کے ایچ خورشید: ایک عہد ساز شخصیت


خورشید حسن خورشید 3 جنوری 1924 کو سری نگر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے میٹرک، ایف۔ اے اور گریجوایشن تک تعلیم آبائی شہر میں حاصل کی۔ کالج دور میں سیاست سے دل چسپی پیدا ہوئی تو 1940ء میں انھوں نے مسلم سٹوڈنٹس یونین کی بنیاد رکھی۔ اس یونین نے تحریک پاکستان کے لیے نہایت جاں فشانی سے کام کیا۔ قائد اعظم سے ان کی پہلی اور مختصر ملاقات جالندھر میں پنجاب سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سالانہ اجلاس میں ہوئی۔ قائد اعظم نے کشمیر کونسل میں قابل قدر رکنیت سازی کا اعتراف کرتے ہوئے خورشید حسن کو مسلم لیگ کے پرچم سے نوازا۔

قائد اعظم محمد علی جناح اور مس فاطمہ جناح مئی 1944میں کشمیر تشریف لے گئے تو مسلم کانفرنس کے سٹوڈنٹ ونگ نے شیخ محمد امین کی قیادت میں استقبالیہ کمیٹی تشکیل دی۔ خورشید حسن اس کمیٹی کے انتہائی فعال رکن تھے۔ اس وقت وہ ہندوستان کی واحد مسلم نیوز ایجنسی ”اورینٹ پریس“ کی نمائندگی بھی کر رہے تھے۔ پریس رپورٹر اور مسلم کانفرنس کے نمائندے کی حیثیت سے انھیں کئی مرتبہ قائد اعظم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ انھوں نے ایک ملاقات میں نواب بہادر یار جنگ کی وفات کی خبر بریک کی۔

خبر کی تصدیق ہو گئی تو قائد اعظم نے انھیں خصوصی اہمیت دینا شروع کی اور ان کی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر پرائیویٹ سیکریٹری کے عہدے کی پیشکش کردی۔ خورشید حسن نے بہ خوشی یہ اعزاز قبول کیا، تحریک پاکستان میں عملی حصہ لیا اور ستمبر 1947 ءتک قائد اعظم کے دست راست کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ قائد اعظم نے ایک موقع پر فرمایا کہ پاکستان کا قیام میری، میرے سیکریٹری، اور میرے سٹینو گرافر کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے دو مرتبہ خورشید حسن کو کشمیر کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے سری نگر جانے کا حکم دیا۔ وہ موسم گرما کے اوائل میں پہلی مرتبہ، اور ستمبر1948 میں دوسری مرتبہ سری نگر گئے۔ خورشید حسن سری نگر ہی میں تھے جب مسلم لیگ نیشنل گارڈز کے کمانڈر خورشید انو کے حکم پر آزاد پشتون قبائل کے مسلح دستے ریاست کشمیر میں داخل ہو گئے۔ کشمیر حکومت کے ہندو نواز وزیراعظم نے خورشید حسن کو اس حملے کا منصوبہ ساز قرار دیتے ہوئے گرفتار کر لیا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان 1949 ءمیں قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہوا تو انھیں گلگت کے سابقہ گورنر بریگیڈئیر گھنسارا رام کے بدلے رہائی نصیب ہوئی جسے گلگت سکاؤٹس نے گرفتار کیا تھا۔ رہائی کے بعد خورشید حسن شعبہ صحافت سے وابستہ ہوئے اور ہفت روزہ گارجین لاہور کا اجراء کیا۔ وہ آل پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کانفرنس کے بانی ارکان میں شامل تھے اور اس کے پہلے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ اس تنظیم کے صدر فیض احمد فیض تھے، اور حمید نظامی، شورش کاشمیری، زیڈ اے سلہری جیسے حریت پسند نام اراکین میں شامل تھے۔

اس دوران لیڈر ایکسچینج پروگرام کے تخت خورشید حسن نے امریکہ کا دورہ بھی کیا۔ امریکہ سے واپس آنے پر محترمہ فاطمہ جناح نے خورشید حسن کو قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دیا اور تعلیمی اخراجات خود برداشت کرنے کا یقین دلایا۔ خورشید حسن نے لنکنزان یونیورسٹی لندن سے بار ایٹ لاء کی سند حاصل کی۔ برطانیہ کی سابق وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر اور پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ان کے ہم عصر طلباء میں شامل تھے۔ ان دنوں پاکستان کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کی پیروی کر رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ خورشید حسن نے طویل عرصے تک قائد اعظم کی رفاقت و نیابت کا شرف حاصل کیا ہے اور مسئلہ کشمیر پر ان کی رائے فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ انھوں نے خورشید حسن کو لندن سے طلب کر کے معاونت حاصل کی۔

خورشید حسن 1954 میں بارایٹ لاء کی ڈگری لے کر پاکستان واپس آئے۔ انھوں نے اے کے بروہی اور آئی آئی چند ریگر کی قانونی فرم میں شامل ہو کر پریکٹس کی ابتدا کی، اور بہت جلد اپنی فرم قائم کرلی۔

کشمیر کی آزادی کے لیے 1955 میں ”تحریک تعمیر ملی“ کی بنیاد رکھی گئی تو سیکریٹری جنرل کے لیے خورشید حسن کا انتخاب کیا گیا۔ آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نے 1956 میں انھیں فارن پبلسٹی ایڈوائزر مقرر کیا۔ تحریک تعمیر ملی نے 2 جون 1958 کو حریت پسندوں کے ساتھ مل کر کشمیر کی جنگ بندی لائن عبور کرنے کا اعلان کیا۔ سکندر مرزا کی حکومت نے دیگر قائدین کے ساتھ خورشید حسن کو بھی کوہالہ پل عبور کرنے سے پہلے گرفتار کر لیا۔

ایوب خان نے سکندر مرزا کو معزول کر کے مارشل لاء نافذ کیا تو نہ صرف انھیں رہا کر دیا گیا، بلکہ 1958 ءکے رولز آف بزنس کے تحت سردار محمد ابراہیم خان کو معزول کر کے خورشید حسن خورشید کو آزاد کشمیر کا صدر نامزد کر دیا۔ انھوں نے یکم مئی 1958 ءکو آزاد کشمیر کے صدر کا حلف اٹھایا۔ خورشید حسن نے 1960 ءمیں بنیادی جمہوری نظام کے تحت انتخابات کا انعقاد کر کے بلدیاتی ارکان منتخب کیے۔ ان ارکان نے سات اکتوبر 1961 ءکو آزاد کشمیر کے پہلے صدارتی انتخابات میں رائے شماری کے ذریعے خورشید حسن کے حق میں فیصلہ دیا اور انھوں نے آزاد کشمیر کے پہلے منتخب صدر ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا۔

ان کا دور آزاد کشمیر کے لیے انقلاب آفریں ثابت ہوا۔ ان کی صدارت سے پہلے پاکستان کی وزارت کشمیر کا جوائنٹ سیکریٹری ریاست کے دورے پر آتا تو آزاد کشمیر کا صدر کوہالہ پل پر اس کی خدمت میں حا ضر ہو کر کورنش بجا لاتا۔ خورشید حسن نے یہ روایت ختم کر کے سیکریٹری کے لیے سیکریٹری، اور صدر کے لیے صدر کا پروٹوکول نافذ کر دیا۔ پاکستان کے صدر ایوب خان منگلا ڈیم کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے تشریف لائے تو خورشید حسن نے سرحد پر استقبال کیا، اور اپنے ڈرائیور کو صدر پاکستان کی گاڑی سے آگے چلنے کا حکم دیا۔

اس حکم کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں کے کہا کہ ریاست کی حدود میں قافلے کی قیادت صدر پاکستان کا نہیں، آزاد جموں و کشمیر کے صدر کا استحقاق ہے۔ انھوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ آزاد جموں و کشمیر کی حکومت کو سابقہ ریاست جموں کشمیر کی جانشین تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں رکنیت دلوانے کی درخواست دائر کی جائے، یا کم ازکم مبصر کا درجہ دلوایا جائے۔ ان کا موقف تھا کہ گلگت بلتستان آزاد جموں و کشمیر کا حصہ ہے کیونکہ تقسیم کے وقت یہ علاقہ جموں و کشمیر کی ڈوگرہ ریاست کا حصہ تھا۔ حکومت پاکستان یہ ”خالص کشمیر پرست“ موقف تسلیم نہیں کر سکتی تھی، اس لیے اختلافات پیدا ہوئے اور خورشید حسن نے پندرہ اگست 1964ء کو عہدہ صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔

محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے ساتھ ہونے والے انتخابی معرکے میں خورشید حسن کو اپنا چیف پولنگ ایجنٹ مقرر کیا تھا۔

ایوب حکومت نے اگست 1965ء میں آپریشن جبرالٹر کے نام سے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں حملہ آور دستے داخل کر دیے۔ یہ آپریشن ناقص منصوبہ بندی اور بے بنیاد مفروضات کی وجہ سے بری طرح ناکام ہوا۔ اس آپریشن کا بدلہ لینے کے لیے بھارت نے ایک ماہ بعد ستمبر 1965ء میں پاکستان پر حملہ کیا۔ خورشید حسن خورشید نے آپریشن جبرالٹر کی مخالفت کی تھی، ایوب حکومت نے اس ”جرم“ کی بنیاد پر انھیں گرفتار کر کے پہلے پلندری جیل میں رکھا اور پھر دلائی کیمپ میں منتقل کر دیا۔

انھیں تیرہ فروری 1966 ء کے دن اس قید سے رہائی نصیب ہوئی۔ اس کے بعد خورشید حسن سیاست کشمیر میں پوری طرح سرگرم ہو گئے اور 1969 ءمیں اپنی قائم کردہ جماعت لبریشن لیگ کے پلیٹ فارم سے جمہوری نظام حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد شروع کی۔ وہ آزاد جموں و کشمیر میں سٹیٹ کونسل کے بجائے قانون ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لانا چاہتے تھے۔ ان کی کوششیں یحییٰ دور میں رنگ لائیں اور آزاد کشمیر میں قانون ساز اسمبلی قائم کردی گئی۔

ذوالفقار علی بھٹو نے 1977 ءمیں ہونے والے انتخابات سے پہلے خورشید حسن سے ملاقات کی اور امید ظاہر کی کہ پیپلز پارٹی اور لبریشن لیگ شانہ بہ شانہ جدوجہد کریں تو کشمیر کی آزادی کا خواب حقیقت ثابت ہو سکتا ہے۔ خورشید حسن نے کشمیر کاز کے لیے اپنی جماعت پیپلز پارٹی میں ضم کردی۔ جنرل ضیاء الحق نے جمہوریت پر شب خون مار کر مارشل لاء نافذ کیا تو خورشید حسن نے لبریشن لیگ کو دوبارہ منظم کیا اور سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

انھوں نے 1985 ءمیں ہونے والے انتخابات میں مہاجرین کشمیر کی نشست کے لیے لاہور سے انتخاب لڑا اور کامیابی حاصل کی، ان کی جماعت مگر آزاد کشمیر اسمبلی میں اکثریت حاصل نہ کر سکی۔ حکومت پاکستان کی حمایت یافتہ مسلم کانفرنس نے اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے حکومت بنائی اور خورشید حسن قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے۔ آزاد جموں و کشمیر کے 1987 ءمیں ہونے والے بلدیاتی انتخابات مسلم کانفرنس کی نگرانی میں ہوئے۔ ان انتخابات پر دھاندلی کا الزام لگا اور مخالف جماعتوں کے عوامی اتحاد نے احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔

اس سلسلے میں تحریک کے حامی وکلاء نے دس مارچ 1988 ءکو میرپور میں ایک کنونشن کا انعقاد کیا۔ بیرسٹر خورشید حسن نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے انتہائی متاثرکن خطاب کیا۔ کنونشن کے بعد گیارہ مارچ کو وہ میرپور سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے۔ گجرات تک پارلیمنٹ کے رکن راجہ بسی محمد کی گاڑی میں سفر کیا اور گجرات سے آگے پبلک ٹرانسپورٹ کا انتخاب کیا۔ ان کی ہائی ایس گوجرانوالہ بائی پاس سے گزرتے ہوئے حادثے کا شکار ہوئی اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے خورشید حسن شدید زخمی ہو گئے۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد انھیں لاہور منتقل کیا گیا۔ اور کشمیر کا خورشید ملت لاہور کے ہسپتال میں ہمیشہ کے لیے روپوش ہو گیا۔ انتقال کے بعد ان کی جیب سے سینتیس (37) روپے کی ”خطیر“ رقم برآمد ہوئی۔ ان کی وصیت کے مطابق آخری آرام گاہ کے لیے مظفر آباد کا انتخاب کیا گیا۔

تقریباً چھ سال آزاد جموں وکشمیر کی صدارت پر فائز رہنے والے خورشید حسن اتنا سرمایہ اکٹھا نہیں کرسکے کہ ذاتی گاڑی خرید لیں۔ حکومت پاکستان نے قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری کے لیے لاہور میں ایک مکان الاٹ کیا تھا، جس پر قبضہ مافیا نے قبضہ کر لیا اور خورشید حسن اپنی زندگی کرائے کے مکان میں گزار کر دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے۔

خورشید حسن خورشید نے میدان سیاست میں دیانت اور امانت اور حب الوطنی کے منفرد ریکارڈ قائم کیے۔ وہ سیاست اور صحافت ہی کے نہیں، علم و ادب اور خطابت کے آسمان کا بھی روشن ستارہ تھے۔ قائد اعظم کے بارے لکھی گئیں یاداشتوں کا انداز تحریر ان کے علمی اور ادبی مرتبے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ کشمیر کے میدان سیاست میں ابھی تک کے۔ ایچ خورشید کا نعم البدل دریافت نہیں ہو سکا۔

کشمیر کی فضاؤں میں روشن تھا جو چراغ
خورشید تھا زمین کو تاریک کر گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments