آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں


دیر کے نوجوان حسن خان پولیس گردی کا شکار ہوا۔ راولپنڈی پولیس نے تھانے میں بچے پر بے پناہ تشدد کر کے مار کے تشدد زدہ لاش کو والدین کے حوالے کر دیا۔ اس کے خلاف احتجاج ہوا اور یقین دہانی کرائی گئی کہ اس واقعے میں ملوث پولیس اہل کاروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی لیکن ستم یہ ہے کہ تاحال کوئی کارروائی تو دور کی بات پولیس نے اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کی خاطر پورے کیس کا حلیہ بگاڑ رکھا ہے۔ بچے کے بوڑھے والدین در در کی خاک چھان رہے ہیں لیکن انصاف کی دعویدار حکومت میں کوئی شنوائی کرنے والا ہے ہی نہیں۔ یہاں کے منتخب ممبران اسمبلی مگر مچھ کے آنسو بہا کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایکٹنگ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اب تو باقاعدہ ان کی کردار اور دوغلے پن پہ انگلیاں اٹھائیں جاری ہیں۔

اس کرب ناک واقعے پر دیر کی فضا سوگوار ہے اور شدید اضطراب اور اشتعال پایا جاتا ہے جس کا اظہار سوشل میڈیا پہ بڑے پیمانے پر نظر آ رہا ہے۔

یہ سراسر ظلم ہے، فسطائیت ہے، فاشزم ہے اور درحقیقت دہشتگردی گردی ہے جو سرکاری وردی پہن کے کی جا رہی ہے۔ یہ کربناک واقعات کا ایک تسلسل ہے۔

پچھلے سال سیالکوٹ میں ایک ذہنی مریض جوان کو اے ٹی ایم مشین کو اکھاڑنے کی کوشش پر گرفتار کر کے تھانہ لے جایا گیا جہاں سے ان کی مردہ لاش کو غریب والدین کے حوالہ کیا گیا جس کے انگ انگ پر بدترین تشدد کے نشانات بالکل واضح تھے۔

یہ گونج تو اب بھی سنائی دیتی ہے کہ
”تسی مارنا کیتھوں سکھیا اے“
سانحہ ساہیوال تو بھلانے والا واقعہ ہے ہی نہیں کہ جب ” 19 جنوری کو دن دیہاڑے ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر (کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ) سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے کار میں سوار ایک ہی خاندان کی 2 خواتین سمیت 4 افراد کو بچوں کے سامنے گولیوں سے بھون ڈالا تھا۔

جس پر وزیراعظم عمران خان نے غم و غصے کا اظہار کر کے قطر سے واپسی پر مکمل تحقیقات اور ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی اور محکمہ پولیس میں اصلاحات لانے کا اعلان کیا تھا جو تاحال منوں مٹی تلے دبا ہی ہے۔

اسی سال پشاور میں ایک نوجوان عامر تہکالے کو نشے کی حالت میں پولیس کو گالیاں نکالنے پر تھانہ لے جایا گیا جہاں ان کو برہنہ کر کے نہ صرف بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ ان کی تذلیل اور تحقیر کر کے ویڈیو بنا کر وائرل بھی کرائی گئی۔

چند مہینے پہلے جانی خیل میں چار بچوں کو لاپتہ کیا گیا اور کئی دن بعد چرواہے کے کتے نے تشدد زدہ اور مسخ شدہ لاشوں کو زمین سے نکالا جس پر مغموم، مجبور، دل گرفتہ اور بیچاری ماں کو یہ کہنا پڑا کہ ”حکومت سے تو چرواہے کا کتا اچھا ہے کہ جس نے میرے بچوں کا سراغ تو لگایا۔

اس ملک میں نہ آئین کا خیال ہے اور نہ قانون کا لحاظ، بس جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق والا معاملہ ہے اور حقیقتاً اندھیر نگری چوپٹ راج ہے۔ نہ کسی کی جان و مال محفوظ ہے اور نہ عزت و آبرو۔

خان صاحب،

ریاست مدینہ میں نہ لاقانونیت تھی اور نہ بدمعاشی و غنڈہ گردی۔ نہ اداروں کی کھلی دہشت گردی تھی اور نہ قانون کی بے بسی۔ نہ طاقت کا نشہ تھا اور نہ اختیارات کا ناجائز استعمال۔ جو جتنا بڑا تھا وہ اتنا ہی قانون کے سامنے بے بس اور تابعدار تھا۔

خدارا،

کچھ تو اپنے وعدوں، دعووں اور نعروں کا لحاظ کیجئے۔ کوئی ادارہ ہے، کوئی فرد ہے اسے لگام دینے کا طریقہ یہی ہے کہ اسے کٹہرے میں لاکر قانون کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرا لیجیے۔ عدل و انصاف کو یقینی بنا لیں پھر دیکھئے کہ کوئی کتنا بڑا کیوں نہیں وہ بے بس ہے اور ناک رگڑنے پر مجبور ہے۔

بسم اللہ کیجئے۔

اصلاحات اور اقدامات کر کے تاریخ میں امر ہوجائیں گے لیکن ایسا کرنے کے لئے بڑھکوں کی نہیں بلکہ ویژن، ہمت، عزم، استقامت اور اہلیت کی ضرورت ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments