کابل کو درپیش 11 چیلنجز


مسلح جنگ جیتنا ریاست پر حکمرانی کرنے سے مختلف ہے۔ افغانستان کے بیشتر حصوں پر قبضے کے بعد طالبان کو مستقبل میں بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان کی اصل آزمائش اب شروع ہو چکی ہے کہ وہ کس طرح اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں اور کیسے ان پر قابو پاتے ہیں۔

تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ حکومت ان لوگوں کے لیے پھولوں کی سیج تھی جو سمجھداری، قابلیت اور دور اندیشی سے لیس تھے۔ اس کے برعکس، تخت حکومت حکمرانوں کے لیے کانٹوں کی سیج بن گیا۔ جب ارباب اختیار، ضد، بدانتظامی، پاگل پن اور انتقام جیسی برائیوں کی زد میں آ گئے۔

اس وقت طالبان نے سابقہ ​​حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے جہاں ان کی افواج نے دارالحکومت کابل پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ افغانستان کے صدارتی محل (ارگ) میں ڈیرے ڈال دیے ہیں۔

ان کی فوجی جیت کے بعد اب ان کا اگلا قدم حکومت کی تشکیل ہے۔ جس میں وہ بہت چیلنجز کا سامنا کرے گے، جو مستقبل میں ان کی قسمت کا فیصلہ کریں گی۔

پہلا چیلنج۔ اگرچہ طالبان میدان جنگ میں اچھے جنگجو کے طور پر مانے جاتے ہیں لیکن حکومتی مشینری کا انتظام بہتر حکمرانی کا تقاضا کرتا ہے۔ اگرچہ طالبان دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں سابقہ ​​حکومت کا تجربہ ہے لیکن حقیقت کہیں اور ہے۔ نہ صرف حالات بدلے ہیں بلکہ طالبان کا پچھلا دور حکومت غیر مطمئن حد تک ناکام تھی۔ اس نئے دور حکومت میں طرز حکمرانی کے حوالے سے بہت سے سوالات طالبان قیادت کے سامنے ہوں گے۔ یہ بات قابل ذکر ہوگی کہ گورنر اور دیگر سرکاری عہدیداروں کی نامزدگی کا معیار کیا ہوگا؟

پچھلی حکومت کے ان انتظامی افسران کا کیا سلوک جائے گا جو کہ یا تو زیر زمین چلے گئے ہیں یا خوف کی وجہ سے اپنے دفاتر میں کام کرنے سے گریزاں ہیں؟ اہم بات یہ ہے کہ طالبان میں ایک متحرک بیورو کریٹک سیٹ اپ کا فقدان ہے، اور یہ بات غیر یقینی ہے کہ مختلف محکموں کے روزمرہ امور کیسے اور کس کے ذریعے سرانجام پائیں گے؟ کسی ملک کی گورننس کو بے پناہ افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے جس کا طالبان کی صفوں میں بہت بڑا خلا ہے۔ اگر طالبان نے اچھی طرز حکمرانی کے چیلنج سے نہیں نمٹا اور اگر اقربا پروری، بدانتظامی اور نا اہلی غالب رہی تو طالبان حکومت کا خاتمہ دور نہیں ہوگا۔

دوسرا۔ افغانستان کے لوگوں کا طالبان کے ساتھ ایک ناخوشگوار تجربہ رہا ہے۔ 1990 کی دہائی میں طالبان کا پہلا دور افغانوں کے لیے خوفناک تھا۔ طالبان کے سابقہ ​​دور حکومت میں خواتین کے حقوق کے ساتھ ساتھ دوسرے انسانی حقوق کی صورتحال تسلی بخش نہیں تھی۔ اب طالبان کا یہ دعویٰ کہ وہ تبدیل یو گئے ہیں یہ دعوی اب خود (طالبان ) کے لیے ایک امتحان ہوگا۔ کہ وہ اپنے آپ کو افغانستان کے لوگوں کے لیے کیسے قابل قبول بناتے ہیں، جو کہ طالبان کے لیے ایک معمولی چیلنج نہیں ہوگا اس کے لیے ان کے رویے اور پالیسیوں میں مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔ بنیادی حقوق، انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کو بنیادی اہمیت دینے کی ضمانت انہیں عوام میں قابل احترام اور قابل قبول بنا سکتی ہے۔ کیا طالبان اس جانب توجہ دیں گے؟ کیا وہ بدلی ہوئی حکمت عملی سے ماضی کے داغ دھو سکے گے؟ جواب ابھی غیر یقینی ہے۔

تیسرا۔ طالبان کے پاس ایک غیر منظم فوجی قوت ہے۔ ان کی قیادت ان کی بہتری کا انتظام کیسے کرے گی؟ وہ کس طرح ایک حقیقی طالب جنگجو اور موقع پرست لوگوں میں پہچان کرے گی جو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے تحریک کے چادر کے لبادے میں طالبان کی تحریک میں داخل ہوئے ہیں۔ طالبان جنگجوؤں کو قومی دھارے میں کیسے لایا جائے گا؟ کیا ان کی ڈی ریڈیکلائزیشن کے حوالے سے اقدامات کیے جائیں گے؟ کیا ان کے برین واش کی بدولت ان کے رویوں سے تلخی کا خاتمہ ممکن ہو گا اور ان کے رویے سے سخت مزاجی ختم ہو سکے گی؟

ان کی لیڈر شپ قانون کی پاسداری کے لیے اپنی افواج کو کیسے کنٹرول کرے گی (جیسا کہ ہم اس وقت خلاف ورزی کے بارے میں بہت سے واقعات دیکھ رہے ہیں ) اکیسویں صدی کی حکومت رویوں میں لچک، تنقید برداشت کرنے کی ہمت اور بنیادی حقوق کے تحفظ سے آگاہی کا تقاضا کرتی ہے۔ کیا طالبان اس کے لیے تیار ہیں؟ یہ ابھی تک غیر یقینی ہے۔

چوتھا۔ افغانستان کی قوم کی تعمیر میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہے۔ جو ملک کو دیمک کی طرح کھا رہی ہے۔ پچھلی حکومت بھی اس مسئلے سے نمٹنے میں ناکام رہی تھی، سوویت افواج کے انخلاء کے بعد ہر حکومت جنگجوؤں اور با اثر لوگوں موجودگی کے باعث اس لعنت کی جڑیں نہیں کاٹ سکی ہے۔ ایک بہترین انتظامی نظام کی کمی نے صورتحال کو مزید تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ہمیں بہرحال اشرف غنی کی تعریف کرنی پڑے گی۔ جس نے ملک میں e.customs خدمات متعارف کروائی تھیں، لیکن منزل اب بھی بہت دور ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ موجودہ افراتفری کی صورتحال کے درمیان، انتظامی عملہ یا تو زیر زمین چلا گیا ہے یا اپنی ذمہ داریاں نبھانے کو تیار نہیں ہے۔ عملے کی عدم موجودگی کی صورت میں طالبان کرپشن کو کیسے روک پائیں گے، یہ خود ایک سوال ہے۔ ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ موجودہ طالبان حکومت میں ایسے قابل عملے کی کمی ہے۔ جو نظام حکومت کو چلا سکے۔ سابقہ ​​حکومت کے عملے کی عدم موجودگی میں طالبان کو کرپشن کے سنگین چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جس کی وجہ سے ظاہر ہے کرپشن مزید تباہی مچائے گی۔

پانچواں۔ افغان عوام سوویت یونین کی مداخلت کے بعد سے جنگ، تشدد، بدامنی، لاقانونیت اور انتشار کا شکار رہے ہیں۔ وہ بے گھر ہو چکے ہیں، ہجرت کر چکے ہیں اور ملک میں عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ایک بار پھر، موجودہ جنگ نے ان کی زندگی خراب کر دی ہے۔ وہ غریب، بے روزگار، ہو کر لاکھوں میں ایک بار پھر بے گھر ہو گئے ہیں۔ ان کے کاروبار کو نقصان پہنچا ہے، کئی مہینے ہو چکے ہیں جہاں وہ جنگی حالات کے دوران پس رہے ہیں۔ کابل ہوائی اڈے کے مناظر دل دہلا دینے والے ہیں جہاں ہزاروں افغان پناہ کی تلاش میں ہیں اور ملک سے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ طالبان کے لیے ذمہ داری اور چیلنج یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ملک میں رہنے اور اپنی جانوں کے تحفظ پر کیسے راضی کریں۔ مزید یہ کہ طالبان کی حکمرانی کا اصل امتحان یہ ہے کہ بے گھر افراد کی بحالی کیسے کی جائے اور ان کی زندگیوں، گھروں، کاروبار اور ملازمتوں کی حفاظت کو کیسے یقینی بنایا جائے۔

طالبان حکومت کے لیے ایک بنیادی چیلنج معیشت ہے۔ معیشت جو پہلے ہی غیر ملکی امداد (% 20 ) ، گرانٹس (% 75 ) ، عطیات اور قرضوں پر انحصار کرتی تھی، موجودہ عدم استحکام کی وجہ سے معیشت مزید کمزور ہو گئی ہے۔ 20 سال کے عرصے میں پہلی دفعہ افغان کرنسی گراوٹ کا شکار ہو گئی ہے۔ دوسری طرف امریکی حکومت نے افغان حکومت کے 9.5 بلین امریکی ڈالر منجمد کر دیے ہیں۔ آئی ایم ایف نے بھی امریکہ کے نقش قدم پر عمل کرتے ہوئے 370 ملین ڈالر معطل کر دیے ہیں جبکہ 25 اگست کو ورلڈ بینک نے بھی اس کی امداد معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

مزید یہ کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری رک گئی ہے عدم تحفظ اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ترقیاتی منصوبے رکے ہوئے ہیں۔ تقریباً تمام اداروں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ایک بہت بڑا بوجھ جو مستقبل میں معیشت کو متاثر کرے گا ان لوگوں کی بحالی ہے جو بے گھر اور نقل مکانی کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت سازی کا فقدان اور شیڈو کابینہ کی عدم موجودگی نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ افغانستان پر اپنی پہلی حکمرانی کے دوران طالبان کا معاشیات چلانے کا تجربہ اتنا اچھا نہیں تھا کیونکہ قابل معاشی ذہنوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ملک کی معیشت ڈیفالٹ کر گئی تھی۔

موجودہ طالبان کے پاس بھی ماہرین معیشت کی شدید کمی ہے۔ جس کا تجزیہ کار بھی بار بار نشاندہی کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان میں طالبان کے سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعیف نے اپنے ٹویٹ میں جلد از جلد ایک اقتصادی کونسل بنانے کی تجویز دی ہے۔ طالبان کس طرح معاشی زوال کو سنبھالتے ہیں، یہ ان کے لیے ایک حقیقی امتحان ہوگا۔

ساتواں۔ تقریباً ہر پڑوسی ملک، علاقائی اور بین الاقوامی طاقت (سوائے بھارت) نے طالبان کے لیے مثبت اشارے دے رہی ہے۔ وہ ملک جو سابقہ ​​سوویت یونین کے دخل اندازی کے بعد سے پراکسی جنگوں کا مرکز رہا ہے اب تک کئی ممالک کے لیے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ امریکہ، چین، روس اور یورپ کو دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے بارے میں خدشات ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ اس سرزمین کو اس کی خودمختاری کے خلاف استعمال نہ کیا جائے۔ افغانستان کے پڑوسیوں کو اپنے تحفظات ہیں جن میں پاکستان کو یہ تحفظات ہیں کہ اس ملک کو دہشت گردوں نے ان کی خودمختاری کے خلاف استعمال کیا ہے جبکہ ایران کو اپنی فکر، بے چینی اور خوف پڑی ہوئی ہے۔ طالبان کے لیے چیلنج یہ ہوگا کہ وہ ان خدشات کو کم کرنے میں کس طرح اپنا کردار ادا کریں گے؟ طالبان حکومت کی سفارتی مہارت بالآخر طالبان حکومت کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔

آٹھ۔ ایک اور مسئلہ افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) کا ہوگا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ طالبان اپنی قسمت کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں؟ کیا انہیں اپنے فرائض دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی جائے گی؟ اگر ہاں تو پھر وہ طالبان افواج کے ساتھ اکٹھے کیسے چل سکے گے؟ اس کا ابھی تک کوئی میکانزم نظر نہیں آ رہا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر انہیں دوبارہ شامل نہیں کیا گیا اور مرکزی دھارے میں نہیں لایا گیا تو ہزاروں فوجی بے روزگار ہو جائیں گے جس سے ہزاروں خاندان متاثر ہوں گے اور اس کے نتیجے میں یہ ریاست کی معیشت پر بہت بڑے بوجھ کے ساتھ ساتھ ملک میں بدامنی کا خطرہ بھی ہوگا۔ ڈان روزنامے کے تجزیہ نگار خرم حسین کا کہنا ہے کہ ”کاغذوں پر، اے این ڈی ایس ایف 300، 000 سپاہیوں پر مشتمل ہے۔ اگر ہم چھ تناسب میں سے ایک کو مان لیں، تب بھی اس کی تعداد 50، 000 بنتی ہے۔ اس فورس کا کیا کیا جائے گا یہ کوئی معمولی سوال نہیں ہے“

نو۔ افغانستان دنیا میں افیون پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ نہ صرف پڑوسی بلکہ دنیا بھی اس لعنت سے متاثر ہو رہی ہے۔ اگرچہ طالبان نے ملک سے افیون کے خاتمے کے اپنے عزم کا اعلان کیا ہے لیکن مکمل طور پر کوئی روڈ میپ فراہم نہیں کیا ہے۔ اصل چیلنج یہ ہو گا کہ اگر طالبان اس کے خاتمے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ ان کاشتکاروں کی ترقی کے لیے ان کی حکمت عملی کیا ہو گی جو اس سے وابستہ ہیں؟ پانی اور وسائل کی کمی کے باعث طالبان انہیں دوسری زرعی مصنوعات جیسے گندم چاول وغیرہ کی کاشت کرنے کے لیے کیسے قائل کریں گے؟

دس۔ افغانستان میں اسلحہ کی موجودگی ملک میں بہت سے مسائل کی جڑ رہی ہے۔ شاذ و نادر ہی کوئی ایسا خاندان ہوگا جس کے پاس اسلحہ نہ ہو۔ سوویت یونین اور موجودہ امریکی انخلاء کے بعد ، اسلحہ کی کثرت ملک میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ کیا طالبان بلا امتیاز ملک کو ہتھیاروں سے پاک کر سکیں گے؟ اہم بات یہ ہے کہ کیا طالبان بندوق اور تشدد کے بجائے افغانستان کے لوگوں کو قلم اور امن دینے میں کامیاب ہو سکے گے؟ اس حوالے سے سابقہ ​​طالبان حکومت کی مثال مایوس کن ہے۔ طالبان کا آزمائشی وقت شروع ہو چکا ہے کہ ملک کو اسلحے سے پاک کر کے صحیح سمت میں کیسے لے جانا ہے۔

آخری مشکل امریکہ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی تکمیل ہوگی جسے ماننے کے لیے طالبان پابند ہیں۔ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ طالبان القاعدہ اور امریکی سرزمین کے لیے خطرہ بننے والوں کو پناہ نہیں دیں گے۔ معاہدے کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ طالبان خواتین اور اقلیتی حقوق کے حوالے سے انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں گے۔ کیا طالبان بدل گئے ہیں؟ کیا وہ ذمہ داریوں کو حقیقی جذبے سے پورا کر سکیں گے؟ اگرچہ طالبان رہنما اقلیتوں، میڈیا ہاؤسز، خواتین ملازمین سے ملتے رہے ہیں اور زمینی طور پر انہیں حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کراتے رہے ہیں، لیکن صورتحال مایوس کن دکھائی دیتی ہے۔

جھنڈے کے معاملے پر مظاہرین پر فائرنگ اور ٹی وی چینلز سے کئی خواتین اینکرز کو روکنا مثبت اشاریے نہیں ہے۔ مزید براں کابل ائرپورٹ پر 27 اگست کو خودکش حملوں کے بعد جس کی ذمہ داری داعش خراسان نے قبول کی ہے۔ اور جواب میں امریکہ نے ڈرون حملے شروع کیے ہیں کیوں کہ معاہدے کی رو سے افغانستان کی سرزمین کو امریکہ کے خلاف استعمال نہ ہونے کی شرط رکھی گئی ہے۔ اس قضیے نے طالبان کے لیے حالات کو مزید مشکل کر دیا ہے۔ یہ چیلنج ہمیں بتائے گا کہ طالبان حکومت درست سمت میں ہے یا نہیں۔

طالبان نے دوسری دفعہ افغانستان پر قبضہ کر کے حکمرانی کی طرف جا رہے ہیں

کیا طالبان ایک مضبوط گورننگ سسٹم کے ذریعے دنیا کو یہ دکھا سکے گے کہ وہ ملک چلانے کے لیے اہل ہیں۔ ان کی قابلیت، دور اندیشی، عزم، اور سفارتی مہارت ظاہر کرے گی، کہ وہ تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں یا پھر وہی غلطیاں دہراتے ہیں جو انہوں نے پہلی حکمرانی کے دوران کی تھی۔ پہلا افغانستان کو ترقی اور خوشحالی کی طرف لے جائے گا اور اس داغ کو دھو ڈالے گا کہ طالبان ملک چلانے میں نا اہل ہیں اور اگر وہ دوبارہ وہی غلطیاں دہرائیں گے تو یہ موقع ان کا آخری موقع ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments