گستاخ اور غدار قرار دینے والے اینکر۔۔۔
ہاں بھئی جان کی امان پاوں تو کچھ عرض کروں۔ یہ حقیقت ہے کہ قانون ایک زنجیر ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جو اس زنجیر کے قفل لگاتے ہیں چابی بھی انہی کے پاس ہے۔ حقیقت تو یہ بھی بتا دی گئی ہے کہ نشانیاں اطراف میں چاروں جانب ہیں مگر سمجھ صرف انہی کو آئیں گی جنہیں عقل ہو گی۔
ایک شخص آج کل خود کو سب سے بڑھ کر محب وطن، سب سے افضل مسلمان اور سب سے اعلی انسان قرار دینے پر خود ہی مصر ہے۔ خود کا لفظ اس لئے استعمال کیا کیونکہ خود ساختہ ڈگری یافتہ بھی ہیں کہ برق کی رفتار سے پی ایچ ڈی کر بیٹھے، سیاست میں خود ساختہ علامہ بھی رہ چکے اور ایک پروگرام کے بعد مذہبی معاملات کے عالم بھی خود ہی بن بیٹھے۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا سیاسی پروگرام میں مہمان ہوتے تھے مگر ہماری آنکھوں کے گناہ کچھ کم نہیں۔ آجکل انہیں میزبان کے روپ میں دیکھ رہی ہیں۔ جانے کونسی معجون کھلائی گئی کہ ایک ہی رات میں اثر کر گئی اور حب وطن رگ و پے میں اتر کر پور پور سے پھوٹ رہی ہے۔ خاکی محبت کا تو یہ عالم ہے کہ یاد ماضی ایسی عذاب ہوئی کہ یادداشت گئی معلوم ہوتی ہے کہ سارے کرتوت ماضی ہوا ہوئے۔ ایک۔ خبط سا طاری ہے آجکل کہ ہر بندے کو غداری اور گستاخی کا تلک لگائے جا رہے ہیں۔ گئے رمضان شو میں ’دل ہے ہندوستانی‘ گانے والے اب ہر شو میں بھارت پہ لعنت بھیجتے ہیں اور بس لال ٹوپی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ حالت جوش تو پورا دیکھا دیکھا سا معلوم ہوتا ہے۔ کھل کھلا کر گمشدہ بلاگرز کو مجرم بتا چکے ہیں۔ اب جبران ناصر کی باری آئی ہے۔ جو کچھ میں نے دیکھا اس کے مطابق صرف ایک نظم پڑھنے پر جبران کو اللہ کی تخلیق سے منحرف سا بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کون لوگ اس دماغی توازن کے بگڑنے پر ہوئی کیفیت کا ایک گھنٹہ ملاحظہ کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب جبران ناصر اور ان تمام گمشدہ افراد کے خاندان محفوظ ہیں یا نہیں۔ میرا مطالبہ یہ ہے کہ متنازعہ ہی سہی مگر قوانین موجود ہیں، عدالتیں ہیں اور ججز بھی چھٹیوں سے واپس آچکے ہیں۔ کیوں نہ مقدمہ ہی ہو جائے۔ ہر روز میڈیا پہ سننے کو بھی مل جائے گا کہ کس نے عدالت میں لطیفہ سنا کر قہقہے لگوا دیے تو کس کو جھاڑ پلا کر چپ کروایا گیا۔ روز کچھ ایسا ہی سنتے آ تو رہے ہیں ہم ایک ماہ سے۔
میرا تعلق نہ موم بتی قبیلے سے ہے نہ فتوی بریگیڈ سے۔ میں ایک عام انسان ہوں جسے نہ پانامہ سے پیسے ملنے کی امید ہے اور نہ عظمی والی وزارت ملنے کی عجلت۔ مجھے نہ کالے کوٹ والوں سے ہمدردی ہے نہ سفید کوٹ والوں سے بغض۔ میرے صرف کچھ اعتراضات اور سوال ہیں۔ طیبہ کو مارنے پیٹنے والی بیگم صاحبہ کہاں ہیں جبکہ دو موبائل چھیننے والوں کو تو منٹوں میں مار پیٹ کے ماچس لگا دی جاتی ہے۔ طوبی کی نسیں بعد میں کاٹی گئیں ہوں گی مگر پہلے تو اس کا نارمل انسان کی طرح جینے کا حق ذبح کیا گیا ہو گا نہ۔ کراچی میں لگے کچرے کے پہاڑوں کے متعلق غور تو تب ہی ہو سکتا ہو گا نہ جب نمائندگان کی سوچ راکٹ، چیمبر اور موسم کے عاشقانہ ہونے سے باہر آئے گی۔ ہمیں دن رات کھٹکتے ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کیا واقعی برے حکمران ہیں؟ اپنے ملک سے تو سچے ہی ہیں باقی ہمارے لئے زردے بریانی پکانے سے رہے۔
سوال کرنے کو محال سا بنایا جا رہا ہے۔ ایک لڑکی ہوا کرتی تھی ’جون آف آرک‘ جسے بدعتی کا نام دے کر جلا دیا گیا تھا۔ بدعت اس کی تھی لڑکی ہو کر لڑکوں کا لباس پہننا۔ ایک خیال سا مجھے یہ بھی آتا ہے کہ ایسے ہی خود ساختہ سے عالم و مفکر گستاخی اور بدعت کی کچوکیں لگا لگا کر مذہب کو سخت تالے لگا گر اتنے اونچے مچان پر رکھ دینگے کہ اس کے بعد کوئی سوچ وہاں تک پہنچانا بھی سزا کو دعوت دینا ہوگا۔ جانے پھر کیا ہوگا ہاں مگر میرا خدا تو مجھے تحقیق کو اکساتا ہے، سوچنے کا کہتا ہے، پوچھنے پر بتاتا ہے۔ خود کو سب سے زیادہ مہربان اور رحم والا کہلواتا ہے۔
میں وہ ہوں جسے فرق ’دنگل‘ کے کئی سو کروڑ کے بزنس سے نہیں پڑتا۔ مجھے پیٹرول اور دودھ کی بڑھتی قیمت ہولاتی ہے۔ پانامہ کا ہنگامہ کون جیتے کون ہارے مگر فرق تو سرکاری اسپتال میں نہ موجود ہونے والے وینٹیلیٹر اور وی آئی پی موومنٹ کے لئے جبراً روکے گئے ٹریفک نے ہی ڈالنا ہے۔ آج بھی ہم اتنے ہی احمق چل رہے ہیں کہ میڈیا ہماری ترجیحات کا تعین کر رہا ہے۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں راہ چلتے لوگ آپ کی انگریزی کا accent اور spellings ٹھیک کرواتے نہیں تھکیں گے مگر کسی کے اخلاقی زوال کی نشاندہی کےلئے رشتہ، پڑوس، لحاظ، مروت، تعلق، وابستگی اور موقع یاد رکھا جاتا ہے۔ جس دن ہم ’کافر‘ اور ’غدار‘ کے بخار سے شفا پائیں گے اس دن ہمیں یہ بھی نظر آجائے گا کہ تعصب اور نفرت ہمارے کتنے حصے بخرے کر گئے ہیں اور انہی حصوں کے درمیان کہیں ہمارے بچوں کا مقتول بچپن کرچیوں کی صورت ہمیں چبھن ڈالتا ہوگا۔
- ایک دن کا بچہ جلانے کی کوشش اور "شف” کے جوتے کے فضائل - 26/11/2021
- جنسی جرائم میں آپ کسے قصوروار سمجھتے ہیں؟ - 15/07/2021
- مدارس اور بوائز ہاسٹلز میں جنسی جبر کا کلچر کون ”ٹریگر“ کرتا ہے؟ - 22/06/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).