وسعت داماں : نصیر سومرو کا پہلا شعری مجموعہ


پاکستانی مشاہیر میں ہم دو نصیر سومروں کو جانتے ہیں، ایک تو نصیر سومرو وہ ہیں جو کہ پاکستان کے سب سے لمبے انسان ہیں، اور دوسرے نصیر سومرو اگرچہ ان کی طرح طویل القامت تو نہیں لیکن سندھی اور اردو کے اچھے اور بڑے شعرا و ادیبوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ جن کے لیے قدآور کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے، اور ان کی بہت ساری خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ہمارے دوست بھی ہیں۔

وسعت داماں ان کا پہلا اور تازہ ترین اردو شعری مجموعہ ہے۔

نصیر سومرو کا مختصر طور پر تعارف یوں ہے کہ وہ 28 مارچ 1964 کو خیر سے، ہنگورجا خیرپور میں پیدا ہوئے۔ 1989 میں بی ای میٹلر جی کیا۔ 1990 سے 2000 تک پاکستان سٹیل ملز میں خدمات انجام دیں۔ ہمیں یقین ہے کہ سٹیل مل جس انجام کو پہنچی ہے اس میں ان کی خدمات کا کوئی بھی عمل دخل نہیں۔ اگرچہ بن ٹھن کر پھرتے ہیں لیکن آپ بھی ہمارے، اور بہت سارے عام صحافیوں و شاعروں، مملکت خدا داد اسلامی جمہوریہ پاکستان اور سٹیل مل ہی کی طرح مالی بحران کے شکار رہتے ہیں :

لکھتے ہو پھر چھپتے ہو حیرت سے احباب کہیں
کیسے گزارا کرتے ہو حیرت سے احباب کہیں
آمدن کا خاص ذریعہ بھی معلوم نہیں اب تک
بابو بن کر رہتے ہو حیرت سے احباب کہیں

علاوہ ازیں نصیر سومرو صاحب نے مقتدرہ سندھی زبان کی طرف سے سندھی سے نابلد افسران کے لیے سندھی زبان کی تربیت بارے منصوبے پر بھی کام کیا ہے۔ جب کہ آکسفرڈ انگلش۔ سندھی ڈکشنری میں بھی ان کی خدمات شامل ہیں۔ یہاں یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ انگریزوں کے بعد ایک انگریزی ادارے نے انگریزوں کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے کئی چھوٹی بڑی سندھی کتب، و لغات کے علاوہ ایک ضخیم اور شاندار سندھی انگریزی ڈکشنری پیش کر دی ہے لیکن مختلف متعلقہ وفاقی ادارے جنہوں نے پنجابی اردو، پشتو اردو اور بلوچی اردو لغات تو شائع کی ہیں لیکن انہوں نے سندھی زبان کو نوآبادیاتی حکمرانوں جتنی اہمیت بھی نہیں دی۔

اکثر اہم سندھی اور اردو اخبارات و رسائل میں بھی سومرو صاحب کی تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں اور سومرو صاحب زیرنظر کتاب وسعت داماں سمیت سندھی اور اردو کی متعدد نثر و نظم پر مبنی کتابوں کے مصنف یعنی صاحب کتاب ہیں۔

نصیر خوش شکل اور خوش مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ بھرپور بھرائی ہوئی آواز (انگریزی کا ”ہسکی“ کہے بغیر بات نہیں بنتی) کے مالک ہیں سو ریڈیو پاکستان کی سندھی ادبی پروگرام ”رسالو“ (بمعنی رسالہ) میں بھی صدا کاری کرتے رہے ہیں۔ 2010 میں امن کی آشا بین الاقوامی مشاعرے میں بھی اپنا کلام پیش کر چکے ہیں۔ جب کہ سی ایس ایس کے سندھی مضمون میں بطور جدید شاعر شامل ہیں، جو کہ ایک اہم ادبی اور دانشورانہ اعزاز و اعتراف ہے۔

ان کی تحریر کی سب سے بڑی خوبی معنی و مطالب کے علاوہ اختصار ٹھہرا۔ تھوڑے سے الفاظ میں بہت کچھ کہ جانا یا مختصر سی تحریر میں دفاتر معنی کا بیان ان کا خاصہ ہے۔ جب کہ کئی حضرات کی طولانی تقریر اور طوالت تحریر کے باوجود ان سب میں سے کوئی بھی مطلب برآمد نہیں ہو پاتا: مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا!

ہمارے ایک اہم سندھی شاعر اور نقاد رکھیل مورائی انہیں ”کوٹیبل ادیب و شاعر“ قرار دیتے ہیں۔ اور ہم بھی ان کی رائے سے متفق ہیں کہ وہ ایک قابل اقتباس یا مقتبس ادیب ہیں ؛ اور اسی مضمون میں دیکھ لیجیے ہم نے انہیں کوٹ نہیں بلکہ اوور کوٹ کیا ہے!

علاوہ ازیں بیک وقت دو زبانوں سندھی اور اردو میں ایک جیسا باخوبی و بامقصد کلام لکھنا بھی ان کا کمال ہے۔ ایک زبان کو وہ زبان مادر اور دوسری کو زبان شاعر قرار دیتے ہیں۔ انہیں دونوں زبانوں میں کم و بیش ایک جیسا عبور حاصل ہے، اردو خواں قارئین کو اس کا اندازہ ہماری باتوں سے نہیں ان کے اردو شاعری کے پہلے مجموعے ”وسعت داماں“ سے ہی ہو سکتا ہے۔ جو کہ حال ہی میں بلال پبلیکیشنز کراچی کی طرف سے شائع کیا گیا ہے۔

نصیر صاحب کی وسیع دامنی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس مختصر سے مجموعے میں بیک وقت ہائکو، غزلیات، قطعات اور نظموں کے علاوہ فردیات کے عنوان سے اپنی ذات کے حوالے سے بھی کئی اشعار پیش کیے ہیں۔

ان کے ہائکو پڑھیں تو کہیں لبوں سے واہ نکلتی ہے اور کہیں دل سے آہ۔
‏مثال کے طور پر:
”سردی آئے گی
ہار گلے میں بانہوں کے
شب پہنائے گی ”

اس سے اگلے ہائکو میں دہشتگردی اور تخریب کاری کا منظر صرف تین سطروں اور کچھ الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ ایسے کئی وحشت ناک مناظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں اور بے ساختہ دل سے آہ نکلتی ہے :

”وحشت کا سامان
گلیوں اور سڑکوں پر
اعضائے انسان ”
نصیر کے کلام میں چائے کے کپ پر گفتگو سے لے کر بین الاقوامی حالات پر بات کی گئی ہے۔
”دنیا ایک سرائے
کوچ کریں گے آخر
تب تک پی لیں چائے ”
یا
”آج بھی احتجاج
ظالم کے آگے کرتا ہے
عالمی سماج ”

درج ذیل ہائکو میں کتنے ہی گھروں کا ایک روزمرہ کا منظر بڑی خوبی سے پیش کیا گیا ہے، کہ بچے ماں کو چولھے کے گرد گھیرے بیٹھے ہیں اور چائے پراٹھوں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

”صبح سویرے ہاں
چائے بنائے سردی میں
آگ جلا کر ماں ”
البتہ ان کا ایک ہائکو جو کہ انہوں نے اس طرح لکھا ہے کہ، ”
باتیں ٹی سی ایس
کرتے رہیں تم کو
راتیں ٹی سی ایس
کو شاید یوں لکھنا زیادہ بہتر ہوتا:
باتیں ایس ایم ایس
کرتے ر ہیں تم کو
راتیں ایس ایم ایس
یا ایک اور ہائکو بھی ملاحظہ فرمائیے :
”بحر ذلت سے
اک دن انساں نکلیں گے
اپنی ہمت سے ”
میں بحر ذلت کے بجائے قعر مذلت زیادہ بہتر ہوتا!

اور اگر آپ گاؤں دیہات سے ہیں تو یہ ہائکو آپ کو اپنا بچپن یاد دلا سکتا ہے، کہ کسی تالاب، چشمے یا ندی کے کنارے پر آپ کبھی ٹیڈ پولز کو مچھلیاں سمجھ کر پکڑ کر خوشی سے نہال ہوئے ہوں۔ اور مینڈکوں کا تماشا کرتے ہوئے شاید آپ نے دیکھا ہو کہ کوئی مینڈک آپ کو دیکھ کر اچانک ہی پھدک کر کائی زدہ یا خس آلود تالاب میں کود گیا۔

”چاہ خس پوش میں
چھلانگ لگائی مینڈک نے
بول پڑی چھینٹیں ”
نصیر کی غزلیں بھی سادہ اور آسان فہم ہیں، اور ان کا خوف بھی:
سبب نیم روشن گلی تھی نصیر
کہ مدت سے سائے ڈراتے رہے
یہاں آپ چاہیں تو شاعر سے گلی کے نیم روشن یا نیم تاریک ہونے کے سلسلے میں بحث کر سکتے ہیں۔

شاعر اور حسن پرستی ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ اور شاعر حسن سے سیراب ہی نہیں ہو پاتا، سراب حسن ہو یا شراب حسن، تشنگی ہے کہ ختم ہو کے نہیں دیتی۔ لیکن کبھی کبھی کوئی چہرہ ایسا بھی نظر آ جاتا ہے کہ:

ایک تو ایسا چہرہ دیکھا
گویا سارے چہرے دیکھے

یہ بھی ضرور نہیں کہ آپ کسی شاعر کی ہر بات سے ہی متفق ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عاشقی سلامت تو دلبری کم نہیں ہوتی۔ سو ہماری پسندیدہ غزل میں سے یہ شعر ایسا ہے کہ ہم اس کو غلط سمجھتے ہیں :

ہم نہیں رہے عاشق الزام کیوں
دلبری کو کیا ہوا ویسی نہیں
نصیر ایک بسیار نویس ادیب و شاعر ہیں، کہتے ہیں :
”میرے شانوں پہ سوار فرشتے اب نالاں ہیں
لکھتے لکھتے تھک گئے پر میں نہ تھکا حیراں ہیں ”
ہمیں امید ہے کہ ان کے قاری ان سے نالاں نہ ہوں گے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments