ڈاکٹر ظہیر عباس میری نظر میں


راقم نے اردو ادب میں ایم۔ اے بطور پرائیویٹ امیدوار کیا۔ ایم۔ اے کی ڈگری لے لینے کے بعد پتا چلا کہ میرا تو ابھی تک اردو کا تلفظ ہی درست نہیں ہے، جب ایک چیز کو درست پڑھا ہی نہ جا سکے تو وہ چیز پلے کیسے پڑے گی۔ نوکری کے ساتھ ساتھ اردو کی دوسری منزل تک جانا قدرے دشوار تھا۔ دو تین سال مسلسل کوشش کے بعد اردو کچھ کچھ پڑھنی آ گئی۔ اسی دوران لائبریری کی مستقل رکنیت لے لی اور خارجی مطالعے کی راہ ہموار ہو گئی۔ کچھ جدید و قدیم ناول اور افسانے بھی پڑھ چھوڑے۔ تنقید اور تحقیق کی بھی کوئی دو چار کتابیں نظروں سے گزار لیں، کیوں کہ جب آپ نے پرائیویٹ ایم۔ اے کیا ہو، آپ کو تنقید اور تحقیق کے سیاق و سباق سے بھی آگہی نہ ہو، تو جتنی مرضی تنقیدی و تحقیقی کتب پڑھ لیں، وہ نظروں سے گزارنے کے مترادف ہی متصور ہوں گی۔

روایتی قارئین کی طرح راقم کو شاعری پڑھنے کا بھی جنون کی حد تک شوق تھا۔ اسی شوق کی تسکین کے لیے ناصر کاظمی کو اپنی طرف سے اچھی طرح پڑھ چھوڑا۔ ایم۔ فل اردو میں نیا نیا داخلہ لیا تو محسوس ہونے لگ گیا تھا، کہ میرا رجحان شاعری کی طرف ہے اور میں ناصر کاظمی پہ مقالہ لکھوں گا۔ پہلا سیمسٹر گزر گیا، ناصر کاظمی کو اچھی طرح رٹ لیا گیا۔ پہلے سیمسٹر کے دوران بھی تنقید کچھ روٹھی ہوئی نظر آئی۔ تحقیق کا بھی حال اچھا نہیں تھا اور فکشن سے بھی دوستی نہیں ہو رہی تھی۔ دوسرے سیمسٹر کی پہلی ہی کلاس میں راقم نے ڈاکٹر ظہیر عباس کو تیسری آنکھ سے بھانپ لیا، جیسے ایک اچھا استاد کسی ہونہار طالب علم کو پہلی نظر میں پہچان لیتا ہے، ایک پڑھنے والا طالب علم بھی پڑھانے والے استاد کی جانچ کر لیتا ہے۔

خیر راقم کے سارے اندازے درست ثابت ہونے لگ گئے۔ تنقید اور عملی تنقید کی بھی سمجھ آنے لگ گئی۔ تحقیق کیسے کرنی ہے، کچھ کچھ پلے پڑنے لگ گیا۔ اب میں نے منٹو، عصمت، غلام عباس، بیدی، اسد محمد خان، یلدرم، پریم چند اور کافی مشہور و معروف افسانہ نگاروں کو پڑھ رکھا تھا۔ سبھی افسانوں کے کردار رٹ چھوڑے تھے۔ سبھی افسانوں کے خلاصے یاد تھے۔

ایک بہت بڑا مسئلہ درپیش تھا کہ ان افسانوں پر بات کرنی نہیں آتی تھی۔ ایک مرکزی خیال کو طول دینا کار دشوار لگتا تھا۔ بات سے بات پیدا کرنا نہیں آتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ فکشن اور تنقید پر ہر روز سود مند بحث ہونے لگ گئی۔ انہوں نے عملی تنقید کا ایک ہی کیپسول دیا، کہ بیٹا کسی فن پارے کی عملی تنقید کرتے وقت کیا طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے، کن چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ راقم نے دو تین سالوں میں جو کچھ پڑھ رکھا تھا، اس کی سمجھ آنے لگ گئی۔

افسانوں کے کردار بھول گئے، کہانیوں کے تھیم، پلاٹ، اسلوب، پس منظر، ان کی نفسیات، ماحول، رنگ، سوچ، اور تمام لازمی عوامل یاد رہنے لگ گئے۔ اسی اثناء میں راقم نے ڈاکٹر صاحب سے شاعری پر مقالہ لکھنے پر رائے لی، تو انہوں نے حکم دیا کہ اگر تم فکشن نہیں ( پڑھو اور لکھو ) گے تو اپنی طبعیت پر ظلم کرو گے۔ ( کاکا ) شاعری تمہارے بس کی بات نہیں۔ البتہ فکشن کے ساتھ تمہارا تعلق دیر پا نظر آتا ہے۔

ان کی یہ تھپکی کام آ گئی۔ اب فکشن پڑھنا تو آ گیا، لکھنا سیکھ رہا ہوں۔ وہ اکثر ایسی تھپکیاں دیتے رہتے ہیں اور ان کی ہر تھپکی کام آنے والی ہوتی ہے۔ چھوٹی سی غلطی بھی فوری پکڑ لیتے ہیں اور انگلی پکڑا کے چلنا سکھاتے ہیں۔ ان کی انگلی پکڑ لینے کے بعد پھسلنے کا ڈر بھی رفع ہو جاتا ہے۔

کسی فن پارے کو پڑھنے کے گر، سمجھنے کا فارمولا اور لکھنے کا فن انہی کی عطاء ہے۔ میرے لیے تو وہ ایسے ثابت ہوئے ہیں کہ جیسے صحرا میں سیلاب آ جائے۔ وہ وسیع مطالعے کے مالک ہیں۔ عالمی ادب پر ان کی مسلسل نظر ہوتی ہے۔ خاص طور پر جدید ناول، افسانہ اور تنقید ان کے ریڈار میں ہوتے ہیں۔ وہ دور جدید کے صاحب اسلوب افسانہ نگار ہیں، فکشن اور تنقید کے سنجیدہ قاری ہیں۔ بطور شخصیت بھی وہ نستعلیق انسان ہیں۔ عجز و انکساری کا مرقع ہیں۔ ایک بہت اچھے دوست، شاخ زعفران اور محسن ہیں۔ علم دوست، ادب پرور، دور اندیش اور تعمیری سوچ کے مالک ہیں۔ علم سمیٹتے بھی ہیں اور بانٹتے بھی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments