طوطخ امن کی بہنیں


ڈیوڈ نے کمرے میں آ کر بتایا کہ خلیے جاگ گئے ہیں اس کا چہرہ دمک رہا تھا، سانس پھولی ہوئی تھی، بجائے فون کرنے کے وہ تجربہ گاہ سے خود بھاگتا ہوا میرے کمرے میں آ گیا تھا۔

خلیوں کے جاگنے کی خبر سنتے ہی میں اس کے ساتھ روانہ ہو گیا تھا۔ خبر ہی ایسی تھی کہ میں خود کو جانے سے روک نہیں سکا تھا۔ لیبارٹری میں مکمل خاموشی تھی۔ نیلی روشنی میں لز اور آمنہ ساتھ ہی کھڑ ہوئے انکیوبیٹر میں آنکھوں سے مائیکرو اسکوپ لگا کے زندہ خلیوں کو دیکھ رہے تھے۔ ہزاروں سال سے مرا ہوا یا سویا ہوا خلیہ جاگ چکا تھا۔ آخر کار ہماری محنت رنگ لائی تھی۔ کامیابی نے ہمارا دامن پکڑ لیا تھا۔ ایسی کامیابی جس کے خواب سینکڑوں سائنسدان دیکھ رہے تھے، اپنی اپنی تجربہ گاہوں میں مردہ خلیوں پر تجربے کر رہے تھے کہ انہیں جگائیں، اس دنیا میں لے کر آئیں، دوبارہ سے انہیں زندہ کردیں۔

ہوا یہ تھا کہ قاہرہ پہنچ کر مجھے پتہ چلا کہ یہاں ویسے تو بہت سارے میوزیم ہیں مگر تین بڑے میوزیم ضرور دیکھنے چاہئیں۔ ایک تو مسلمانوں کا میوزیم ہے جہاں مختلف مسلمان ادوار کی ہزار ہا دیکھنے کی چیزیں ہیں۔ دوسرا بڑا میوزیم عیسائیوں کا میوزیم ہے جسے کوپٹک میوزیم کہا جاتا ہے جہاں مصر میں رہنے والے اور دنیا بھر میں کوپٹک فرقے سے تعلق رکھنے والے عیسائیوں کے نوادرات کو بہت عمدہ طریقے سے نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔ ایک اور بڑا میوزیم ہے جہاں فراعین مصر کے تاریخ کو شیلفون، الماریوں، ٹیبلوں، بینچوں، شو کیسوں میں سجا دیا گیا ہے۔

پہلے تو میں نے مسلمانوں کے میوزیم کا دورہ کیا اور صلاح الدین ایوبی کی تلوار سے لے کر امام حسین کے خون آلود کپڑوں کو دیکھا اور سوچتا رہا کہ تاریخ کتنی خطرناک چیز ہے، ذہنوں کو ہلا دیتی ہے، ایسے سوال جنم دیتی ہے کہ انسان سوچتا ہی رہتا ہے۔ جب تاریخ بنی جاتی ہے، جب واقع ہو رہا ہوتا ہے تو پتہ نہیں ہوتا کہ کئی نسلوں کے کے بعد یہ واقع بھی کسی ٹیبل، کسی شیلف، کسی الماری میں سجا دیا جائے گا۔ کسی شہید کے خون آلود کپڑوں کی نمائش ہوگی، کسی غاصب کی ٹوٹی ہوئی تلوار کی کہانی ہوگی، کسی ظالم حکمراں کے ظلم کے داستانوں کو الماریوں میں رکھ کر عزت دی جائے گی۔ ان حکمران شہیدوں، غازیوں، ان کے سپاہیوں، بیویوں اور کنیزوں نے اپنی زندگی میں سوچا بھی نہیں ہو گا کہ صدیوں بعد ان کے بارے میں کہانیاں گھڑی جائیں گی۔ تاریخ بھی کیا ظالم چیز ہے۔

کوپٹک عیسائیوں کے میوزیم میں بھی ایک سے ایک بڑھ کر چیزیں رکھی ہوئی تھیں۔ بائبل کے کئی نسخے تھے جو نہ جانے کن کن لوگوں نے کہاں کہاں سے حاصل کیے تھے اور انہیں ایک بہت بڑے کمرے میں سجا دیا گیا تھا۔ اصلی بائبل، نقلی بائبل، تحریف شدہ غیر تحریف شدہ آسمانی کتابوں میں بھی لوگ اپنی مرضی سے رد و بدل کر دیتے تھے، کر دیتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اپنے مقصد کے حصول کے لیے کبھی خدا کے نام پر، پیغمبروں کے نام پر اور کھیلتے رہیں گے ان غریب لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ جو عقیدے کے نام پر ایمان کے تحفظ کے لیے جان دے دیتے ہیں۔

بائبل کے پرانے پرانے نسخوں کو میں دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ نہ جانے کن کن لوگوں نے ان کتابوں کو پڑھا ہوگا، چوما ہوگا، اپنے سروں پر رکھا ہوگا، آنکھوں سے لگایا ہوگا۔ یہ سوچتے سوچتے مجھے خیال آیا تھا کہ ان پرانی عیسائیت کی کتابوں کے ہر صفحے پر مختلف پڑھنے والوں کے جسموں سے جھڑے ہوئے خلیے موجود ہوں گے۔ ان خلیوں کو اگر برش سے جمع کیا جائے اور ان کا جینیاتی مطالعہ کیا جائے تو بہت سی معلومات جمع ہو سکتی ہیں جن پر سائنسی رسالوں میں مضامین لکھے جا سکتے ہیں۔ میوزیم میں گھومتے ہوئے اور چیزوں کو دیکھتے ہوئے اس قسم کے بے شمار خیالات ذہن میں آتے جاتے رہتے، انسان کا ذہن بھی کیا چیز ہے، کسی چیز کے بارے میں سوچنا شروع کرے تو وہ خود تو بھول جاتا ہے کہ وہ کیا سوچ رہا تھا لیکن ذہن اس کے بارے میں مسلسل سوچتا رہتا ہے۔ ذہن بھی کیا عجیب و غریب چیز ہے۔

اگلے دن میں فراعین کے میوزیم میں گھومتا ہوا اس نمائشی کمرے میں چلا گیا جہاں فرعون مصر طوطخ امن اور اس کے اہرام سے نکلی ہوئی چیزوں کی نمائش ہو رہی تھی۔ طوطخ امن کا جسم اپنے سونے کے نقاب کے ساتھ بڑی رعونت اور شان کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ طوطخ امن کے سرہانے دائیں بائیں اور پیروں کے پاس اس کے رشتہ داروں، غلاموں، کنیزوں اور جانوروں کے جسم بھی رکھے گئے تھے۔ کمرے کے مختلف حصوں میں روشنی اور نیم اندھیرا تھا۔ نہ جانے میرے ذہن میں کیا آیا کہ میں نے اپنے بہت چھوٹے کریدنے والے سلائی جیسے چاقو کو انتہائی خاموشی اور چالاکی سے طوطخ امن کی ایک بہن کے جسم میں داخل کر کے گوشت کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نکال لیا تھا اور ایسا کرتے ہوئے کوئی بھی محافظ مجھے نہیں دیکھ سکا تھا۔ دل تو میرا چاہا کہ میں طوطخ امن کے جسم سے ایک گوشت کا ٹکڑا نکالوں مگراس کے چاروں طرف بہت روشنی تھی اور بہت سارے محافظ بھی۔

اسی گوشت کے ننھے سے ٹکڑے سے خلیوں کو نکال کر مختلف کیمیائی عمل سے گزار کر ایک خاص قسم کی پلیٹ میں ڈال کر جب کرنٹ گزارا گیا تو امید تھی کہ خلیے جاگ جائیں گے اور ان میں زندگی کی علامات نظر آنے لگے گی مگر کئی کئی دن تک مختلف قسم کے تجربات کے باوجود کچھ بھی نہیں ہوا تھا اور ہم سب تقریباً مایوس ہو گئے تھے۔

مگر اس دن ڈیوڈ نے بالکل نئے طریقوں سے کام لیتے ہوئے بجلی کی وولٹیج کو کم کر کے جیسے ہی کرنٹ دیا ویسے ہی خلیوں میں جان پڑ گئی تھی۔ ڈیوڈ کی تقریباً چیخ نکل گئی تھی اور فوراً ہی اس نے پانچ پلیٹوں میں پڑے ہوئے مردہ خلیوں میں نئے طریقے سے کرنٹ لگایا تو چار مزید خلیے جاگ گئے تھے۔ ہزاروں سال پہلے مرجانے والے خلیوں میں جان پڑ گئی تو وہ دوڑتا ہوا اپنے سرخ چہرے کے ساتھ میرے دفتر میں آیا تھا اور میں بھی فوراً ہی اس کے ساتھ دوڑتا ہوا لیبارٹری میں جا پہنچا تھا۔ تھوڑے سے اس فاصلے کو طے کرنے کے دوران میں آگے کا عجیب و غریب منصوبہ میرے ذہن میں آ گیا تھا۔

لیبارٹری میں ہی میں نے لز اور آمنہ کے ساتھ ہنگامی میٹنگ کی تھی اور پچھلے بنائے ہوئے منصوبے پر دوبارہ سے بات چیت ہوئی تھی۔ ہم لوگ اس بات پر متفق ہوئے تھے کہ طوطخ امن کی بہن کے جاگے ہوئے خلیوں کو کلون کر کے ہزاروں سال پرانی اس لڑکی کو دوبارہ پیدا کیا جائے۔ تجربہ گاہ میں ہزاروں سال سے مری ہوئی طوطخ امن کے بہن کی اس کے اپنے خلیوں سے دوبارہ تشکیل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ زندہ انسانوں، جانوروں اور پرندوں کو تو کلون کرنا اتنا مشکل نہیں ہے مگر مرے ہوئے ہزاروں سال پرانے خلیوں کو جگانے کی بہت کوشش ہو رہی تھی اور اب تک کامیابی نہیں ہو سکی تھی مگر نہ جانے کیوں بحیثیت سائنسدان اور کلوننگ کی دنیا میں کام کرتے ہوئے مجھے پورا یقین تھا کہ یہ کام ہو جائے گا۔

موت کو انسان آہستہ آہستہ پیچھے دھکیلتا جا رہا ہے، کلوننگ سے ناپید ہونے والے جانوروں کو دوبارہ سے دھرتی پہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، کیوں نہ طوطخ امن کی بہن کو بھی اٹھایا جائے۔ انسان کے ہر ایک خلیے میں اس انسان کی پوری داستان محفوظ ہوتی ہے۔ ہر خلیے میں موجود جینیاتی معلومات ہوتی ہیں، سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کی انگلیوں کی بناوٹ، آنکھوں کے رنگ سے لے کر جسم کی لمبائی تک اور آنے والے دنوں میں سرطان کی بیماری سے لے کر مستقبل میں ہونے والی ذہنی بیماریوں تک کی تفصیلات ایک خاص طریقے سے لکھی ہوتی ہیں۔ آج کی سائنس کی دنیا میں یہ ممکن ہے کہ جسم کے کسی بھی خلیے سے جینیاتی عناصر کو جدا کر کے ایک مکمل انسان پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اب میرے سامنے طوطخ امن کی خادمہ کے جسم سے نکلے ہوئے خلیے جاگ گئے تھے، ہزاروں سال پہلے مرنے والی یا ماری جانے والی لڑکی کے خلیے زندہ ہو گئے تھے۔

میں نے ڈیوڈ کو مبارک باد دی اور سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ طوطخ امن کی خادمہ کو دوبارہ سے پیدا کرنے کے عمل کو شروع کیا جائے۔

مصر سے آنے کے بعد جب میں نے اس کام کا آغاز کیا تو اس وقت لز اور آمنہ نے سات مختلف عورتوں کو جو اپنے انڈے فروخت کرنا چاہتی تھیں کو ماہواری کے فوراً بعد ایک خاص دوا دی تھی تاکہ وہ اگلی ماہواری سے قبل ایک سے زائد انڈے بنائیں۔ سات لڑکیوں کو دوا دی گئی تھی مگر کامیابی صرف چار لڑکیوں میں ہوئی۔ ماہواری کے چودہ دنوں کے بعد ان لڑکیوں کے جسم سے ایک بہت باریک سوئی کے ذریعے انڈے نکال لیے گئے اور نائٹروجن گیس کو محلول میں تبدیل کر کے ٹھنڈک پیدا کی گئی تھی اور وہاں پر بائیس منفی ڈگری فارن ہائیٹ پر ان انڈوں کو محفوظ کر لیا گیا تھا۔

ہمارے پاس اس وقت ستائیس انڈے محفوظ تھے۔ جن لڑکیوں سے انڈے لیے گئے تھے انہیں طے شدہ معاہدہ کے تحت رقم ادا کی گئی، جس کے تحت ان انڈوں پر ان کی حق ملکیت ختم ہو گئی تھی اور انہوں نے رازداری کے معاہدے پر بھی دستخط کیے تھے کہ وہ کسی سے بھی کبھی بھی اس عمل کے بارے میں کوئی بات نہیں کریں گی۔ یہ کام بہت رازداری سے پورا ہو گیا تھا۔

یہ سب کچھ اس لیے ضروری تھا کہ یہ کام بنیادی طور پر ملکی قوانین کے خلاف تھا۔ سرکار یا کوئی بھی شہری ہمارے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کر سکتا تھا۔ اسی لیے اس پروجیکٹ کے آغاز سے ہی میں نے پروجیکٹ میں شامل تمام لوگوں سے رازداری کے قانونی معاہدے کیے ہوئے تھے۔

لز نے بتایا کہ ہمارے پاس ایسی لڑکیوں کے پتے موجود ہیں جو اپنی بچہ دانی کرائے پر دینے کو تیار تھیں۔ لز کی ہی چنی ہوئی دو لڑکیوں کو بلایا گیا اور انہیں بتایا گیا تھا کہ ان کی ماہواری کے سولہ، سترہ دنوں کے بعد ان کی بچہ دانی میں بچہ رکھ دیا جائے گا، جنہیں انہیں نو مہینوں تک کرائے پر رکھنا ہوگا۔ اس نو مہینوں میں ہونے والے کسی بھی صحت کے مسئلے کے علاج کی ذمہ داری ہماری تھی۔ حمل کے دوران ان کی دیکھ بھال اور زچگی کے تمام اخراجات بھی ہمارے ذمے تھے۔ ان دونوں لڑکیوں کو اس کام کے لیے پندرہ ہزار ڈالر دیے جانے تھے۔ حمل کے ضائع ہونے کی صورت میں بھی ان کو ادائیگی کرنی تھی۔

میں نے ڈیوڈ کو ہدایت دی تھی کہ طوطخ امن کی خادمہ کے خلیوں کی تیاری اس طرح سے شروع کی جائے کہ 13 دنوں کے بعد انہیں ان انڈوں میں ڈالا جائے جنہیں نائٹروجن میں محفوظ کیا گیا ہے۔

تیرہویں دن کی صبح کو محفوظ شدہ انڈوں میں سے 12 انڈے نکال لئے گئے اور انہیں عام درجہ حرارت پر لایا گیا۔ پھر بہت ہی باریک ٹیوب کے ذریعے سے ان انڈوں کے اندر موجود جینیاتی عناصر کو نکال کر ضائع کر دیا گیا جس کے بعد ان انڈوں میں طوطخ امن کی خادمہ کے جاگے ہوئے جنیاتی عناصر کو ڈال دیا گیا تھا۔ یہ کچھ اس طرح کا عمل تھا جیسے مرغی کے انڈوں سے زردی نکال لی جائے۔

ہمارے دیکھتے دیکھتے ایک معمولی سے برقی جھٹکے سے بارہ کے بارہ خلیوں نے انتہائی پیچیدہ تولیدی عمل شروع کر دیا تھا، ہم سب کی چیخیں ایک ساتھ ہی نکل گئی تھیں۔ ہمارے پروجیکٹ کے ابتدائی مراحل میں یہ کامیابی ایک بڑی کامیابی تھی۔ طوطخ امن کی ہزاروں سال پہلے مری ہوئی خادمہ کے کئی خلیے ایک ساتھ دوبارہ سے جنم لے چکے تھے۔ چار دن میں ہر ایک خلیے نے اپنے تخلیقی عمل کو پروان چڑھانا تھا اور تقریباً چار سو ایسے خلیے بنانے تھے جو اپنے اندر چھپی ہوئی معلومات کی بنیاد پر مکمل انسان بننے تھے۔

دوسرے دن ہی ہماری تجربہ گاہ میں ایسا کام ہو رہا تھا جس کی مثال طب کی دنیا میں موجود نہیں تھی۔ مجھے پتہ تھا کہ اور بھی تجربہ گاہوں میں انسانی اور حیوانی جینیات پر تجربے کیے جا رہے ہیں مگر شاید انسانوں پر ہم لوگوں نے ہی کام شروع کیا تھا۔ یہ تو سب کو ہی پتہ تھا کہ کئی ملکوں میں جانوروں کے اوپر مختلف تجربات کیے گئے ہیں، خاص طور پر تیز سے تیزرفتار گھوڑے بنانے کی کوششوں میں مختلف قسم کے گھوڑوں اور گھوڑیوں کے جینیاتی مواد پر بہت سارے تجرباتی عوامل کے بعد بہت ہی عمدہ گھوڑے بنا لیے گئے ہیں مگر انسانوں میں شاید یہ پہلا کام تھا، جہاں ہم لوگوں نے ہزاروں سال پرانے خلیوں کو جگایا تھا۔

یہ سارا کام انتہائی خفیہ طریقوں سے کیا جا رہا تھا کیونکہ دنیا کے قوانین کے مطابق یہ کام قانونی طور پر جائز نہیں تھا۔ گو کہ میں نے تجربہ گاہ میں کام کرنے والے افراد سے مکمل رازداری کے معاہدوں پر دستخط کرا لیے تھے لیکن ان معاہدوں سے زیادہ آپس میں اعتماد اور ذمہ داری زیادہ اہم چیز تھی۔

لز نے افریقی خاندان سے تعلق رکھنے والی دو خواتین کو بلا لیا، ہمارا خیال تھا کہ طوطخ امن اور اس کی خادمہ کا تعلق ہزاروں سال پہلے بھی افریقی خاندان سے تھا اور ابھی بھی یہی مناسب ہوگا کہ افریقی عورتوں کے بچہ دانیوں کو کرائے پر لیا جائے۔ ہم لوگوں نے ایک بڑا کام شروع کر دیا تھا اور مستقبل میں ہونے والی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے تیار بھی تھے اور کامیابی کی امید بھی رکھتے تھے۔

دوسرے اور تیسرے دنوں کے اندر خلیوں کی تقسیم کے عمل میں چار خلیے ساٹھ اور اسی بن کر ختم ہو گئے تھے۔ پانچویں دن ہم لوگ اس قابل ہو گئے تھے کہ چار چار نشوونما ہوتے ہوئے انسانوں کو بچہ دانیوں میں منتقل کریں۔ اس قسم کے عمل میں ہمیشہ زیادہ خلیے منتقل کیے جاتے ہیں کیونکہ تخلیق کے ابتدائی مرحلوں میں ان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ توقع کے مطابق ٹریسا نام کی لڑکی کے پہلے آٹھ ہفتوں کے حمل میں تین بچے ایک کے بعد ایک کر کے بچہ دانی میں ہی مر گئے تھے جبکہ جیوانا نام کی لڑکی میں گیارہویں ہفتے میں دو بچے ختم ہو گئے تھے۔

مجھے پوری امید تھی کہ پانچ ہونے والے بچوں کی قربانی کے بعد حمل کا عمل اپنے اختتام تک پہنچ جائے گا اور ہم لوگ تین صحت مند لڑکیوں کو پیدا کر لیں گے۔ فطرت بھی یہی کرتی ہے دنیا میں کروڑوں عورتیں ہر ماہ حاملہ ہوتی ہیں، انہیں پتہ بھی نہیں چلتا ہے کہ وہ حاملہ ہیں اور ان کا حمل ضائع ہوجاتا ہے اس لیے کہ وہ حمل زندگی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ یہی فطرت کا تقاضا ہے، زندگی کے اصول ہیں۔ زندہ وہی رہتا ہے جو سخت جان ہوتا ہے جس کے جینین میں ایسی خرابی نہیں ہوتی ہے کہ وہ زندگی کا ساتھ ہی نہ دے سکے۔

ٹریسا اور جیوانا صحت مند لڑکیاں تھیں جنہیں حمل کے دوران بہترین سہولتیں مہیا کی جا رہی تھیں۔ ان کی غذائیت سے لے کر دواؤں تک کا بہترین اہتمام تھا۔ ان کی ضرورت سے زیادہ اور معاہدے سے ہٹ کر مزید معاوضہ دیا جا رہا تھا تاکہ وہ ذہنی اور نفسیاتی طور پر آسودہ رہیں۔ ہماری نظروں کے سامنے ہمارا تجربہ کامیاب ہونے جا رہا تھا اور عنقریب ہم تین ایسی لڑکیوں کو جنم دینے والے تھے جن کا تعلق مصر کے مشہور و معروف بادشاہ طوطخ امن کی خادمہ سے تھا۔ ایک ایسی خادمہ جس کے مرنے کے کئی ہزار سال کے بعد اس کے خلیوں کو جگا کر کلوننگ کے طریقہ کار سے انسانی جانوں کو جنم دینے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ وہ انسانی جان جو فنا ہو چکی تھی جس کے حنوط شدہ جسم سے ایک خلیے کو جگا کر دوبارہ سے اسی انسان کو تخلیق کیا جا رہا تھا۔

نویں مہینے کی ابتداء میں ہی جیوانا میں زچگی کا عمل شروع ہو گیا تھا اور دو صحت مند لڑکیاں پیدا ہو گئی تھیں۔

ٹریسا میں زچگی کا عمل جیوانا کی زچگی کے تین ہفتوں کے بعد شروع ہوا۔ ان لڑکیوں کے نام ہم لوگوں نے قدیم مصری شہزادیوں اور دیویوں کے نام پر رکھے تھے، ”حی پت“ ، ”کی سس“ اور ”زونت“ کے نام کا انتخاب لز اور آمنہ نے مل کر کیا تھا۔

ادھر تینوں بچیاں آمنہ اور لز کے زیرنگرانی ان کے گھروں میں آیاوں کی نگہداشت میں پل رہی تھیں، دوسری جانب ایک خبر میری دلچسپی کا مرکز بن گئی اخباروں میں خبر تھی کہ طوطخ امن کے جسم کو خصوصی طور پر پیرس کے ایک ہسپتال میں لایا جا رہا ہے جہاں اس کے مردہ جسم کا سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی کیا جائے گا اور وہاں کی تجربہ گاہ میں کچھ دوسرے تجربات بھی کیے جائیں گے۔

دنیا کی تاریخ میں پہلی دفعہ ماضی کے ایک بادشاہ کے مردہ جسم کا پاسپورٹ بنایا گیا جسے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے پیرس کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر فرانس کے صدر نے وصول کیا۔ بادشاہ کے مردہ جسم کو فرانس کے شہریوں کی طرف سے فوجیوں نے سلامی پیش کی تھی اور مردہ بادشاہ کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ پیرس کے سب سے بڑے اور جدید ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

میں مستقل طور پر پیرس کے اس ہسپتال میں ذمے دار لوگوں سے رابطے میں آ گیا تھا۔ میری دلچسپی یہ تھی کہ اگر طوطخ امن کے جسم کے ایک خلیے کا مشاہدہ کر کے اس کا جینیاتی فارمولہ لکھ لیا جائے تو اس سے مستقبل میں مزید تحقیقات کے دروازے کھل جائیں گے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی سے پہلے طوطخ امن کے جسم کے مختلف حصوں سے خلیے نکال لیے گئے ہیں اور ان پر کام کیا جا رہا ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ ان کے خلیے کے ذریعے سے ان کے بدن کا فارمولہ نکال لیا جائے۔

یہ میرے لیے بہت اہم اور دلچسپ خبر تھی۔ پیرس میں موجود سائنسدانوں کو اندازہ نہیں تھا کہ میں طوطخ امن کے جسم اور اس پر ہونے والی تحقیقات میں اتنی زیادہ دلچسپی کیوں لے رہا ہوں۔ مجھے خود بھی صحیح معنوں میں پتہ نہیں تھا کہ ان تحقیقات کا کیا فائدہ ہوگا۔ مگر میرے اندر ایک خاص قسم کا تجسس تھا جو مجھے طوطخ امن کے بارے میں ساری معلومات جاننے کا تقاضا کر رہا تھا۔

حی پت، کے سس اور زونت اپنے بچپنے کے مراحل تیزی سے طے کر رہی تھیں، ان میں ان بچوں کی تمام معصومیت اور شرارت موجود تھی جو عام بچوں میں ہوتی ہے۔ ان تینوں بچیوں کی تمام جنیاتی تحقیقات مکمل ہو گئی تھی، ان بچیوں کے منہ کی ہڈیوں کی بناوٹ سے ہمارے تجربہ گاہ کے فنکاروں نے زندگی کے مختلف حصوں میں ان کی ہونے والی شکل و شباہت بنالی تھی اور اندازہ ہوتا تھا کہ ان کی شکلیں مصر کے دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں سے ملتی جلتی تھیں۔ میں ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ اپنی تجربہ گاہ میں ہونے والے اس عظیم سائنسی کارنامے کو کب منظر عام پر لے کے آؤں۔ کسی سائنسی جریدے میں اس پورے تجربے کے بارے میں لکھ کر بھیجوں لیکن کسی ان دیکھے خوف نے مجھے اندر سے پریشان کیا ہوا تھا۔ ایسا ہوگا مجھے اندازہ نہیں تھا۔

تھوڑے ہی دنوں کے بعد مجھے پیرس سے ایک پیکٹ وصول ہوا تھا، میرے دوست ڈاکٹر لی ژان بوویان نے طوطخ امن پر کی جانے والی مختلف ٹیسٹ کا خلاصہ بھیجا تھا۔ ساتھ میں اس کے جسم کا جینیاتی فارمولہ بھی موجود تھا۔ میں نے فوراً ہی اس جینیاتی فارمولے کو حی یت، کے سس اور زونت کے جینیاتی فارمولوں سے ملایا تو میں حیران ہو گیا، مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ یہ تینوں بچیاں طوطخ امن کی خادمہ نہیں بلکہ بہنیں تھیں۔

میں نے طوطخ امن کے اہرام سے نکلی ہوئی چیزوں کو دوبارہ دیکھا، بار بار طوطخ کے اہرام کے کونے میں پڑی ہوئی خادمہ کی حنوط شدہ لاش کے ساتھ ملنے والی دستاویزات کے ترجمے پڑھے۔ طوطخ کے خاندان اور خاندان کے افراد کی تفصیلات پڑھیں۔ شاہی دستاویزات میں طوطخ امن کی اس بہن کے بارے میں پڑھا جس سے اس کی شادی ہوئی تھی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں مرجانے والے شہنشاہ کی کہانی پڑی۔ اس فرعون کی کہانی جو اپنی بہنوں کو بیچتے نہیں تھے، ان سے شادی کرتے تھے، انہیں اپنے برابر کا درجہ دے کر اپنے مرنے کے بعد انہیں اپنے اہرام میں جگہ دیتے تھے۔

اسی فرعون، اسی طوطخ امن کی تین بہنیں میرے پاس تھیں۔ نہ جانے کیوں میں ڈر گیا تھا۔ میں سوچتا رہا، اپنے عملے کے ساتھ بیٹھ بیٹھ کر بار بار مسئلے کو سمجھنا اور سمجھانا چاہا۔ وہ تینوں بچیاں تو بالکل عام بچیوں کی طرح تھیں، ہنستی تھیں، کھیلتی تھیں، دوڑتی تھیں، گرتی تھیں، زخمی ہو کر روتی تھیں، اسی معصومیت کے ساتھ جو بچوں میں ہوتی ہے۔ انہیں نہیں پتہ تھا کہ وہ طوطخ امن کی بہن ہیں، مصری قلوپطرہ ہیں۔ ان کے بارے میں جب چھپے گا تو ساری دنیا کی توجہ ان پر ہوگی۔ انہیں ہزاروں سال پرانی کہانی سمجھا جائے گا۔ میں انہیں جدید دنیا میں لانے کا ذمہ دار تھا لیکن انہیں اس جدید دنیا میں قدیم بنا کر نہیں رکھ سکتا تھا۔ ان کی معصومیت کا مذاق کیسے اڑاتا، نہیں یہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیبارٹری کے سارے کارکن میری بات سے متفق تھے۔

دوسرے دن خاموشی کے ساتھ میں نے ان تینوں بچیوں کو اڈاپشن کرانے والے ادارے کے حوالے کر دیا تھا، مجھے تھوڑے دنوں بعد بتایا گیا تھا کہ ان تینوں بچیوں کو تین گورے جوڑوں نے اپنا لیا ہے۔

مجھے ریٹائر ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں، وہ تینوں بچیاں جوان ہو گئی ہوں گی۔ میں ابھی بھی کسی گورے جوڑے کو کسی مصری شکل و صورت رکھنے والی سیاہ فام لڑکیوں کے ساتھ دیکھتا ہوں تو مجھے طوطخ امن کی بہنوں کا خیال آ جاتا ہے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments