پاکستان کے لئے کابل کی وکالت سے پرہیز ہی بہتر ہے


امریکہ، افغانستان چھوڑ چکا ہے۔ طالبان نے ملک پر قبضہ مکمل کرنے کے لئے مزاحمتی گروہوں کے خلاف وادی پنجشیر کا محاصرہ کرلیا ہے۔ قندھار سے طالبان کی مرکزی قیادت یا شوریٰ کے اجلاس کے بعد خبریں سامنے آئی ہیں کہ ملک میں کوئی وزیر اعظم بنے یا صدر کہلائے، اصل اختیار طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ کے پاس ہی ہوگا۔ گویا یہ حتمی فیصلہ ہے کہ ملک میں نہ تو جمہوریت ہوگی اور نہ ہی ’متفقہ‘ طور سے بنائی گئی کسی حکومت کو حقیقی فیصلہ کرنے کا اختیار ہوگا۔ اعلیٰ ترین رہبر اور مذہبی رہنما کے طور پر ملا ہیبت اللہ کسی بھی فیصلہ کو ویٹو کر سکیں گے۔

دنیا حیرت و پریشانی و شش وپنچ کے عالم میں افغانستان میں رونما ہونے والے واقعات کو دیکھ رہی ہے۔ طالبان گزشتہ شب کابل سے امریکی افواج کا انخلا مکمل ہوجانے کے بعد خوشیاں منا رہے ہیں اور پاکستان کے عوام اور حکومت یکساں طور سے ان خوشیوں میں شریک ہیں۔ ان میں قوت ایمانی سے دنیا کی سپر پاور کو خاک چٹوانے کا دعویٰ کرنے والے بھی ہیں اور افغانستان میں بھارت کی سرمایہ کاری کے علاوہ سفارتی ناکامی میں پاکستان کی سرخروئی دیکھنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔

15 اگست کو کابل پر طالبان کے اچانک قبضے، صدر اشرف غنی کے فرار اور کاغذوں کی حد تک تین لاکھ نفوس پر مشتمل اور دنیا کے اعلیٰ ترین ہتھیاروں سے لیس افغان فوج کے دھوئیں کی طرح منتشر ہوجانے کے ناقابل یقین واقعات کے بعد امریکہ کو انتہائی عجلت، شرمساری اور مشکل حالات میں افغانستان سے ہزاروں امریکیوں و اتحادی فوجوں کا ساتھ دینے والے افغان شہریوں کو ملک سے نکالنے کا کام سرانجام دینا پڑا۔ دو ہفتے کی مختصر مدت اور چند روز پہلے داعش کے دہشت گرد حملہ کے باوجود امریکی فوجی سوا لاکھ کے قریب لوگوں کو ملک سے نکال کر لے گئے۔ باقی ماندہ امریکی یا یورپی شہریوں اور افغان باشندوں کے انخلا کے لئے اب طالبان سے مواصلت کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ۔ سفارتی بائیکاٹ اور معاشی پابندیوں جیسے ہتھکنڈوں سے اس جنگجو گروہ کو زیر کرنے اور اپنی بات ماننے پر مجبور کرنے کی خواہش کا اظہار سامنے آچکاہے ، جس نے بیس برس تک دنیا کی سپر پاور امریکہ ، نیٹو اور دیگر حلیف ممالک کی افواج کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ وقت ہی اس بات کا تعین کرے گا کہ طالبان کی نئی قیادت اب امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لئے کون سی بنیاد فراہم کرے گی۔

یہ سب زمینی حقائق ہیں۔ 2001 سے شروع ہونے والی جنگ اور اس کے بعد صدر جو بائیڈن کی طرف سے 31 اگست 2021 تک تمام امریکی و اتحادی افواج کو افغانستان سے نکالنے کا اعلان اور اس کی پابندی کے معاملہ پر دنیا کے دیگر ملکوں کے علاوہ امریکی دانش ور، مبصر و محقق اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں اور یہ سلسلہ شاید آنے والے چند برسوں تک جاری رہے گا۔ پاکستان میں طالبان کو اسلامی کاز کے مجاہد قرار دے کر ان کی حمایت کرنے والے عناصر ہی افغانستان میں جنگجو گروہ کی کامیابی کو ملک اور خطے کے لئے روشنی کی کرن قرار نہیں دے رہے بلکہ اب اس آواز میں ریٹائر ہوکر کسی مغربی ملک میں آرام دہ زندگی گزارنے والے سفارت کار بھی شامل ہوگئے ہیں۔ جو انگریزی کے فرسودہ محاوروں سے مرصع زبان میں ملکی و غیر ملکی اخباروں میں تبصروں یا انٹرویوز کی صورت میں امریکی ناکامیوں، حماقتوں اور معاشی تباہیوں کا احوال بیان کرکے داد وصول کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کاوشوں میں پاکستان کا سرکاری و غیر سرکاری میڈیا بھی جوش و خروش سے شامل ہے جو محروم و مجبور پاکستانی عوام کو خوشی کی کوئی اور خبر تو دینے میں ناکام ہے لیکن ایک سپر پاور کی ’طالبان کے ہاتھوں شکست‘ کا قصہ نہایت پرجوش انداز میں پیش کرکے پاکستانی عوام کی روزمرہ مشکلوں پر ’مرہم‘ رکھنے کی اپنی سی کوشش کررہا ہے۔

پاکستانی عوام کے لئے افغانستان کے حالات میں کامیابی و کامرانی کے تین پہلو بیان کئے جارہے ہیں۔

 ایک: جد و جہد کرنے والے طالبان امریکہ جیسی طاقت کے سامنے کامیاب ہوئے ہیں کیوں کہ انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ کے پاس گھڑی ہے لیکن وقت ہماری مٹھی میں ہے۔ یہ بتاتے ہوئے البتہ کوئی یہ سوال کرنے کی کوشش نہیں کرتا کہ کیا اس مٹھی میں افغان عوام کے لئے چین، سکون اور اطمینان بھی لکھا ہے۔ داعش کے حملوں اور پنجشیر میں ممکنہ تصادم کی صورت حال میں یہ پیش گوئی کرنا ممکن نہیں ہے۔

 دوئم: بھارت نے افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لئے کثیر سرمایہ کاری کی تھی اور اشرف غنی کی حکومت کو مسلسل پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے اور سفارتی محاذ آرائی کے لئے استعمال کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ افغانستان میں پاکستان دشمن عناصر جن میں تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان قوم پرست تحریک کے کارکن شامل ہیں، کی سرپرستی کرکے انہیں پاکستان میں تخریب کاری پر اکساتا رہا تھا۔ طالبان کی کامیابی سے یہ بھارتی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔ اب طالبان اسے افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس بیان میں اس حد تک تو سچائی ہے کہ بھارت کو طالبان کی اچانک سیاسی کامیابی سے شدید سفارتی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کے متعدد پاکستان دشمن منصوبے خاک میں مل گئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ نوٹ کرلینے میں بھی حرج نہیں ہونا چاہئے کہ طالبان نے بھارت کے ساتھ سفارتی و معاشی تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ایک روز پہلے یہ خبر بھی سامنے آچکی ہے کہ دوحہ میں بھارت اور طالبان کے درمیان باقاعدہ بات چیت کا آغاز ہؤا ہے۔

سوئم: پاکستانی حکومت کے ترجمان مسلسل یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ افغانستان کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان نے تو برسوں پہلے سیاسی مکالمہ کو بطور حل پیش کردیا تھا لیکن امریکہ نے پاکستانی لیڈر کی بات نہ مان کر خود اپنا بھی نقصان کیا اور پاکستان کو بھی کثیر جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ بالآخر دوحہ میں طالبان کے ساتھ معاہدہ ہی کے ذریعے امریکہ اس جنگ سے نجات حاصل کرپایا ہے۔ لیکن انخلا کے معاملے میں پاکستان کی بات نہیں مانی گئی جس کا نقصان انخلا کے وقت شدید مشکل اور شرمندگی کی صورت میں اٹھانا پڑا۔ یہ ’تصویر‘ دکھاتے ہوئے پاکستانی لیڈر امریکہ کو یہ بتارہے ہیں کہ مستقبل میں بھی اگر افغانستان میں امن قائم کرنا ہے اور وہاں مناسب حالات کو درست سمت میں رکھنا ہے تو پاکستان کی بات مانی جائے یعنی پاکستان کو ’معاون خصوصی‘ کے رتبے پر فائز رکھا جائے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے برطانوی ٹی وی اسکائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے اسی مؤقف کو دہرایا ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا ہے کہ طالبان کو موقع دیا جائے، افغانستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے اور افغان عوام کو معاشی تباہی کے گڑھے میں نہ دھکیلا جائے۔ بصورت دیگر وہاں ایک بار پھر وہاں خانہ جنگی شروع ہوگی اور دہشت گرد تنظیمیں مستحکم ہونے لگیں گی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ طالبان نے بھی پاکستان سے اپنی وکالت کرنے کی درخواست کی ہے یا پاکستانی حکومت اپنے تئیں ہمسایہ ملک کی ہمدردی و دوستی میں طالبان کا مقدمہ لڑنے کے لئے بے چین ہوئی جارہی ہے۔ طالبان پر اعتبار کرنے اور وہاں معاشی ترقی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کا مشورہ دیتے ہوئے پاکستان کو ضرور اپنا بھی کوئی فائدہ دکھائی دیتا ہوگا۔ افغانستان میں غیر ملکی مداخلت کے چالیس برسوں میں صرف افغانستان کے مختلف گروہوں نے ہی ہاتھ نہیں رنگے بلکہ پاکستان کی معیشت کو بھی ’افغان جنگ‘ کی وجہ سے سہارا ملتا رہا ہے۔ تفصیلات میں جانے کامحل نہیں ہے لیکن شاہ محمود قریشی، معید یوسف اور فواد چوہدری کے بیانات کو ملا کر پڑھ لیاجائے تو ان میں یہ دبی ہوئی خواہش مل جائے گی کہ ’ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں‘۔ ہم نے بھی بہت خدمت انجام دی ہے، انہیں نظر انداز نہ کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ پاکستان کی معیشت بھی اس وقت امریکی نظر کرم اور عالمی اداروں کی فراہم کی جانے والی مراعات ہی کی محتاج ہے۔

امریکی انخلا کے منصوبے پر عمل درآمد کے دوران جس طرح پاکستان نے بے دام غلام کے طور پر خدمات سرانجام دی ہیں اور جیسے ہوٹلوں سے لے کر سٹوڈنٹس ہوسٹلوں کو کابل سے نکالے جانے والے لوگوں کے لئے فراہم کیا گیا ہے اور دوسری تکنیکی سہولتیں فراہم کی گئیں ، اس کا مقصد بھی امریکہ کو راضی رکھنا تھا۔ ان خدمات کا ایک ضمنی فائدہ معاوضے کی صورت میں وصول بھی کیا گیا ہے (بہتر ہوگا کہ ملک کی دیانت دار حکومت اس مد میں وصول کئے گئے وسائل کی تفصیلات عام کردے)۔ تاہم یہ مختصر المدت مالی سہولت نہ تو پاکستانی ضروریات کے لئے کافی ہے اور نہ ہی پاکستانی لیڈر اس پر ’قناعت‘ کرنے والے ہیں۔ وہ امریکہ کی تجارتی منڈیوں تک رسائی کی بات کرتے ہیں لیکن عالمی اداروں سے سہولتیں لینے کے لئے امریکہ کی معاونت چاہتے ہیں۔ گو کہ پاکستان میں میڈیا اور تھنک ٹینک کے فورمز پر افغانستان میں ہزیمت کے حوالے سے امریکیوں کو ’احمقوں کا ٹولہ‘ کہنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا لیکن امریکی اتنے سیانے ضرور ہیں کہ انہوں نے ابھی تک نچلی سطح کے اہلکاروں کی طرف سے توصیفی بیانات کے علاوہ کوئی ٹھوس وعدہ نہیں کیا ہے۔

پاکستان ضرور طالبان کی حمایت کرے اور وزیر اعظم ضرور کابل پر اچانک قبضے کو ’غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے‘ سے موسوم کرتے رہیں لیکن یہ نوشتہ دیوار بھی پڑھ لینا چاہئے کہ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کے لئے صرف طالبان کا اعتبار ہی ان کے عملی اقدامات مشروط نہیں ہے بلکہ پاکستان کے بارے میں بھی شبہ اور بے یقنی کی یہی کیفیت موجود ہے۔ امریکہ اگر طالبان سے کہتا ہے کہ وہ پہلے دہشت گرد گروہوں کو کنٹرول کرنے اور بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کے وعدوں کو یقینی بنائیں تو پاکستان سے بھی بالواسطہ طور سے بہتر کردار کا سرٹیفکیٹ ہی مانگا جارہاہے۔ پاکستان کی خدمات اور’ درست پیش گوئیوں ‘ پر مبنی پے در پے بیانات سے یہ صورت حال تبدیل نہیں ہوگی۔

افغانستان میں طالبان کی کامیابی کے بعد اب کہیں سے یہ آواز سننے کو نہیں ملتی کہ افغانستان کے حالات پاکستان کی مداخلت کی وجہ سے خراب ہوتے رہے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ پاکستان کو کھیل کا ذمہ دار پارٹنر مان لیا گیا ہے۔ یہی نکتہ پاکستانی قیادت کے لئے تشویش و پریشانی کا سبب بھی ہونا چاہئے۔ افغانستان میں بدامنی اور حکمرانوں کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کا الزام بھلے پاکستان پر عائد نہ ہو لیکن ایسی کسی بھی صورت حال کی قیمت صرف افغانستان کو نہیں پاکستان کو بھی عالمی نگرانی اور مراعات میں کمی کی صورت میں ادا کرنا پڑے گی۔

اب پاکستان کو طے کرنا ہے کہ وہ کسی گم شدہ خواب کی تکمیل کے لئے طالبان کی ’غیر مشروط‘ حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا یا وہ بھی باقی ماندہ اقوام کے ساتھ مل کر طالبان سے اصلاح احوال کا عملی ثبوت دینے کا مطالبہ کرے گا۔ پر جوش اور گمراہ کن بیانات کے عادی پاکستانی لیڈروں کو جان لینا چاہئے کہ طالبان سے اس ذمہ داری کا مطالبہ صرف امریکہ یا اس کے حامی ممالک ہی نہیں کرتے بلکہ چین اور روس بھی انتہا پسندی اور جنگ جوئی کے خلاف واضح اور شفاف حکمت عملی کا تقاضا کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments