جنرل صاحب! قومی سیاسی ایجنڈے کا تعین آپ کا کام نہیں


یوم دفاع سے خطاب کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان اصولوں کی رہنمائی کی ہے جن کی بنیاد پر ہی پاک فوج معاشرے میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے اور ملک ایک پرامن، ترقی پذیر اور اقوام عالم میں قابل احترام قوم کے طور پر اپنی پہچان بنا سکتا ہے۔ جنرل صاحب کی باتوں سے کسی اختلاف کی گنجائش نہیں ہے لیکن انہیں یہ باور کروانا اہم ہے کہ یہ باتیں ان کے مقام و مرتبہ اور عہدہ سے مطابقت نہیں رکھتیں۔

یوں تو اچھی بات کوئی بھی کہے اور کہیں سے بھی سنائی دے تو اسے پلے باندھ لینا چاہئے لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ میں فوج اور جمہوری نظام کے درمیان جاری دھینگا مشتی کی صورت حال میں یوم دفاع کے موقع پر صدر مملکت، وفاقی وزرا، چئیرمین سینیٹ، اپوزیشن لیڈر اور ارکان اسمبلی کی موجودگی میں آرمی چیف نے آئین کی سربلندی پر جن خیالات کا اظہار کیا ہے اور جس طرح جمہوریت کو پاکستان کے لئے اہم قرار دیا ہے، وہ سوالوں کا جواب فراہم کرنے سے زیادہ الجھن پیدا کرنے اور تشویش کا سبب بنتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ملک میں پرویز مشرف کا فوجی دور ختم ہونے کے بعد اب تیسری منتخب حکومت کام کر رہی ہے اور کسی نہ کسی صورت میں اسمبلیاں بھی جمہوری و آئینی نظام میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔

یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان تین ادوار میں عوام نے تین ’مختلف‘ پارٹیوں کو ووٹ دے کر اقتدار تک پہنچایا ہے۔ جس سے یہ دلیل تلاش کی جاسکتی ہے کہ کوئی سیاسی پارٹی جب عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اتری تو وہ اس کے خلاف ووٹ دے کر اس کے مد مقابل پارٹیوں کو اقتدار تک لے آئے۔ پہلے پیپلز پارٹی، پھر مسلم لیگ (ن) کو موقع دیا گیا لیکن ان دونوں نے جب عوام کے مسائل حل نہیں کئے تو انہوں نے عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف کو کثیر تعداد میں ووٹ دے کر اقتدار تک پہنچایا۔ اس طرح ملک کی دو روایتی اور شناسا سیاسی قوتوں کے مقابلے میں ایک نئی پارٹی قومی منظر نامہ پر چھا گئی کیوں کہ اسے عوام کا اعتماد حاصل ہؤا۔ دوسری دونوں پارٹیاں بار بار باری ملنے کے باوجود عوام کی توقعات پر پوری نہیں اتری تھیں یا عمران خان کے بیانیہ کے مطابق ’بدعنوانی اور قومی خزانہ لوٹنے‘ میں مصروف رہی تھیں۔

اس معاملہ کو ایسے ہی مان لینے میں البتہ یہ قباحت ہے کہ سابقہ فوجی دور کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کی بیشتر مدت ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو بے اعتبار کرنے اور قومی سیاسی منظر نامہ سے نکال باہر کرنے پر صرف کی۔ جب نواز شریف کو جیل سے سعودی عرب جلاوطن کیا گیا تو اسی مقصد کے تحت ان سے دس سال تک ملکی سیاست میں حصہ نہ لینے کا حلف بھی لے لیا گیا۔ پرویز مشرف مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے تھے کہ وہ ان دونوں پارٹیوں کی سیاسی طاقت کو دفن کردیں گے۔ اس سے پہلے جنرل ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی غیر منصفانہ پھانسی کا انتظام کرنے کے بعد اگست 1988 میں اپنی موت کے وقت تک پیپلز پارٹی کی عوامی اپیل ختم کرنے اور اس کی قیادت کو عاجز کرنے کی سرتوڑ کوشش کی تھی۔ پیپلز پارٹی کو قومی سیاست سے نکالنے کے لئے ہی ضیا کے دور میں نوازشریف کو صنعت سے سیاست میں لایا گیا اور فوج کے کراؤن پرنس کے طور پر تیار کیا گیا۔ وہ اس دوران پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے وزارت عظمی کے عہدے تک پہنچے لیکن یہ سب تیاریاں بھی نہ پیپلز پارٹی کو ختم کرسکیں اور نہ ہی بے نظیر بھٹو کو ملک کا وزیر اعظم بننے سے روک پائیں۔

کارگل جنگ سے شروع ہونے والے اختلاف نے پرویز مشرف کو بطور آرمی چیف نواز شریف کا دشمن بنایا۔ بالآخر جب اکتوبر 1999 میں منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کر لیا گیا تو آئندہ 9 برس تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن کر آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ن) کے علاوہ پیپلز پارٹی کو بھی ملکی سیاست سے باہر کرنے کا عزم کرلیا۔ ان کا یہ عزم عدلیہ بحالی تحریک کی وجہ سے متزلزل ہؤا اور انتہائی مجبوری کے عالم میں انہیں بے نظیر بھٹو سے خفیہ مذاکرات کرکے انہیں این آار او دینا پڑا تاکہ وہ ملک واپس آکر نواز شریف کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ٹھونکیں۔ اس طرح پرویز مشرف کی سیاسی معاونت کرسکیں کیوں کہ جنرل ضیا کے برعکس اب پیپلز پارٹی کی بجائے مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف پرویز مشرف کا اصل ٹارگٹ تھے۔ بے نظیر کی شہادت پر ابھی تک اسرار کا پردہ ہے لیکن پیپلز پارٹی پرویز مشرف کو اس کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔

ماضی قریب کی یہ مثالیں دینے کا مقصد صرف یہ باور کروانا ہے کہ پہلے پیپلز پارٹی اور اس کے بعد مسلم لیگ (ن) دونوں کو قومی سیاست سے نکال باہر کرنے کا ایجنڈا دراصل پاک فوج کے سابق سربراہان نے اختیار کیا تھا۔ دیگر امور کی طرح یہ وراثت بھی فوجی قیادت میں تبدیلی کے ساتھ منتقل ہوتی رہی ہے۔ مابعد پرویز مشرف دور میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت میں منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے الزام میں سزا دے کر نااہل قرار دیاگیا یا میمو گیٹ اسکینڈل کے ذریعے آصف زرداری کی سیاسی مشکلات میں اضافہ کیا گیا۔ ان حالات میں 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی جیت نوشتہ دیوار تھی کیوں کہ نواز شریف کالا کوٹ پہن کر میمو گیٹ کیس میں فوج کے ترجمان بنے ہوئے تھے اور پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کرنے کی کوششوں میں شامل تھے۔ البتہ نواز شریف کے برسر اقتدار آنے کے بعد جب نواز شریف نے ’وزیر اعظم کے اختیارات‘ حاصل کرنے کی دیرینہ خواہش سے دست بردار ہونے سے انکار کیا تو ان کی حکومت کے خلاف ڈان لیکس کا پھندا تیار کیا گیا۔

2018 میں تحریک انصاف کی کامیابی اور حکومت سازی جن حالات میں وقوع پذیر ہوئی، ان کے بارے میں سیاسی و صحافتی حلقے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ ملنے کے بعد عمران خان کو مبارک باد دیتے ہوئے ’نامزد وزیر اعظم‘ کی پھبتی کسی تھی جو اب تک ان کے بارے میں استعمال کی جاتی ہے۔ رہی سہی کسر تین بار ملک کا وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف نے 17 اکتوبر 2020 کو گوجرانوالہ میں اپوزیشن اتحاد کی منعقد ہونے والی ریلی میں پوری کردی تھی۔ لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر اپنی حکومت کے خلاف سازش کرنے اور انہیں بطور وزیر اعظم برطرف کروانے میں کردار ادا کرنے کا الزام لگایا تھا۔ آج تک ان دونوں حاضر سروس جرنیلوں نے ان الزامات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔

 آرمی چیف اگر اس جرات کو بھی ’ہائیبرڈ وار فئیر‘ قرار دیتے ہوئے ملک و قوم کے خلاف ’سازش ‘ نہ کہیں تو یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ جب تک ملکی آئین کے تحت قائم کسی جائز فورم پر جنرل قمر جاوید باجوہ خود کو ایک منتخب حکومت کے خلاف سازش کرنے کے الزام سے بری الذمہ قرار نہ دلوا لیں، وہ کس منہ سے ملک میں آئین کی پاسداری، انصاف کی بالا دستی اور جمہوریت کی افادیت پر قوم کو حکیمانہ اقوال زریں سے سرفراز کرسکتے ہیں۔ اور ان کی ان باتوں پر کیوں اور کیسے اعتبار کیا جائے۔

آئین کی پاسداری کا تقاضا تو یہ ہے کہ قومی مسائل حل کرنے کے حوالہ سے جو باتیں آرمی چیف کہہ رہے ہیں اور عام کرنے کا حکم جاری کرتے ہیں، انہیں ملک کے وزیراعظم کو قومی اسمبلی کے فلور پر کہنا چاہئے اور ملکی میڈیا کو ان کی صداقت جانچنے اور نفاذ یقینی بنانے میں کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ملکی فوج کا سربراہ زندگی کے ہر شعبہ میں ’حکیم الامت‘ کا کردار ادا کرتے ہوئے یہ بھول رہا ہے کہ اسے صرف ملک کا دفاع کرنے والی فوج کی پیشہ وارانہ سربراہی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ملک کا آئین سیاسی و انتظامی معاملات میں آرمی چیف کے کسی کردار کا ذکر نہیں کرتا۔ اگر آرمی چیف انہیں اپنے فرائض منصبی کا حصہ سمجھتے ہیں اور سیاست دان ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں تو اسے آئین کی بالادستی یا جمہوری حکومت کی فعالیت نہیں، فوج کی سیاسی زور زبردستی اور سیاست دانوں کی مجبوری کا نام ہی دیاجاسکتا ہے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے درست طور سے نشاندہی کی ہے کہ جس فوج کو عوام کا ساتھ نصیب نہ ہو وہ ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے۔ لیکن ملک پر زبردستی حکومت ٹھونس کر یا منتخب حکومت کو عسکری قیادت کی خواہشات و ضروریات کا پابند بنانے کی کوششوں سے عوام کا اعتماد و اعتبار حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ نہ ہی آزادی اظہار پر نت نئی پابندیاں عائد کرکے حبس کے ماحول میں کسی ملک کی فوج کو عوامی مقبولیت کی سند فراہم کی جا سکتی ہے۔ اس اعتماد سازی کے لئے سب سے اہم ہے کہ فوج خود اپنی آئینی حدود کو پہچانے اور ملکی اداروں کو خواہ وہ پارلیمنٹ ہو یا عدالتیں اپنی مقررہ حدود میں کام کرنے کا موقع دے۔

قومی مفاد وسالمیت کی تن تنہا محافظ ہونے کی دعویدار کوئی فوج بھی عوام کی چہیتی نہیں ہو سکتی۔ یہ کام عوام کے منتخب نمائیندے پارلیمنٹ میں فیصلوں کی ذریعے انجام دیتے ہیں۔ یوم دفاع پر آرمی چیف کی تقریر میں قومی ایجنڈے کا تعین نہیں ہو سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments