بھیشم ساہنی کا ناول: تمس


تمس (تاریکی) کو منظر عام پر آنے کے لیے تقریباً چھبیس سال کا عرصہ لگا۔ ان چھبیس سالوں میں دونوں طرف بہت کچھ بیت چکا تھا۔ جنگیں ہو چکی تھیں۔ قومی ترانے آچکے تھے۔ لیگ اور کانگریس کی شناخت و منشور بدل چکے تھے۔ جرنیل آچکے تھے۔ آئین ترتیب دیے جا چکے تھے جن میں اقلیتیں اپنی جگہ ڈھونڈ رہی تھیں۔ ٹیگور کی بولی بولنے والی عورتوں کو قومی سپوت اسی برسات میں روند چکے تھے جس کے بارے قرۃالعین حیدر لکھتی ہیں کہ ”برسات کے لیے ٹیگور اور سارے بنگالی شاعر شاعری کرتے کرتے مر جاتے ہیں۔

“ تقسیم سے پہلے جہاں انگریز رچرڈز تھے وہاں تقسیم کے بعد سینکڑوں رچرڈز آئے اور ان کی خدمت کے لیے سینکڑوں مراد علی نے جنم پایا۔ کئی دیہاڑی داروں کو چھرا گھونپا گیا، کئی ہرنام سنگھ گھر بدر ہوئے اور کئی جسبیر کنووں کی تاریک گہرائی کا حصہ بنیں۔ اب کہ ان حادثوں کا شور عمیق تھا۔ اب کہ مسلمان، مسلمان کی عزت لوٹ رہا تھا، گھر بدر کر رہا تھا۔ اب کہ مینا بھی گونگی ہو چکی تھی جس کو ”بنتو، رب راکھا“ پکارنا تھا۔ اور زندگی کی حیثیت؟ پھر یہاں میرزا ادیب یاد آتے ہیں کہ ایک ”صورت حال یہ ہو گئی تھی کہ موت۔ موت رہی نہیں تھی۔ کسی شخص کا مر جانا ایک عام خبر بن گئی تھی جیسے سائیکل کی گھنٹی بجتے بجتے بند ہو جائے یا تانگہ چلتے چلتے رک جائے۔“

یہ کہانی راولپنڈی، سید پور کے علاقے ایک مسجد کے سامنے سور پھینکنے کے واقعے سے شروع ہوتی ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آتا ہے جب کانگریس کے کچھ ہندو اور مسلمان ارکان پربھات پھیری پر نکلے ہوتے ہیں۔ واقعہ کے پیش آتے ہی محلوں کے مسلمان افراد میں غیظ و اضطراب کی کیفیت جنم لیتی ہے۔ دوسری طرف مسلمان بدلے کی آڑ میں گائے کو ڈنڈے مار کر ہلاک کر دیتے ہیں۔ انگریز حکمران رچرڈ کے پاس وفد کرفیو لگانے کی عرضی لے کر جاتا ہے مگر لوٹا دیا جاتا ہے۔

bhisham sahini

ایک کردار بخشی صاحب یہ کہتے سنائے دیتے ہیں کہ لگتا ہے آج شہر میں چیلیں اڑیں گی۔ انسانوں کی مارکاٹ شروع ہوتی ہے۔ بلوائی لوٹ کھسوٹ کر رہے ہیں۔ گھر نذر آتش ہو رہے ہیں۔ عورتوں کو استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہمسایہ، ہمسائے سے دبک کے بیٹھا ہے۔ جہاں ایک طرف فرقہ وارانہ اختلافات ہیں ادھر ہی کچھ لوگ امن اور اتحاد کی کوششوں میں سرگرم عمل ہیں۔ مستزاد یہ کہ کہانی کے مختلف اور بے شمار کردار ہیں۔ مختلف کردار اس وقت کی مختلف سیاسی پارٹیوں و نظریوں کی نمائندگی بھی کرتے نظر آتے ہیں۔

آخر میں انگریز حکومت کی طرف سے ایک جہاز قصبے پر اڑایا جاتا ہے جس سے خوف زدہ ہو کر ساری خونی کارروائی روک دی جاتی ہے۔ رچرڈ کی ترقی ہوجاتی ہے۔ رفیوجی کیمپ لگا دیا جاتا ہے۔ مالی و جانی نقصان کی فہرست تیار کی جاتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جتنے ہندو مارے گئے ہیں اتنے ہی مسلمان موت کے گھاٹ اتارے گئے ہیں۔ امن کمیٹی کا قیام عمل میں آتا ہے۔ کارکن امن بس کے ذریعے رفیوجی کیمپ میں مسلمان اور ہندووں کی خبر گیری و خیرسگالی کے لیے پہنچتے ہیں۔ امن بس کو چلانے والا اور کوئی نہیں وہی مراد علی ہوتا ہے جس کے کہنے پر نتھو سور ہلاک کرتا ہے۔

ہر کردار کی اپنی کہانی ہے۔ مگر ان میں ایک قدر مشترک ہے۔ الم، دکھ اور کرب کی۔ یہ اس معصومیت کا دکھ ہے جس کے تحت ہمسایہ، ہمسائے کے ہاتھ امانتیں رکھوا کر ہجرت کرتا ہے کہ ہفتہ بھر میں لوٹ آئیں گے۔ یہ اس پنہاں جذبے کا دکھ ہے جس سے سرشار جسبیر سکھ خواتین کے گروہ سمیت کنویں میں چھلانگ دیتی ہے۔ یہ ان کرداروں کا دکھ ہے جو امن کراتے جان کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ آنکڑوں کا دکھ نہیں کہ کتنے لوگ دربدر ہوئے، کتنے جان سے گئے۔ یہ کہانی کا دکھ ہے۔ زیدی سمتھ لکھتی ہے کہ ”دکھ کا دکھ ہونا ہی جان لیوا ہے۔“ یہ کس کا دکھ ہے اس سے فرق نہیں پڑتا۔ فرق پڑتا ہے تو دکھ کے ہونے سے۔ کیوں؟ قرۃالعین حیدر کے الفاظ کیونکہ ”کرب پیہم ہے۔“ ؟ یا پھر میلان کنڈیرا کے الفاظ کے ”صرف کرب ہی ایک سچا جذبہ ہے“ ؟

سماجی، معاشی، نفسیاتی اور سیاسی حقائق پر مبنی ناول کو گووند نہالانی نے 1988 میں ٹیلی ویژن فلم کی زینت بخشی۔ فلم کے گیت و نراج بھاٹیا نے کمپوز کیے ۔ اوم پوری نے نتھو اور کالج کی گولڈ میڈلسٹ دیپا ساہی نے نتھو کی بیوی کا کردار ادا کیا۔ ناول میں جہاں کوئی مرکزی کردار نہیں سوائے الم اور کرب کے، فلم کے اندر نتھو کو مرکزی کردار کی حیثیت حاصل ہے۔ فلم میں ہرنام سنگھ کا کردار بھیشم ساہنی نے خود ادا کیا ہے۔ فلم کا ایک منظر ہے جس میں نتھو کی بیوی کو انتظار کرتا دکھایا گیا ہے۔ نتھو ضمیر کی کشمکش میں مبتلا ایک دن سے لاپتہ ہے۔ اگلے دن جیسے ہی وہ لوٹتا ہے، بیوی کی دیکھتے ہی ایک درد بھری آہ نکلتی ہے اور آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑتے ہیں۔ بے جا نہ ہوگا اگر کہا جائے کہ ہمارے سماج کی عورت کی محض یہی شناخت اور حقیقت ہے۔ فقط، اک آہ!

تمس اپنی نوع کی انوکھی تصنیف ہے۔ بھیشم ساہنی لکھتے ہوئے کہیں بھی کسی فرقے کی جانب جھکاؤ نہیں رکھتے۔ کسی کردار کی طرف داری نہیں کرتے۔ کچھ حضرات کو لگتا ہے کہ انہوں نے اس غم کے ساتھ سلوک نہیں کیا۔ ایک لکھاری کی عظمت یہی ہے کہ وہ جذبات کی رو میں بہہ بغیر تاریخی شعور سے کام لے۔ ناول کا اردو ترجمہ شہلا نقوی نے کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments