009 میں ہوا۔ جب اس نے 2009 میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے افغانستان کا صدارتی انتخاب بھی لڑا اور کل ووٹوں کا صرف 4 فیصد حاصل کیا۔ بعد میں، وہ 2014 میں افغانستان کے صدر بنے اور پھر 2019 میں دوسری بار منتخب ہوئے اور 15 اگست 2021 کو استعفیٰ دے دیا اس وقت جب طالبان کابل کے دروازوں پر کھڑے تھے۔

اشرف غنی کے کوآرڈینیشن کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر تقرری کے بعد انہیں transition tsar ”ٹرانزیشن زار“ بھی کہا جاتا ہے اس کمیٹی نے ایساف/نیٹو فوجیوں سے افغان سیکیورٹی کو اقتدار کی منتقلی کی نگرانی پر توجہ دی۔

جناب اشرف غنی، بلا شبہ، ایک مصلح، ایک قابل معاشیات دان، ایک ماہر بشریات اور ایک دوراندیش دانشور ہیں۔ وہ اپنے تقریباً seven سات سالہ دور حکومت میں طالبان کی شورش، خراب معیشت اور موقع پرست اتحادیوں کی گرفت میں ہونے کے باوجود کئی حکومتی میں شعبوں میں انقلاب برپا کر افغانستان کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

اشرف غنی نے اپنے دور میں ڈیموں کی تعمیر پر بھرپور توجہ دی۔ کمال خان ڈیم کے افتتاح کے دوران اس کا کہے ہوئے الفاظ کی آج بھی گونج ہے۔ اپ نے کہا تھا کہ ”کمال خان ڈیم کا پانی قیامت کے دن میرے لیے سفارش کرے گا“ ۔ اپنے دور حکومت میں، اس نے تقریباً 600 میگاواٹ بجلی پیدا کی، بہترین بینکنگ سسٹم اور ای۔ کسٹم سروسز متعارف کروائیں، ملک میں ریل لائنیں تعمیر کیں جو کہ ایران سے منسلک تھیں، وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوا، ادارہ جاتی عمارتوں پر کام کیا، اور قابل دماغ پیدا کیے۔

افغان امور کے ایک افغان ماہر عیسی خان ایوبی نے فروری 2018 میں اشرف غنی کے پہلے دور حکومت میں الجزیرہ میں لکھا تھا کہ، ”افغانستان نے علاقائی میکانزم کو بہترین طور پر استعمال کیا ہے (جیسے جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم، باہمی تعاون اور اعتماد سازی کی کانفرنس، ایشیا میں اقدامات، ہارٹ آف ایشیا۔ استنبول پروسیس وغیرہ) اور ملک کو جنوبی اور وسطی ایشیا کے درمیان ایک اہم اقتصادی ربط کے طور پر فروغ دینا۔ اسی کے نتیجے میں آج افغانستان تجارت، ٹرانسپورٹ اور توانائی کے شعبوں میں بڑے علاقائی منصوبوں میں حصہ لے رہا ہے۔

اندرونی طور پر، وہ بیمار ذہن لوگوں میں گھرا ہوا تھا جو ہمیشہ موقع پرست فوائد کی تلاش میں رہتے تھے، بدقسمتی سے کابینہ میں ان کے بہت سے ساتھی دوسرے ممالک کے لیے پراکسی کے طور پر بھی کام کرتے تھے۔ ڈاکٹر اشرف غنی اندرونی رقابتوں، مختلف نسلی گروہوں اور قبائل پر قابو پانے سے قاصر تھا۔ اس کا غصہ، ضد اور غرور ان کی بنیادی کمزوریاں تھی جو ان کو بہا کر کے گئی۔ جو کہ ایک ایسے لیڈر کے شایان نہیں۔ جو قوم کے باپ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہا ہو۔ اس کے علاوہ کرپشن پر قابو نہ پانا بھی ان کی بطور سیاستدان کمزور پہلو تھا اگرچہ اشرف غنی کے بذات خود کرپشن میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے بہت سے سیاسی اتحادی غبن میں ملوث تھے، جسے وہ نہیں روک سکے۔

اس کے علاوہ، وہ ایک چوکس سیاسی رہنما کی حیثیت سے دور اندیشی کا فقدان رکھتے تھے ڈاکٹر اشرف غنی نے ملک کے مختلف گروہوں کے ساتھ معاہدے کیے ۔ لیکن جب مشکل وقت آیا تو انہوں نے ہی پیٹھ میں خنجر مارا اور اپ کے مشکل وقت میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے نہیں ہوئے۔ بیرونی سیاسی محاذ پر، اگرچہ وہ اپنی حکومت کے پہلے سالوں میں سفارت کاری میں کامیاب رہے۔ بدقسمتی سے، وقت کے ساتھ، اس کا بھارت کی طرف جھکاؤ اور پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی خرابی نے اس کی بیرونی خارجہ پالیسی کی ناکامی کو بڑھا دیا۔ جو کہ صدر حامد کرزئی کی پالیسیوں سے کہیں زیادہ خراب تھیں جن کے دور میں پڑوسی ریاستوں کے ساتھ اچھے پیمانے پر دوستانہ تعلقات قائم تھے۔

ایک کمزور سیاستدان ہونے کے باوجود، جناب اشرف غنی ایک اچھے مصلح، ماہر معاشیات، ماہر بشریات، اور دوراندیش رہنما ثابت ہوئے۔ ایک ٹیکنوکریٹ کی حیثیت سے افغانستان کے لیے ان کی جدوجہد، قومی تعمیر اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی، ان کی سیاسی کمزوری کو زائل کرتی ہے۔ ہم جو آج کے افغانستان کو اداروں کے لحاظ سے ایک مستحکم ملک کے طور پر دیکھ رہے ہیں وہ جناب اشرف غنی کی فکری آبیاری کی وجہ سے ہے۔ انہیں ایک قابل ٹیکنوکریٹ اور ایک کمزور سیاستدان کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments