منفی سوچ کا اژدھا


”یہ پاکستان ہے بھائی یہاں کچھ ٹھیک نہیں ہو سکتا“
”یہاں کسی پر بھروسا مت کرنا“
”قصور لڑکی کا ہی ہے“
”ہماری تو قسمت ہی خراب ہے“
”مجھے تو کوئی امید نظر نہیں آتی“
”یہ تو ہے ہی کافر“
”دیکھ لینا یہ منصوبہ بھی ناکام ہی ہو گا“
”یہ یہود و نصاری کی سازش ہے“

گھر میں، دفتر میں، سفر کرتے ہوئے اور دوستوں کی محفل میں ہمیں اکثر ایسے ہی منفی اور مایوس کن جملے سننے کو ملتے ہیں۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں منفی سوچ کا راج ہے۔ کوئی بھی مثبت بات ہو خبر ہو یا کوئی مثبت قدم ہماری اس طرح سے توجہ حاصل نہیں کر پاتا جتنا ہم منفی باتوں یا خبروں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اخبارات اور نیوز چینلز ہماری زیادہ سے زیادہ توجہ حاصل کرنے کے لیے منفی خبروں کو مصالحے دار بنا کر پیش کرتے ہیں۔

چاہے مذہبی حلقوں کی گفتگو ہو یا سیاسی، ایک دوسرے کے متعلق مثبت بات کرنا شکست کے مترادف گردانا جاتا ہے۔ ہماری گفتگو میں جب تک کسی کی برائی نا کی جائے کسی کی کردار کشی نا کی جائے ہمیں مزا نہیں آتا۔ مثبت اور امید بھری باتیں ہمیں جلد ہی بور کرنے لگتی ہیں۔ لیکن خطرناک بات یہ ہے کہ ہمیں احساس بھی نہیں ہو پاتا اور یہی منفی سوچیں، باتیں اور رویے تعصب، حسد، جلن اور نفرت میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اور تعصب، حسد، جلن اور نفرت پر مبنی رویے معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔

جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ سوچ سے رویے اور رویوں سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے، سوچ منفی ہو گی تو منفی رویے ایک منفی معاشرہ تشکیل دیں گے۔ ہمارے معاشرے میں عمومی طور پر عدم اعتماد کی فضاء پائی جاتی ہے، ہم لوگوں اور ان کے عزائم کو عموماً شک اور تعصب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مذہبی اور معاشرتی ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ ہم دوسروں کے کردار کو انتہائی باریک چھاننی سے چھانتے ہیں اور چھوٹی سے چھوٹی کمی کمزوری بھی ہماری نظر سے اوجھل نہیں ہو پاتی۔

ہم اس قدر منفی ہو چکے ہیں کہ زندگی کے بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے معاملات میں منفی پہلو تلاش کر لیتے ہیں۔ روزمرہ کے لین دین کے معاملات ہوں، رشتوں کے مسائل ہوں، دفتری امور یا قریبی دوستوں کے معاملات ہمارے فیصلے منفی سوچوں اور رویوں سے مغلوب رہتے ہیں۔ ملالہ کے نوبل پرائز کے پیچھے بھی ہم سازش ڈھونڈ لیتے ہیں، ایدھی جیسی غیر متنازع شخصیت کو بھی کچھ حلقے شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، پولیو اور کرونا ویکسین کے پیچھے بھی کوئی نا کوئی سازش نظر آ جاتی ہے۔

اگر کوئی مثبت رویہ اپنائے یا مثبت بات کرے تو اسے مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ”یہ پاکستان ہے بھائی یہاں کچھ ٹھیک نہیں ہو سکتا“ ہم ہر وقت منفی سوچ کا عدسہ ہاتھ میں لیے موازنہ کرتے رہتے ہیں اور اس سماجی برائی کی وجہ سے اپنی اور دوسروں کی زندگی عذاب بنا دیتے ہیں۔ حالت تو یہ ہے کہ جب ٹی وی یا سوشل میڈیا پر ریپ یا جنسی ہراسانی کے واقعات سامنے آتے ہیں تو عوام کا عمومی رد عمل اس قدر منفی ہوتا ہے کہ قصوروار عورت کو ہی جانا جاتا ہے۔

موٹر وے پر ریپ کا واقعہ، نور مقدم قتل کیس اور حالیہ مینار پاکستان پر ہونے والے واقعے پر عمومی عوامی ردعمل معاشرے پر غالب منفی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ منفی سوچ کا ہی اثر ہے کہ ہمارے اپنے اندر چاہے ہزار نقائص ہوں مگر ہم دوسروں کی ذات میں کاملیت ڈھونڈتے ہیں۔ ہمارے معیار پر تو شاید اولیاء کا کردار بھی پورا نہ اتر پائے۔

حضرت عیسی علیہ اسلام کا قول ہے ”تو دوسرے کی آنکھ میں تنکا تو دیکھ لیتا ہے مگر اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں دیکھتا“ ۔ میڈیا پر ہم ایسے منفی رویوں کا اکثر مشاہدہ کرتے ہیں جہاں شخصیات خاص کر کے عورتوں کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ کوئی چاہے جتنی ہی معنی خیز بات کرے، علمی بات کرے، اصلاحی بات کرے، یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کیا کہا جا رہا ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون کہہ رہا ہے، اس کی صنف کیا ہے، اس کی ذات کیا ہے، اس کا مذہب کیا ہے، کس فرقے سے تعلق ہے، اس کے باپ دادا سے کیا گناہ ہوا تھا، کیا کھاتا ہے کیا پیتا ہے کیا پہنتا ہے، اس کا کیا مفاد ہے۔

ہمارے معاشرے کی اسی منفی سوچ اور رویوں کا نتیجہ ہے کہ ہر وقت اخلاقیات کا درس سننے اور مذہبی تعلیمات کی بھرمار کے باوجود بھی اصلاح معاشرہ کا عمل سست ترین ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ تعصب، حسد، جلن اور نفرت کی زنجیریں ہمیں معاشرتی اور مذہبی ہم آہنگی سے دور دھکیلتی جا رہی ہیں۔ بڑی آسانی سے دوسروں کو غدار اور کافر قرار دینے والی فیکٹریوں کے پیچھے بھی وہی منفی سوچ کار فرما ہے جو کہ نفرت کا اژدھا بن کر پورے معاشرے کو نگلتی جا رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہم منفی کیوں سوچتے ہیں؟

ہم میں سے ہر کسی کو کبھی نا کبھی کسی ایسی صورتحال کا سامنا ضرور ہوا ہو گا جب کسی نے ہمیں تضحیک کا نشانہ بنایا ہو یا ہماری اصلاح کرنے کی کوشش کی ہو۔ تنقید کا اثر ہمارے دماغ پر تعریف سے زیادہ ہوتا ہے۔ بری خبر اکثر اچھی خبر سے زیادہ اپنی طرف توجہ مبذول کراتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منفی واقعات ہمارے دماغ پر مثبت واقعات سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ منفی سوچ اور رویے ہمارے طرز عمل، ہمارے فیصلوں اور یہاں تک کہ ہمارے تعلقات پر بھی گہرا اثر ڈالتے ہیں۔

منفی سوچ کے حامل افراد شکوک و شبہات کا شکار رہتے ہیں، دوسروں پر اعتماد نہیں کر پاتے، دوسروں میں صرف برائیاں ڈھونڈنے کے چکر میں بہتر تعلقات استوار نہیں کر پاتے، حالات کا رونا روتے رہتے ہیں، اپنی شکستہ حالت کا ذمہ دار صرف دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔

منفی سوچ اکثر ڈپریشن یا عدم تحفظ کی پیداوار ہوتی ہے۔ یہ زندگی کے ناخوشگوار واقعات، جسمانی بیماری، شخصیت کے مسائل اور مادہ پرستی سے منسلک ہوتی ہے۔ زندگی میں دوسری عادات کی طرح، منفی سوچنا بھی ایک عادت بن جاتی ہے۔ متواتر تنقید کا سامنا، عدم اعتماد کی فضاء، خود پسندی، اور حقیقت سے انکار جیسے عوامل ہمارے اعصاب پر ایسا اثر انداز ہوتے ہیں کہ دماغ ہمیں ہر وقت اداس رہنے کی تحریک دیتا ہے جس کی وجہ سے ہم دوسروں کی خوشی اور ترقی دل سے برداشت نہیں کر پاتے۔ ہم حقیقت پسندی سے دور ہوتے جاتے ہیں جس کی وجہ سے منفی سوچ کے حصار کو توڑنا مشکل ہوتا جاتا ہے۔ لیکن خوشی اور تسلی کی بات یہ ہے کہ منفی سوچنا ایک عادت ہے اور زیادہ تر عادات کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک عادت کو ختم کرنے میں 21 دن لگتے ہیں۔

منفی سوچ پر قابو کیسے پایا جائے؟

سوچ سے رویے اور رویوں سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے، اگر افراد کی انفرادی سوچ مثبت ہو جائے تو معاشرہ بھی مثبت ہو جائے گا۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ منفی سوچنا ایک عادت ہے اور عادت ختم کی جا سکتی ہے۔ اگر منفی خیالات ہمارے اعصاب کو قابو کر سکتے ہیں تو مثبت خیالات بھی ایسا کر سکتے ہیں اور مثبت سوچنا بھی ایک عادت بن سکتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، خوش رہنا اور مثبت سوچنا حالات کے مرہون منت نہیں بلکہ یہ ہماری چوائس ہے۔ منفی سوچ پر قابو پانے کے لیے چند تجاویز:

صرف برائی پر اپنی توجہ مرکوز مت کریں۔ دنیا میں اچھائی اور برائی دونوں کو دیکھیں۔ آپ جتنا حقیقت پسند بنیں گے اتنا ہی آپ اپنی توانائی مثبت پر مرکوز کر سکیں گے۔

موجودہ لمحات کا لطف اٹھائیں۔ ماضی کی غلطیوں اور مستقبل کے خوف سے متعلق سوچنے سے پرہیز کریں۔ اگر منفی خیالات سر اٹھائیں تو فوراً اپنی زندگی میں موجود تین مثبت چیزوں کے بارے میں سوچیں۔

مثبت سوچنا ایک عادت ہے اور عادت کو پختہ کرنے کے لیے روزانہ اس کی مشق کرنی پڑتی ہے۔ ایسی سرگرمیوں میں حصہ لیں جو خوشگوار خیالات پیدا کرتی ہیں، جیسا کہ اچھی کتاب پڑھنا، اپنے پیاروں کے ساتھ معیاری وقت گزارنا، مراقبہ کرنا، ورزش اور سیر و تفریح وغیرہ۔

ایسا نہیں کہ منفی خیالات دماغ میں آنا رک جاتے ہیں لیکن مثبت لوگ منفی خیالات کو بھی ایک تحریک کے طور پر لیتے ہیں اور دماغ پر سوار کرنے کی بجائے مسائل کا حل نکالتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ آئینہ دیکھیں اور اور آپ کو اپنا وزن بڑھا ہوا محسوس ہو تو اس کی بجائے کہ آپ کڑھنا شروع کردیں آپ وزن کم کرنے کا چیلنج لیں اور اچھا لائف سٹائل اپنائیں۔

آخری اور اہم بات، منفیت متعدی ہے، کسی کو اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کو مایوسی میں دھکیلے، منفی لوگوں سے ملنے کی بجائے ان لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں جو آپ کی پرواہ کرتے ہیں اور جن سے مل کر آپ پرامید اور مطمئن محسوس کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments