رہ گئی رسم اذاں، روح بلالی نہ رہی


ہر طرف شور ہی شور ہے فضا میں الودگی اور اور انسانی لا شعور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے کہیں سیاسی رسہ کشی تو کہیں سماجی ناہمواری کا شکار معاشرہ تباہی کے راستے پر گامزن ہے انسانیت مزید انحطاط پذیر ہے نہ قانون میں مساوات رہی اور نہ حاکموں کی اقتدار پرستی کا شوق ختم نہ ہوا منفی سوچ اور تنقیدی نقطہ نظر ہمارا اجتماعی نظریہ بن چکا ہمیں یہ بھی اندازہ نہیں کہ ہم گہری کھائی میں گر رہے ہیں یا کنویں میں۔ کوئی روز ایسا نہیں گزرتا جب معاشرے میں ارتعاش پیدا نہ ہو اور ہم اس سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال کا اس وقت سامنا کرتے ہیں جب ہمیں خوش گمانی ہوتی ہے کہ سب اچھا ہے حالانکہ ہماری سوچ ہمارے رویے یکسر زوال پذیر ہیں ہم کسی مشکل کا حل ڈھونڈنے کی بجائے اسے مزید مشکل بنانے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔

کیا ہم نے کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا ہے کہ ہم ملک کو سنوارنے کے لیے کس حد تک خدمات انجام دیے رہے ہیں ہمارے رویے مستقبل کی نسل کو کیا سبق دیے رہے ہیں؟ ان حالات کا ذمہ دار کون ہے اگر اس موضوع پر بحث کی جائے تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ہر دور میں اسی طرح کی برائی پنپتی ہے۔ یہ بات بھی مان لی جائے لیکن اس بات کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ تباہ حال معاشرے کو ہر دور میں سنوارنے کا ذمہ کسی نہ کسی نے ضرور اپنے سر لیا۔

روز اول سے نیکی اور بدی کی جنگ جاری ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جیت ہمیشہ نیکو کاروں کو ہی نصیب ہوئی اس کی کوئی بڑی وجہ نہیں بس سوچ کا فرق ہے۔ آج کے دور کا بھی جائزہ لیں تو معاشرے کو تباہ کرنے کے عوامل واضح طور پر نظر آتے ہیں ذرا ایک لمحے سوچیے کہ ایک ایسا مقام جہاں ایک الگ ریاست کی بنیاد رکھی گئی جہاں نوجوان وطن حاصل کرنے اپنے گھروں سے قربانی کا جذبہ لے کر نکل آئے تھے ماؤں بہنوں نے بھائیوں کو خود گھروں سے رخصت کیا اور وہ اپنے قائد کی آواز پر تن من دھن قربان کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس میدان میں پہنچ گئے جہاں ان نوجوانوں نے اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو روشن کرنے کا ذمہ لیا۔

آج اسی میدان میں اسی قوم کے نوجوانوں نے ان نظریات کو قائم رکھنے کی بجائے اس کو دفن کر دیا اور کئی روز سے اب یہ بحث جاری ہے کہ قصور وار کون ہے کوئی والدین کی تربیت اور کوئی حکمرانوں کو دوش دیے رہا ہے کوئی عورت اور کوئی مردوں کے نقص نکال رہا ہے لیکن کوئی بھی ایسے حالات پیدا ہونے پر شرمندہ نہیں کوئی معافی کا طلب گا ر نہیں صرف سر پر اسکارف لینے یا نظر جھکا لینے سے حالات بہتر نہیں ہو سکتے اس سوچ کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اگر آج بھی وہ چار سو مرد اور ایک عورت اسی میدان میں کھڑے ہو کر قوم سے نہیں اللہ سے معافی مانگ لیں تو شاید قدرت ان پر رحم کر دیے ورنہ ذلت و رسوائی ان کے مقدر کے اردگرد گھومتی رہے گی۔ میرا آج بھی یہ نظریہ پختہ ہے کہ یہ چارسو نوجوان اور ایک عورت اپنی صلاحیتوں کو مثبت انداز میں ڈھال کر معاشرے کی تصویر کو خوبصورت بنا سکتے ہیں ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب کسی نے اپنا رخ تبدیل کیا اور انقلاب برپا کر دیا ایسا ہی ایک نوجوان اقبال تھے جو یورپ جانے سے پہلے کسی اور دنیا کے مسافر تھے اور یورپ سے واپسی پر ان کے نظریے نے تاریخ کا رخ موڑ دیا اور ایسا انقلاب برپا کیا کہ دنیا کی بڑی طاقت اپنے پرچم کو سر نگوں کرتے ہوئے چلتی بنی۔

غازی علم دین نے دین کی حفاظت کرتے اپنا نام تاریخ کی کتابوں میں محفوظ کر لیا قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک نئی ریاست کا قیام اس انداز میں کیا کہ دنیا کے لیڈر دیکھتے رہ گئے۔ علامہ اقبال نے جب نوجوانوں کو جگانے کا ذمہ لیا تو اپنا خیال اس شعر میں کہا۔ رہ گئی رسم اذاں، روح بلالی نہ رہی۔ فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی۔ اور پھر ان ہی نوجوانوں کے اندر وہ جذبہ اجاگر کیا کہ خطے کی تاریخ ہی بدل ڈالی۔ تاریخ کا ایک اور واقعہ جس کے منظر آج بھی دل و دماغ میں محفوظ ہیں وہ بھارت میں بابری مسجد کی شہادت پر پاکستان میں ردعمل کی تصویر ہے شاہ عالم چوک میں مظاہرین کے ساتھ کھڑے ہو کر اخبار کے لیے رپورٹ تیار کر رہا تھا نوجوانوں کا جذبہ دیدنی تھا ان نوجوانوں کی قیادت کرنے والا کوئی نہ تھا وہ اپنے جذبات کے خود محافظ تھے شاید اگر اس موقع پر کوئی رہنما موجود ہوتا تو ان نوجوانوں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر لیتا اس روز پورے لاہور پر نوجوانوں کا غلبہ تھا وہ صرف اپنے دین کی حفاظت کے لیے میدان میں تھے اور جب اگلے روز لیڈر میدان میں اترے تو کسی ایسے نوجوان نے بات تک نہ سنی جو ایک روز پہلے جان تک قربان کرنے کو تیار تھا۔

اب دوبارہ ان چار سو نوجوانوں اور ایک عورت کی اس میدان میں ہونے والے واقعہ کی طرف آتے ہیں وہاں جو بھی ہوا اس کے ردعمل پر بہت کچھ کہا جا چکا ان کا کیس عدالت میں ہے وہاں کون قصور وار ہو گا اس کا فیصلہ عدالت کو ہی کرنے دینا چاہیے۔ فرض کریں ان بچوں کو سزا ہو جائے گی سوچنے کی بات یہ ہے کیا یہ سزا پانے کے بعد جیل سے اچھے بچے بن کر نکلیں گے یقینی طور پر ایسا ممکن نہیں ہوگا شاید وہ جرم کی دنیا کے چھوٹے یا بڑے کھلاڑی بن کر ہی جیل سے باہر آئیں، اگر حکومت وقت چاہے تو ان چار سو نوجوانوں اور ایک عورت کی ذہنی تربیت کا اہتمام کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان میں سے ہی ایسے جوہر سامنے آئیں کہ یہ نوجوان معاشرے کا خوبصورت رنگ بن جایں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments