صحافت: زمین اور شہری کے دفاع میں تعلق


انسانی معاشرہ ایک پیچیدہ بندوبست ہے۔ اس گتھے ہوئے سیال دھارے کی بنیادی اکائی فرد انسانی ہے۔ غالب نے لکھا ، ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال۔ 206 چھوٹی بڑی ہڈیوں پر منڈھے گوشت پوست سے بنی یہ مخلوق حیاتیاتی ارتقا کی لوح ہی نہیں، خیال کی توسیع، ترمیم اور نمود سے بھی عبارت ہے۔ قریب سات ارب 80 کروڑ کی آبادی میں ہر انسان مشاہدے، تجربے، خوشی، خسارے، واردات اور یادداشت کا ایک منفرد دفتر سمیٹے ہوئے ہے۔ ہمارے پنجابی شاعر نے کہا، کیہڑا تارو اے جیہڑا تر جائے اکھ دا اک تالاب (کون ایسا پیراک ہے جو آنکھ کا ایک تالاب پار کر سکے)۔ مجھے گورکی کو یاد کرنے کی اجازت دیجئے۔Lower Depths کے ایک غیر معمولی پرخروش مکالمے میں لکھتا ہے،

Man alone exists—everything else is the creation of his hands and his brain! Man! It is glorious! It sounds—oh—so big! Man must be respected. (انسان ہی حقیقت ہے۔ باقی جو ہے وہ انسان کے ہاتھوں اور ذہن کی تخلیق ہے۔ انسان شاندار ہے، انسان…. اس لفظ ہی سے عظمت ٹپکتی ہے…. انسان کا احترام ہونا چاہیے۔) انسان کا احترام آزادی اور مساوات کے بغیر ممکن نہیں۔

یہاں یہ مشکل پیش آئی کہ بقا اور فنا کے پیچدار راستوں میں قافلہ انسانی کو گروہی شناخت کی سنگلاخ چٹانوں نے آ لیا۔ رہن سہن، زبان، معیشت اور ثقافت کے مختلف نمونے جغرافیے اور تاریخ کا حادثہ تھے، ہم نے انہیں اجارے اور استحصال کا ہتھیار بنا لیا۔ تنوع کی خوبصورتی کو تصادم کی بدصورتی میں بدل ڈالا اور پھر ان مفروضہ فصیلوں پر نفرت، عناد اور تفرقے کے مورچے لگا لئے۔ سماج کے نامیاتی معمول کو تحفظ، آسودگی اور ترقی کی راہیں دکھانے کے لئے جو سماجی معاہدہ کیا تھا، وہ بذات خود رعایا اور حکمران کی درجہ بندی کے طوق میں بدل گیا۔ ہم ہجوم اور ریاست کے ان دیکھے گٹھ جوڑ کی صدیوں کے عذاب میں ہیں۔ بے شک کچھ ’ایسے معمورے بھی ہیں، خوشحال ہے خلقت جن کی‘۔ لیکن اس خاکدان پر نوع انسانی کی بڑی اکثریت انصاف، خوشی، آسودگی اور تحفظ سے محروم ہے۔ اس کرہ ارض پر ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم ایک صدی سے ترقی کے لفظ سے بدکتے ہیں، جدیدیت سے ہمیں خوف آتا ہے۔ علم ہمارے لئے از کار رفتہ آموختہ ہے، ماضی کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں لیکن کوئی ایسی ٹائم مشین ایجاد نہیں ہوئی جو ہمارے اہل دانش کو اٹھا کے ان کے مرغوب تاریخی جزیروں پر لے جائے۔ حال کے تقاضوں سے مفر نہیں اور حال سے آنکھ ملانے کا حوصلہ نہیں۔ یہ تو آپ نے دیکھ لیا کہ ربع صدی تک اقوام متحدہ پر تبریٰ کرنے والے ابھی حکومت نہیں بنا سکے لیکن انسانی بنیادوں پر امداد مانگنے اقوام متحدہ کے دروازے پر جا بیٹھے ہیں۔ فیض صاحب نے کہا تھا، خوں پر گواہ، دامن جلاد کچھ تو ہو / جب خوں بہا طلب کریں بنیاد کچھ تو ہو…. مشکل یہی ہے کہ تعصب، بندوق اور ناانصافی کی بنیاد نہیں ہوتی، لمحہ موجود میں طاقت کی میزان کے پلڑے ہوا میں معلق ہوتے ہیں۔ اس لرزاں منطقے پر تہذیب کی عمارت استوار نہیں ہو سکتی۔ آئیے تہذیب کی بنیادیں تلاش کریں۔

1940 کے موسم خزاں میں جرمن طیارے برطانیہ پر آگ برسا رہے تھے، ونسٹن چرچل کو نازک جنگی صورت حال پر ایک بریفنگ دی گئی۔ برطانوی وزیر اعظم نے مخدوش اعداد و شمار سے ہٹ کر ایک غیر متوقع سوال کیا۔ ’کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں؟‘ جواب ملا کہ عدالتوں میں معمول کے مطابق انصاف کی فراہمی جاری ہے۔ چرچل نے اطمینان سے کہا کہ ہمارے ملک کو کوئی خطرہ نہیں۔ ملکی دفاع اور شہری کے لئے انصاف میں یہ تعلق کوئی مدبر ہی سمجھ سکتا ہے۔ کینیڈین صحافی میلکم گلیڈ ویل نے اپنی شہرہ آفاق کتاب The Tipping Point میں نیویارک شہر میں نوے کی دہائی کے دوران سٹریٹ کرائم میں کمی کے ڈانڈے ریاست ٹیکساس میں اسقاط حمل کے معروف مقدمے Roe V Wade (1973) سے ملائے ہیں۔ اب اگر اس درویش نے یہ لکھ دیا کہ حالیہ برسوں میں پاکستان میں بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کی جڑیں حدود آرڈیننس (1979) میں ملتی ہیں تو مجھے سر پر توا باندھ کے گھر سے نکلنا پڑے گا۔ ایک مہذب معاشرہ جنس اور عقیدے کی بنیاد پر شہریوں میں تفریق نہیں کرتا۔ مہذب معاشرے میں درس گاہ سرکاری ہدایت نامے کی پابند نہیں ہوتی بلکہ فکر اور تحقیق کی آزادی کا نشان ہوتی ہے۔ تیسرے درجے کا ایک صحافی ہونے کے ناتے جہاں مجھے تشویش ہے کہ 2020 میں آزادی صحافت کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان کو 180 ممالک میں 145ویں درجے پر رکھا گیا، وہیں مجھے خوشی ہے کہ ہمارے ہاں آزادی صحافت کی صورت حال روس (150)، بنگلا دیش (152)، ترکی (153)، سعودی عرب (170)، ایران (174) اور چین (177) سے بہتر ہے۔ اس میں ہمارے لئے امید کا پہلو ہے۔ اس تناظر میں مجھے محترم صحافی سلیم صافی سے گفتگو میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے لب و لہجے سے اذیت ہوئی ہے۔ فواد صاحب نوجوان سیاستدان ہیں اور ہم عصر دنیا کی خبر رکھتے ہیں۔ مذکورہ انٹرویو میں بطور وزیر اطلاعات ان کا رویہ مناسب طور پر حساس نہیں تھا بلکہ تحقیر کا پہلو لئے ہوئے تھا۔ ہم نے اس ملک میں الطاف گوہر، لیفٹنٹ جنرل مجیب الرحمن اور میجر جنرل راشد قریشی کی صحافتی خدائی دیکھ رکھی ہے۔ ہم آسانی سے دل چھوڑنے والے نہیں لیکن فواد چوہدری تو سیاستدان ہیں۔ ان سے صحافت اور قومی مفاد کا رشتہ سمجھنے کی توقع کی جاتی ہے۔ ستمبر کے یہ دن قومی دفاع سے منسوب ہیں۔ پاکستان کے دفاع کا ذکر ہو تو قومی سلامتی کے ذمہ دار ریاستی اداروں کی پیشہ ورانہ اہلیت سے قطع نظر تین بنیادی دفاعی صفوں کوفراموش نہیں کرنا چاہیے، دستور پاکستان، پارلیمانی جمہوریت اور آزاد صحافت۔ فواد چوہدری ان دنوں صحافت کی مشکیں کسنے کا کوئی نسخہ اٹھائے پھرتے ہیں۔ آمریت کا زہر پینے والے یہ چرائتہ بھی برداشت کرلیں گے لیکن قوم کا بہترین دفاع سرکاری ترانوں سے نہیں، شفاف جمہوریت اور صحافی کے آزاد قلم سے ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments