راؤ طارق لطیف: جس کے ایک اشارے پر پورا لاہور بند ہو جاتا تھا


ایک بہت ہی عزیز دوست، کامریڈ جس کا آپ کے ساتھ پچاس سال سے زیادہ کا رشتہ ہو، اس کے بارے میں لکھنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں لا کالج ہاسٹل کی کمرہ نمبر 5 میں رہتا تھا۔ یہ پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے الیکشن کے دن تھے۔ ایک شام جب میں اپنے کمرے میں تھا تو پانچ چھ لمبے تڑنگے، موٹے تازے، بڑی بڑی مونچھوں والے بندے میرے کمرے میں داخل ہوئے اور انہوں نے تعارف کروایا کہ یہ طارق لطیف ہے اور یہ ہمارا صدارت کا امیدوار ہے۔

یہ جنرل یحییٰ خان کی دور میں یونیورسٹی یونین کا پہلا الیکشن تھا۔ ہم نے ان دنوں بائیں بازو کی ماؤسٹ نیشلسٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن Nationalist Students Organisation (NSO) بنائی ہوئی تھی۔ ہم چاہتے تھے کہ یونیورسٹی میں اسلامی جمیعت طلبا کی اجارہ داری ختم کی جائے۔ سو ہمارا مقصد یہ تھا کہ براہ راست دائیں اور بائیں بازو میں مقابلہ ہو۔ ہمارے خیال میں جہانگیر بدر جو کہ ہیلی کالح آف کامرس طلبا یونین کا صدر رہ چکا تھا اسلامی جمیعت طلبا کے امیدوار حافظ ادریس کا مقابلہ کرنے کے لئے بہترین اور موزوں امیدوار تھا۔ طارق لطیف اور شاہد محمود ندیم بھی صدارت کے امیدوار تھے۔ لیکن انہوں نے ہماری درخواست پر یہ ارادہ ترک کر دیا اور جہانگیر بدر کی حمایت کی۔ یہ ہماری دوستی کی ابتدا تھی۔ میں نے طارق لطیف اور طارق مسعود کو این ایس او کا ممبر بنایا۔

این ایس او نے اولڈ کیمپس یونیورسٹی کیفے ٹیریا میں نکالے جانے والے صحافیوں کے لئے ایک استقبالیہ کا انتظام کیا اور طارق لطیف نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ الیکشن کی شام کو نیو کیمپس سٹوڈنتس ٹیچر سنٹر STC میں بائیں بازو کے طلبا اور بنگالی ساتھی یہ نعرے لگاتے تھے۔

جیڑا واوے اوہے کھاوے، سوشلزم آوے ای آوے
سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے
تیرا باڑی میرا باڑی نکسل باڑی
جالو جالو آگن جالو، گورے گورے آگن جالو
شنگ رام شنگ رام
چولبے چولبے
امریکی سامراج مردہ باد
امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے

صدارتی الیکشن میں بے ضابطگیاں تھیں۔ سو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم سیکریڑی کے الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے اور اسے نہیں ہونے دیں گے۔ طلبا نے پولنگ بوتھوں پر حملہ اور الیکشن کو تہس نہس کر دیا۔ جس کے نتیجہ میں طلبا کو مارشل لا کے ضابطہ کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ این ایس او کے چیف کنوینر کو ایک سال کی سزا ہوئی۔ اس اہم خلا کو پر کرنا بہت ضروری تھا سو میں نے طارق لطیف کو چیف کنوینر بنا دیا۔

مجھے میرے سینیرز نے مشورہ دیا کہ کچھ دنوں کے لئے ہاسٹل سے دور رہو۔ طارق کے پاس میرے کمرے کی چابی تھی۔ ایک دن پولیس نے میرے کمرے پر چھاپہ مارا اور یہ سجھتے ہوئے کہ یہ زمان ہے، طارق کو تھانہ لے گئے۔ اسے بعد میں سول لائنز تھانہ سے رہا کیا گیا۔

ہم زیادہ تر وقت اکٹھا گزارتے تھے کامریڈ کے ساتھ ساتھ ہم گہرے دوست بھی بن گئے۔ لا کی ڈگری لینے کے بعد ہم نے اپنے سینیرز کے ساتھ پریکٹس کا فیصلہ کیا۔ میں ان دنوں 2 /بی ٹیگور پارک نکلسن روڈ میں اپنے دوست طارق اقبال کے فلیٹ میں رہتا تھا جو اب بہت بڑا بینکر ہے۔ ایک دن میں طارق لطیف اور طارق مسعود ’الغل‘ کر رہے تھے اور نعرے لگا رہے تھے

جیڑا واوے اوہی کھاوے، سوشلزم آوے ای آوے
سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے
ہمسایہ میں رہنے والے جماعت اسلامی کے ممبر نے تبصرہ کیا۔
گڈی تھلے
ہم نے اس کے تبصرہ سے بہت لطف اٹھایا۔

ہمارا زیادہ تر وقت اکٹھے طلبا اور مزدوروں میں نظریاتی اور سیاسی کام کرتے ہوئے گزرتا تھے۔ ایک دفعہ میں طارق کے گھر 42 ایف ماڈل ٹاؤن میں منتقل ہو گیا۔ میں طارق کا گھر کا فرد بن گیا۔ میری امینہ رضوان سے شادی کے موقع پر طارق برات اور ولیمہ میں آنے والے چند لوگوں میں شامل تھا۔

مجھے یہ بھی یاد ہے کہ جب ہم پہلی دفعہ صنعتی علاقہ کوٹ لکھ پت میں مزدور رہنماؤں سے ملنے گئے تو وہاں ہماری عبد الرحمان، الطاف بلوچ، محمد اکبر اور باجی شمیم سے ملاقات ہوئی۔ ہم لاہور کے صنعتی علاقوں بشمول ریلوے میں سٹڈی سرکل لیتے تھے۔ بزرگ ٹریڈ یونین لیڈرز ضیا الدین بٹ ’پیپلز گارڈ کے چیف سالار اور محمود بٹ کا ذکر بہت ضروری ہے جو ہماری ٹیم کا حصہ تھے۔

میں ایک بہت ہی دلچسپ واقعہ بتانا چاہوں گا۔ این ایس او کا ایک ممبر شہزاد خان سرگودھا میں رہتا تھا۔ ایک صبح وہ مال روڈ پر ہمارے لا چیمبر میں اپنی دوست فرزانہ کے ساتھ آیا۔ دلچسپ پہلو یہ کہ عین اسی وقت اس کا چچا زاد بھائی آصف خان لڑکی والوں کے ساتھ ہمارے آفس پہنچ گیا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب میں کیا کروں۔ میں نے آصف خان اور دوسروں کو ایک کمرے میں بند کر دیا اور شہزاد اور فرزانہ کو لے 42 ایف ماڈل ٹاؤن چلا گیا۔ طارق گھر پر نہیں تھا۔ طارق نے ان کو دوست عبدالرفیع کے گھر رحمان پورہ منتقل کر دیا اور ان کا نکاح کروا دیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ عبدالرفیع جنرل ضیا الحق کے دور میں لوکل باڈیز کے الیکشن میں عوام دوست کے ٹکٹ پر کونسلر منتخب ہو گیا تھا اور اس کا لاہور کا میئر بننا یقینی تھا لیکن اسے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ اگلے دن لڑکی کو اس کے ورثا کے حوالے کر دیا گیا۔

یہ ایک اور دلچسپ کہانی ہے کہ جب بیرسڑ اعتزاز احسن نے حبس بے جا کی رٹ کی تو فرزانہ نے شہزاد کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔

طارق لطیف (دائیں سے پہلے)

طارق اب 104 ایف ماڈل ٹاؤن میں منتقل ہو گیا تھا۔ اس گھر میں بہت بڑا لان تھا جس میں سیاسی جلسے بھی ہو سکتے تھے۔ یہ ایک کھلا گھر تھا۔ ہر ساتھی کو رات گزارنے کے لئے خوش آمدید کہا جاتا تھا۔ طارق یتیم بچوں کا بہت خیال رکھتا تھا۔ وہ کسی یتیم بچے کو لے کر اس کی تعلیم و تربیت کرتا اور اسے گھر کا فرد بنا لیتا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ زمانہ ماؤ نوازاور روس نوازکے حامیوں کے درمیان کشمکش کا دور تھا۔ مزدور طبقہ بھی اس کا شکار تھا۔ کوٹ لکھ پت کے ٹریڈ یونینسٹ بھی اس تفریق میں شامل تھے۔ رحمان نے ماوسٹوں کا ساتھ دیا جب کہ الطاف بلوچ اور اکبر سویٹ یونین کے حامی تھے۔ بد قسمتی سے اس جھگڑے میں رحمان کا بہیمانہ قتل ہو گیا۔ الطاف اور اکبر ایف آئی آر میں نامزد ہو گئے۔ بد قسمتی سے ان کو کافی عرصہ جیل میں گزارنا پڑا اور طارق لطیف، طارق رحمان بن گیا۔

ایک وقت آیا جب طارق نے کور گروپ سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا اور تمام متحرک طلبا اس کے ساتھ تھے۔ اس نے مجھے بھی میٹنگ میں بلایا مگر میں نے ان کے فیصلہ سے اتفاق نہیں کیا اور مشورہ دیا کہ آپ مزدور کسان پارٹی میں شامل ہو جائیں۔ جو انہوں نے بعد میں کیا اور مزدور کسان پارٹی میں شامل ہو گئے اور اس وقت تک رہے جب مزدور کسان پارٹی عوامی نیشنل پارٹی میں میں ضم نہیں ہو گئی۔

ہم عوامی نیشنل پارٹی کے تاسیسی اجلاس میں اکٹھے کراچی گئے اور پائلر والے کرامت علی کے پاس ٹھہرے۔ عوامی نیشنل پارٹی حاکم علی زرداری کے گھر بنائی گئی۔

راؤ لاہور کی مزدور تحریک کا بے تاج بادشاہ تھا۔ مجھے یاد ہے 1971 کا مئی ڈے کا جلوس جب مال روڈ اور اس کے ارد گرد کی سڑکوں سے گزرا تو سرخ پرچم لہرا رہے تھے اور مزدور نعرے لگا رہے تھے۔

جیڑا واوے اوہی کھاوے، سوشلزم آوے ای آوے
سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے۔

راو لیڈروں کا لیڈر تھا۔ متحدہ مزدور مجلس عمل، گروپ کا فرنٹ نسبت روڈ پر زیر تعمیر بشیر بختیار لیبر ہال کی چھت پر قائم کیا گئی۔ ہم سب مزدور کسان پارٹی میں شامل ہو گئے جب تک یہ عوامی نیشنل پارٹی میں ضم نہیں ہو گئی۔ ہم عظیم باچا خان کو غلام احمد بلور کے گھر ملنے گے اور ان سے آزادی کی تحریک میں کردار اور حصہ کے بارے میں سنا۔ وہ ایک بچہ کی طرح ویل چیر میں بیٹھے تھے۔ وہ نوے سال کی عمر میں بھی بغیر عینک کے اخبار پڑھ رہے تھے۔

ہم باچا خان کے جنازے میں جلال آباد گئے۔ ہم خوش قسمت تھے کہ جیسے ہی ہم اپنی جیپ سے اترے زور دار دھماکہ ہوا جس سے ہماری جیب کو بھی نقصان ہوا اور ہمیں بغیر ونڈ سکرین کے سردیوں میں واپس آنا پڑا۔

جب نسیم ولی خان خفیہ طور پر لاہور میں نواز شریف کو ملی تو بائیں بازو کے کارکنوں کو اس پر غصہ تھا۔ میرے ذمہ دوستوں نے لگایا کہ میں اس کی تنقید اور مذمت کروں میں نے ولی خان سے کہا کہ ’ہم دم چھلہ سیاست کر رہے ہیں‘

جس کا بہت برا منایا گیا مگر ولی خان نے اس کو صبر سے سنا۔ یہ بائیں بازو اور عوامی نیشنل پارٹی کے تعلق کا خاتمہ تھا۔ عوامی نیشنل پارٹی ایک قوم پرست پختون پارٹی بن گئی۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ کئی سیاسی جماعتوں نے راؤ کو بہت لالچ اور اسمبلی کی سیٹ بھی پیش کی مگر وہ اپنے نظریہ پر ڈٹے رہے اور اپنے بائیں بازو کے نظریہ سے دھوکہ نہیں کیا۔ میں سارے ترقی پسندوں اور پاکستان کے بائیں بازو سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں، راؤ نے اپنا آخری وقت اکیلے اپنے بھائی کے گھر، ایک مددگار کے ساتھ گزارا۔ پاکستان کے ترقی پسند ایک ایسا ادارہ بنانے میں کیوں کامیاب نہیں ہو سکے جہاں بزرگ کامریڈوں کا خیال رکھا جائے۔ سرکار صحت کا خرچ اور مدد صرف اشرافیہ اور اپنے کاسہ لیسوں کی کرتی ہے۔

ہم نے آخری سفر اکٹھے سری لنکا کا کیا۔ واپسی پر رات ہمیں کراچی ائرپورٹ پر گزارنی پڑی کیونکہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ایر پورٹ پر آمد میں تاخیر کی وجہ سے جہاز وہاں سے دیر سے اڑا تھا۔ راؤ نے بڑھاپے میں طلاق یافتہ شیلا سے شادی کرلی جس کے پہلے خاوند سے دو بچیاں عائشہ اور فاطمہ تھیں۔ ماڈل ٹاؤن کے ڈی بلاک کی گراؤنڈ میں ولیمہ کی دعوت دی گئی اور ’الغل‘ سر عام ہوا۔

راو نے ان بچیوں کی پرورش اور تعلیم میں بہت دلچسپی لی۔ اب یہ دونوں بچیاں اپنے پاؤں پر کھڑی ہیں۔ راؤ میری رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن میں باقاعدگی سے اپنی بیوی شیلا راو کے ساتھ ’الغل‘ کے لئے آتا تھا۔ بد قسمتی سے شادی زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکی۔

راو نے سادہ زندگی گزاری۔ وہ عام مزدور کی طرح کھاتا اور رہتا تھا۔ اس کا گھر سب کے لئے کھلا تھا۔ اور اس کی والدہ سب کے لئے کھانا پکاتی تھی، خاص کر وہ بہت لذیذ ارہر کی دال اور چپاتی بناتی تھیں۔ ہر ماں کی طرح طارق کی والدہ بھی یہ کہتی تھی کہ ’میرے بیٹے کو زمان خراب کرتا ہے‘ ۔

گو طارق کی فیملی یو پی سے ہجرت کر کے پاکستان آئی تھی مگر ان کے پاس اپنا کوئی گھر ماڈل ٹاؤن میں نہیں تھا۔ ساری زندگی یہ کرایہ کے مکان میں رہے۔

وہ بہت اچھا مقرر تھا گو اس کا تعلق اردو بولنے والوں سے تھا مگر وہ ہمیشہ پنجابی بولتا اور اس میں تقریر کرتا تھا۔ جس طریقہ سے اس نے مزدور رہنما رحمان کے بہیمانہ قتل کے بعد مزدوروں کے جذبات کو قابو میں رکھا وہ قابل ستائش ہے۔ اس نے طارق رحمان کا نام اپنا لیا۔

راو نے جنرل ضیا کے تاریک اور جبر کے دور میں بھی یوم مئی منانے کی روایت قائم رکھی۔ وہ بہت دفعہ جیل گیا ایک / دو مقدمات میں ہم دونوں اکٹھے ملزم تھے۔ طارق مسعود کے بڑے بیٹے پروفیسر وقاص مسعود نے، جسے راو طارق نے اپنے بیٹوں کی طرح پالا، بتایا کہ بچپن میں وہ یوم مئی پر عوامی اور انقلابی شاعر حبیب جالب کی نظم ’بندے کو خدا کیا لکھنا‘ پڑھا کرتا تھا۔

راو 1983 کی ایم آر ڈی تحریک میں گرفتاریاں پیش کرنے کے لئے رضاکاروں کا بندوبست کرتا تھا۔ وہ طارق مسعود کے ساتھ واپڈا بم کیس میں پکڑا گیا اور انہیں لاہور کے شاہی قلعہ میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

وہ ذلت کے مارے لوگ، ظلم جبر کا شکار، بے کس و مجبور انسانوں کے لئے روشنی کا مینار تھا اور آخری عمر تک اپنے نظریہ کے ساتھ وابستہ رہا۔ گو اس کا مشن نامکمل رہا مگر وہ عزت اور وقار کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوا۔ وہ باشعور سیاسی رہنما تھا۔

وہ ایسا مزدور رینما تھا جو مارکسزم میں یقین رکھتا تھا اور اس نے مزدوروں اور کسانوں کے اقتدار کے لئے جدوجہد کی۔ وہ پیشہ ور ٹریڈیونینسٹ نہیں تھا۔ اس میں بہت حس مزاح تھی اور وہ خود پر بھی ہنس سکتا تھا۔ وہ بریگیڈیر راو عابد حمید اور اعجاز احمد کا قریبی رشتہ دار تھا۔

اس کا والد یو پی میں فوت ہوا۔ اسے شک ہے کہ اسے زہر دیا گیا تھا۔ وہ بتاتا تھا کہ اس کے خاندان کا اتنا رعب اور دبدبہ تھا کہ ایک دفعہ اس کے والد نے ایک ہندو کی چوٹی کاٹنے کا حکم دیا ’اسلام خطرہ میں نہیں تھا‘۔

آخری دنوں میں اس کی ساتھی کتابیں تھیں۔ اس کو بڑھاپے کی بہت ساری بیماریاں لاحق تھیں۔ وہ لیڈروں کا لیڈر تھا اور اس کے ایک لفظ پر پورا لاہور بند ہو جاتا تھا۔ فیملی پہلے ہریانہ میں رہتی تھی مگر بڑوں کو جاگیر ملنے پر مظفر نگر، یو پی منتقل ہو گئی تھی۔

اس کی بیوی شیلا راو اور بچیاں عائشہ راو اور فاطمہ راو کہلاتی تھیں۔ میں اور طارق بہت بے تکلف تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ مذاق بھی کر لیتے تھے۔ میں ایک دن مذاق کہا کہ یہ سب راو کیسے بن گئیں تو اس نے مجھے آنکھ مار کر، قہقہہ لگا کر کہا ’جیسے سب بنتے ہیں‘ ۔

عظیم انقلابی اور عوامی شاعر حبیب جالب روزانہ شام کو چوہدری انور کے دفتر میں ’الغل‘ کے لے اس کا مہمان ہوتا تھا۔ طارق نیو سکول ماڈل ٹاؤن اور ایف سی کالج میں پڑھا۔ اسے خاندانی وجوہات کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی اس نے کئی سال بعد لا کالج میں داخلہ لیا۔

مجھے سرکار سے راو طارق لطیف کو کوئی ایوارڈ دینے کی توقع نہیں ہے کیونکہ یہ بات میرے ذاتی علم میں ہے کہ عمر اصغر اور کرامت علی نے بہت سنجیدگی سے کوشش کی کہ جنرل مشرف سرکار، عظیم مزدور رہنما مرزا ابراہیم کی آزادی کے لئے اور مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کو مانتے ہوئے اسے کوئی ایوارڈ دے مگر وہ ناکام رہے۔ مگر مجھے لاہور کے مزدوروں سے خاص امید ہے کہ وہ طارق کی یاد اور اس کی مزدوروں کے لئے جدوجہد کی یاد کو زندہ رکھنے کے لئے کچھ ضرور کریں گے۔ مجھے امید ہے کہ LUMS کا ادارہ کسی طالب علم سے راو ٔطارق لطیف پر تھیسس ضرور لکھوائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments