ادبیات کا چمن اور اڑان بھرتے پرندے


لوئیس بورخیس نے کہا تھا، “ایک دوسرے کو الوداع کہنا گویا بچھڑنے سے انکار کرنے کے مترادف ہے، یعنی آج بچھڑنے کا کھیل کھیل رہے ہیں کل باہم ہونگے۔ ” وقت کی مسافت سے زندگی عبارت ہے نیز شب و روز کی کشمکش معین ہے۔ گردش دوراں کبھی کبھی ہم فانی انسانوں کیلئے ایسے لمحات لے آتی ہے کہ سرخوشی و طرب کا زندگی سے ناتا ٹوٹ جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک ناگزیر گھڑی ایک استاد کا طلباء کو ایک دن الوداع کہنا ہے۔

ودیا، گیان اور تپسیا کی لو سے دل کی آنکھ روشن کرنے والے گیت کار و موسیقار راوندر جین نے لکھا تھا:

جاتے ہوئے یہ پل چھن کیوں جیون لیے جاتے

بلاشبہ لفظ الوداع کہنا کتنا غمناک ہے ایسے جیسے روح کا جسم سے فراق ہو چکا ہو۔ ہر سو اداسی سرایت کر جاتی ہے، کمرہ جماعت، لائبریری، کھیل کا میدان اور پیڑ پودے سب سوچتے رہ جاتے ہیں کہ وہ نوخیز و نوبہار چہرے اور محبت بھری آنکھیں جانے کس سمت مسافر ہوگئیں جنہوں نے کبھی نا بچھڑنے کا پیمان باندھا تھا۔

آج آٹو گراف لینے سے پہلے طلباء نے سارے سال کی سرگرمیوں کا اختصار سے منظر کھینچ دیا۔

کیسے مارک ٹوین کے مضمون پر مبنی سبق نے شعور کے نئے در وا کئے، سٹیفن لیکاک کا ان مٹ کردار “جگنز” وہ قہقہہ لگانے کا باعث بنا جس کی آواز کنٹین تک سنائی دی۔ کس طرح ایچ۔ ایچ منرو کی کہانی نے پہلی مرتبہ لفظ رومانس کے مفاہیم منکشف کیے۔ چند ماہ بعد ایک فلسفی کیا آیا دماغ کو بخار ہونے لگا، ہمیں سائنس کے حقیقی معنی بتائے و آرٹ کا رشتہ استوار کیا، برٹرینڈ رسل نے ہم پر بڑا ظلم کیا۔

کچھ دنوں بعد اوسبرٹ سٹویل کا نزلہ و زکام پر مضمون کیا پڑھ لیا تمنا ہی مچل گئی، مزاح ایسا بھی مسحورکن ہو سکتا ہے اور کسی بیماری کو ایسی قدرو منزلت بھی نصیب ہو سکتی ہے۔

اور ہاں رابرٹ ایچ تھو لیس کا مضمون “الفاظ کی جذباتی وابستگی” تاعمر ادراک بخشے گی کہ کونسا لفظ سماج میں نفرت، تعصب و دل آزاری کا باعث ہو سکتا ہے۔

لنسیلٹ وائٹ کا ذکر ہوا کہ “سنہرے خیالات کہاں سے آتے ہیں”، شعور و لاشعور کی گتھیاں کہاں سلجھتیں، البتہ غالب کا شعر دلوں پہ نقش ہوگیا

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے

ایک دن گہری بصیرت و ژرف نگاہی کے حامل رے براڈ بری سے ملے، وہ جسے برسوں قبل معلوم ہوگیا تھا کہ آنے والے وقتوں میں دھرتی کے باسیوں پہ کیا گزرے گی۔

جیمز تھربر نامی اک صاحب نے جدید دور کے شکست خوردہ انسان کا استعارہ “والٹر مٹی” کی زندگی کا خفیہ راز بتایا تو فرائیڈ کی تحلیل نفسی تک بات پہنچ گئی۔

وقت گزرتا گیا ہم نے جارج آرویل کی کھینچی ایک تصویر دیکھ لی، رات سو نا سکے، فرانس کے ہسپتال میں موت کا انتظار کرتے دوستوفسکی کے “ذلتوں کے مارے لوگ” و فرانز فینن کے “زمین کے مطعون ” ایسے مریضوں کا حال جانا۔

کیسے کیسے نابغوں سے متعارف ہوئے۔ سقراط، المعری، دانتے، شیکسپیئر، فوسٹر، کافکا، سارتر، محمد اسد، کیٹس، شیوکمار سے لے کر لیونارڈو ڈونچی، بیتھوون، موزارٹ، سلیل چوہدری، رابرٹ فسک، کلدیپ نئیر، خالد حسن، منوبھائی اور وجاہت مسعود کو جاننے کی سعادت حاصل ہوئی۔

کتنی شرارتیں کیں، رنگوں کے تہوار پر پکوان بنائے، گیت گائے، بارش پر گلزار کی نظمیں سنیں، جاڑے کی دنوں میں کھلے صحن میں سورج کی روشنی اوڑھ کر تلخیص کرنے کی ادھوری کوشس کی۔

بیتے دنوں کا ذکر ختم نا ہوا آخر ٹوکنا پڑا، بچوں نے پھول دیے۔ آٹو گراف (نوجوان ذہنوں کی نفسیات اور رویوں کی بالیدگی و تطہیر ہمارا شیوہ ہونا چاہیے۔ آپ لوگ ہمارا حقیقی اثاثہ ہیں۔ اگلی نسلوں کا روشن مستقبل آپ کی وسیع النظری، فکری اصابت اور شخصیت سازی سے متصل ہے۔) دیتے وقت بروک فیلڈ کا بوڑھا چپس یاد آگیا:

“کبھی کبھی مجھے یاد کرلینا، میری یادوں میں تو تم ہمیشہ رہو گے۔ “

طلبا چلے گئے، میرے پاس کیا رہ گیا۔

آنکھوں میں نمی اور خوب صورت یادیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments