انٹرنیٹ کا اثاثہ یا مرنے والی کے راز؟


کچھ عرصہ پہلے وال اسٹریٹ جرنل میں ایک وفات شدہ لڑکی کے انٹرنیٹ کے اثاثے یا اس کے چھوڑے ہوئے اکاؤنٹس کے متعلق ایک مضمون پڑھ رہی تھی کچھ عجیب سی کیفیت ہوئی اس سولہ سالہ لڑکی کو بڑی آنت کی بیماری تھی، وہ اپنے آخری ایام میں زیادہ تر وقت کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر گزارتی تھی۔ اس کے پاس ای میلز، فیس بک، ٹویٹر اور دوسرے کئی اکاؤنٹ تھے جس سے وہ اپنے آن لائن دوستوں اور باقی دنیا کی دلچسپیوں اور سرگرمیوں سے واسطہ اور رابطہ رکھتی تھی۔

اس کے دنیا سے جانے کے بعد اس کی دوسری بہن ان صفحات کو کھول لیتی تھی جو کھلے ہوئے تھے لیکن جب پاس ورڈ کا مرحلہ آیا تو اسے ناکامی ہوئی۔ اس نے پاس ورڈ ڈھونڈنے کے لئے اپنے طور پر کوششیں بھی کیں جسے انگریزی میں پاس ورڈ کریک کرنا یا توڑنا کہتے ہیں۔ اور اب انہوں نے ان کمپنیوں یا انٹرنیٹ اداروں سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنی بیٹی اور بہن کی تحاریر دیکھنا چاہتے ہیں اس کے خیالات جاننا چاہتے ہیں وہ کافی کچھ لکھا کرتی تھی، شاعری بھی کرتی تھی ہو سکتا ہے وہ ان تحاریر کو کتابی صورت میں شائع کر دیں۔ اس کی بیشمار تصاویر ہیں۔ ان کے بقول ان کو اسے دیکھنے اور پڑھنے کا پورا پورا حق حاصل ہے اور جس طرح اس کی دیگر اشیاء ان کے تصرف میں آئی ہیں اسی طرح یہ بھی ان کی ملکیت اور وراثت ہے۔ اس کے لئے ان اکاؤنٹ والے ادارے ان کو پاس ورڈ مہیا کر کے ان کی مدد کریں۔

جب سے کمپیوٹر اور آنلائن سہولیات ہماری زندگی کا اہم اور لاینفک جز بن چکے ہیں۔ ہم اب اس سہولت یا علت کے اس قدر عادی ہو گئے ہیں، اس تانے بانے میں، مکڑی کے جالے میں بری طرح الجھ چکے ہیں۔ ہماری تمام تر خط و کتابت، بات چیت، لکھائی پڑھائی، تمام تحاریر اسی کمپیوٹر، ( اس کو آپ جو بھی نام دے دیں، نوٹ بک، منی، لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ، پی سی ) جو بھی کہہ دیں اسی پر ہیں۔ بلکہ گوگل، یاہو، ہاٹ میل، فیس بک، ٹویٹر، پکاسا، شٹرفلائی اور اور اور… پر ہیں۔ تمام تصاویر یہیں محفوظ ہیں۔ کیمرے سے تصاویر اتاریں اسی پر ڈال دیں اور اسی پر وضع شدہ مختلف ذرائع سے اپنے اعزاء و اقارب سے شریک کر لیں۔ سارے البم اسی پر ہیں۔ انہی اکاؤنٹ پر مختلف فولڈرز بنا کر ان میں تحاریر کو عنوانات اور دلچسپیوں کے لحاظ سے تقسیم کیا ہوا ہے۔ اور زیادہ ترتیب دینے کو جی چاہا تو بلاگ بنا ڈالا یا ویب سائٹ بنا ڈالی، فیس بک پر ڈال دیا بلکہ فیس بک کی ایک اور اتنی وسیع دنیا ہے۔ فون ہے تو وہ بھی اسی قسم کا اب ایک موبائل فون سے زیادہ موبائل کمپیوٹر بن چکا ہے ۔

کاغذ کا استعمال تقریباً متروک ہو رہا ہے لکھنا تو دور کی بات پرنٹ آؤٹ بھی بہت کم نکالتے ہیں اکثر خیال آتا ہے کاغذ کا غیر ضروری ڈھیر لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ ماحولیات کے دوست کہتے ہیں کاغذ کا استعمال کم کر کے ماحولیات پر احسان کریں۔ ان کمپیوٹروں سے پہلے سب کچھ کاغذ پر ہی لکھا مل جاتا تھا مرنے والے یا والی کے اچھے برے تمام راز فاش ہو جایا کرتے تھے۔ ورنہ ردی کی نذرہو جاتے

بقول چچا غالب
چند تصویر بتاں اور کچھ حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ سامان نکلا

ہم بذات خود تو اتنے امتداد یا انقلابات زمانہ سے گزرے ہیں کہ کافی ساری یادداشتوں اور خطوط کو اپنے ہاتھوں سے جس دکھ و تکلیف سے تلف کیا ہے وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ اور کافی ساری ضائع ہو گئیں۔

پرکھوں کے ساتھ یہ صورتحال نہیں ہوئی

ان کی یہی تحاریر بعد میں ہمارے سامنے آئیں، میں تو اپنے دادا جی کی لکھائی دیکھ کر حیران رہ گئی گلستان سعدی کے کناروں پر انہوں نے فارسی میں جو دلکش حاشیہ آرائیاں کی ہوئی ہیں ان کی بچی ہوئی تحاریر اب تو خاصی کرم خوردہ ہو گئی ہیں والد صاحب نے تو ایک ایک خط سنبھال کر رکھا ہوا ہے پورے بکس بھرے ہوئے ہیں پوری ایک تاریخ محفوظ ہے ان کے ابتدائے ملازمت کے رومن میں لکھے ہوئے خطوط ہیں۔ پچھلے سال بھائی کو جوش آیا تو زندہ افراد کو ان کے اپنے تحریر کردہ خطوط واپس کر دیے ان خطوط اور نامہ و پیام کا بھی کیا وقت تھا۔ میری ایک سہیلی کے والد کا ٹرانسفر ہو گیا اس کے خطوط والد صاحب کے پتے پر آتے تھے اور سینسر ہو کر مجھ تک پہنچتےتھے۔ آدھے سے زیادہ خط فراق کے اشعار سے بھرا ہوتا تھا۔
چلا چل لفافے کبوتر کی چال

محبت جو ہوگی تو دے گی جواب

قسم کے ’دو چار خطوط تو انہوں نے برداشت کیے اور پھر بالآخر ہمارا دائمی فراق ہو گیا ایک اور دوست لفافے کو کچھ ایسا معطر کر کے بھیجتی کہ ابا جی کو اس کے اخلاق پر بھی کافی شک ہوا۔ آج کل ماں باپ کو دھوکہ دینا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اوروالدین بھی بدل گئے ہیں کافی روشن خیال ہو چکے ہیں۔ اگرچہ اس زمانے میں بھی چالاکوں کی کمی نہیں تھی۔ ہمارے کچھ اعزا جو بیرون ملک مقیم تھے ان کے خطوط پورے خاندان کے لئے مشترک ہوتے تھے سب خوب لطف لے لے کر پڑھتے ایک عزیز کا تو طرز تحریر ہی اس قسم کا ہوتا تھا فلاں، فلاں، فلاں کے لئے مضمون واحد ہے۔

کچھ اسی قسم کا جو اب ہم ایک ای میل کو کئی لوگوں کے ساتھ شریک کردیں۔ یہ سب باتیں اب خواب و خیال ہو گئیں اب وہ عزیز و اقارب جو کمپیوٹر استعمال نہیں کرتے ان سے تقریباً رابطہ ہی ختم ہو گیا ہے خط لکھنے اور بھیجنے کا رجحان ایسا ختم ہوا ہے کہ ہاتھ کی لکھائی شاذونادر ہی نظر آتی ہے۔ ایک صاحب نے بتایا میرے ساتھ بہت بڑی ٹریجڈی ہو گئی ”اللہ خیر کرے مجھے تو بڑی گھبراہٹ ہوئی“ کہنے لگے میں ایک صاحب پر بہت دلچسپ مضمون لکھ رہا تھا کہ میرا کمپیوٹر کریش ہو گیا میں نے کہا کہ یقیناً انہوں نے کوئی تعویذ گنڈا کر دیا ہوگا۔ ایسا میرے ساتھ بھی ہوا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ کچھ تحاریر آن لائن تھیں تو دوبارہ مل گئیں۔ ہم کمپیوٹر کے ماروں کا تو یہ حال ہوگا ہمارے دنیا سے جانے کے بعد

نہ ہی پاس ورڈ ملا نہ ہی اکاؤنٹ کھلا
مرنے والی کا راز ساتھ ہی مرقد میں گیا

مجھ جیسے خانہ بدوش کی آدھی زندگی اس کمپیوٹر میں قید ہو گئی ہے یہی میری کتاب ہے، یہی میرا اخبار ہے، تلاوت ترجمہ اس سے سن اور پڑھ لیتی ہوں یہی میرا ریڈیو اور ٹی وی ہے یہی میرا روزنامچہ یہی قلم یہی قرطاس زیادہ تر ڈرامے اور پروگرام اس پر دیکھ لیتی ہوں، یہیں میرے تصاویر کے البم ہیں۔ میری بیشتر کلاسز اس پر ہوتی ہیں بلکہ آپ سب کا حال بھی کچھ مجھ سے مختلف نہ ہوگا اب تو میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ اصلی کتاب کو نہ ہی اٹھاؤں ایک زمانہ تھا کہ نیند کتاب، اخبار یا رسالہ پڑھتے ہوئے ہی آتی تھی اتنا برا چسکا تھا۔ اب ان چھوٹے ہلکے پھلکے نوٹ بک اور ٹیبلٹس کو میں ان کے نعم البدل کے طور پر استعمال کرتی ہوں۔ بالکل ایک کتاب کی طرح جب میرا نیا منی لیپ ٹاپ آیا تھا تو اس کا نام میں نے رکھا، ”میرا نیا دوست“ ۔ پہلے جو دوستی کتابوں سے تھی اب اس سے ہوئی۔ جب۔ کہ بعض کہتے ہیں کہ جب تک کتاب کو چھو نہ لیں تسلی نہیں ہوتی۔

وال سٹریٹ والا مضمون پڑھنے کے بعد پہلا کام میں نے یہ کیا کہ اپنے پاس ورڈز اپنی ایک ڈائری میں لکھے اور پاس ورڈ بھی کتنے ہیں اللہ کی پناہ انٹرنیٹ اکاؤنٹوں کے، بنک اکاؤنٹوں کے الگ، کریڈٹ کارڈز کے الگ، باقی دکانوں یا سٹوروں کو تو جانے دیجئے اب تو تمام بل سٹور کی رسیدیں بھی ای میل میں آتی ہیں اور اسی کے ذریعے ادائیگی ہوتی ہے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ آئے دن اکاؤنٹ کا اغواء ہو جاتا ہے اور پھر کوئی نیا کوئی اچھوتا پاس ورڈ ( ایک کرم فرما نے اس کا اردو ترجمہ کیا حرف مرور) ڈھونڈنا پڑتا ہے جو کہ اگر نہ لکھو تو خود بھی یاد نہیں رہتا۔

سوچا کیا خبر بعد میں میرے بچوں کو تجسس ہو کہ امی کا آدھا بلکہ بیشتر وقت تو کمپیوٹر پر گزرتا تھا نہ جانے کیا کیا گل کھلاتی ہوں گی ؟ ورنہ اس بھاگتے دوڑتے زمانے میں کس کے پاس فرصت ہے جو گیا سب کیا دھرا ساتھ ہی گیا! حفظ ما تقدم کے طور پر اگر کسی کو خیال آیا تو اسے دقت نہ ہو۔ میری ایک دوست نے مجھے مشورہ دیا کہ اپنی سوانح عمری لکھ کر رکھ دو اور بچوں کو وصیت کردو کہ وہ بعد میں شائع کردیں۔ میں نے کہا اتنا کٹھن اور غیر دلچسپ کام ان کے لئے چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی اس لیے مجھے جو اپنا مطبوعہ غیر مطبوعہ جو کچھ ملا اس کے دو مجموعے بنا کر جلدی سے شائع کر دئے۔ سوچ رہی ہوں باقی کو بھی جلدی سے ٹھکانے لگا دوں میرے پاس روزانہ اس قدر ای میلز آتی ہیں ان میں سے آدھی تو بغیر پڑھے حذف یا ڈیلیٹ کر دیتی ہوں

کتنی تو سپام یا جنک میں چلی جاتی ہیں۔ ضروری کو میں فوراً پڑھتی اور جواب دیتی ہوں دلچسپ کو روک لیتی ہوں کہ فرصت میں پڑھوں گی اور اکثر یہ فرصت بہت دیر سے آتی ہے یا آتی ہی نہیں۔ وہ تو اللہ بھلا کرے ان ای میل سروس مہیا کرنے والے اداروں کا کہ بے حساب ای میلز آ رہی ہیں جا رہی ہیں اور اکٹھی ہو رہی ہیں اور انہوں نے ہمیں یہ سہولت ایک طرح سے مفت مہیا کی ہوئی ہے اور یہی اس تمام سلسلے کا گورکھ دھندہ ہے ٓ

وائے فائے نے نکما کر دیا مجھ کو
ورنہ میں بھی آدمی تھی کام کی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments